کپتان کا مستقبل کیا ہے؟ لیس للانسان الاّ ماسعیٰ۔ انسان کے لیے وہی کچھ ہے‘ جس کی اس نے کوشش کی۔ دوسروں کی غلطیوں پر نہیں‘ زندگی اپنی ریاضت اور خوبیوں پہ بسر کی جاتی ہے۔
بات تو عمران خان سے ہوئی مگر ملاقات نہ ہو سکی۔ شاید آئندہ ہفتے۔ اخبار میں خبر یہ تھی کہ وہ اخبار نویسوں سے بیزار ہے۔ صبح سویرے اوریا نے کہا: کیا وہ پژمردگی (Depression) کا شکار ہو جائے گا؟ عرض کیا: اس کا مرض دوسرا ہے۔ ضرورت سے زیادہ اعتماد۔ پارٹی کے بہت سے لیڈر کھوٹے ہیں۔ کارکنوں کی اکثریت مخلص ہے مگر وہ بیچارے کیا کریں۔ ان کی آواز لیڈر تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ ''رہنمائوں‘‘ میں عباسی جیسے بھی ہیں‘ جسے الگ کردیا گیا۔ برطرفی سے چند روز قبل‘ اس نے یہ کہا تھا: ایسا بندوبست میں نے کیا ہے کہ اٹک سے جہلم تک میری مرضی کے بغیر عمران خان کوئی ٹکٹ جاری نہ کر سکے۔ احساس کمتری کے اس ہولناک مریض اور اس کے ساتھیوں نے پارٹی کی راہ میں اتنے کانٹے بو دیئے ہیں کہ چنتے چنتے زمانے بیت جائیں گے اور بہت سوں کی انگلیاں زخمی ہوں گی۔ اعجاز چودھری انہی کی مدد سے پنجاب کی صدارت پر مسلط ہوئے اور ایک بوجھ ہیں۔ بعض ہولناک خرابیوں کے باوجود اعجاز تو پھر بھی کام کے آدمی ہیں۔ اکثر مگر ایسے ہیں کہ نہ صرف انہیں نکال دینا چاہیے بلکہ دفاتر میں ان کے داخلے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ ایک مضبوط زنجیر کی وہ کمزور کڑیاں ہیں‘ فولاد کے حلقوں میں چکنی مٹی کے جوڑ۔
خوشامد کے فن میں جو طاق ہیں‘ ایک کے بعد دوسرے حکمران کی ''اردل‘‘ کا جو تجربہ رکھتے ہیں‘ خان کو انہوں نے باور کرایا ہے ایک انقلاب اس کے جلو میں ہے۔ ادنیٰ مفادات کے یہ کاسہ لیس‘ بہکانے کا ہنر جانتے ہیں۔ عمران خان کے باب میں اور بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ آسانی سے وہ اعتبار کر لیتا ہے اور نہیں جانتا کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔ مردم شناسی نام کو نہیں۔
ذاتی مسائل اس کے بہت ہیں۔ کرشماتی شخصیت کا حامل اور کئی کارنامے اس نے انجام دیئے ہیں۔ قوت عمل بھی اس میں بہت ہے۔ سیاسی حرکیات کا مگر وہ خوگر نہیں۔ پھر وہ مسئلہ بھی‘ اس معاشرے میں جو ہر مقبول اور مؤثر آدمی کو درپیش ہوتا ہے۔ خوشامدیوں کے گروہ‘ باور کرانے میں وہ لگے رہتے ہیں کہ زمانے کے سب تیور لیڈر کے اشارۂ ابرو پہ منحصر ہیں۔ دلیل سے بات کرنے والے متوازن اور معقول لوگوں کی راہ میں پہاڑ بن کر وہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
پچاس سال سے دنیا میں سروے کرنے والے قابل اعتبار ادارے موجود ہیں۔ ٹامک ٹوئیاں مارنے کی ضرورت کیا ہے۔ ان سے مدد لی جائے۔ پوچھا جائے کہ کیا پارٹی کی مقبولیت واقعی بڑھی ہے یا محض تحّرک؟ کوئی رکاوٹ اگر پیش نہ آئی۔ عدالتی کمیشن اگر قائم ہو گیا۔ فرض کیجیے ثابت ہو گیا کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی اور ایک سازش کے تحت۔ فرض کیجیے‘ وسط مدتی الیکشن کی راہ ہموار ہو گئی؟
مجھے اندیشہ ہے اور بہت بلند آواز سے یہ بات میں کہنا چاہتا ہوں کہ اعجاز چودھریوں‘ سیف اللہ نیازیوں اور عامر کیانیوں کی وجہ سے تحریک انصاف ایک بار پھر اپنی مقبولیت کو انتخابی کامیابی میں ڈھال نہ سکے گی۔ وہ محض چند افراد نہیں‘ کراچی سے چترال تک ایک پوری کھیپ ہیں۔ احساسِ عدم تحفظ کے مارے ہوئے۔ پارٹی کو کبھی وہ منظم نہ ہونے دیں گے۔ کسی بھی سطح پر اچھے لیڈروں کی وہ مزاحمت کریں گے۔ نالائق لوگوں پر انحصار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اہل اور دانا کو بیزار کردیا جائے۔ کتنے ہی باصلاحیت اور شاندار لوگ ہیں‘ جو کارواں میں شامل ہو جاتے مگر گھٹیا درجے کے سازشیوں سے بیزار ہو کر وہ بھاگ اٹھے۔ کنجِ عافیت کو انہوں نے بہتر جانا۔ نام لکھوں تو خلقِ خدا ششدر رہ جائے۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا: ''کن سے تم کٹے اور کن سے جڑے ہو؟‘‘
ملک کا المیہ یہ ہے کہ کبھی کوئی پارٹی پوری طرح منظم نہ ہو سکی۔ سیاسی میدان میں مغرب کا امتیاز یہی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس میں متحرک جماعتوں کے بطن سے شائستہ پارلیمنٹ نے جنم لیا۔ جرمنی اور اٹلی کو دوسری عالمگیر جنگ میں فقط جذباتیت نہیں‘ شخصیت پرستی نے تباہ کیا۔ پارٹیوں کا وجود ہی نہیں‘ ہجوم اور انبوہ ہیں۔ گڑھی خدا بخش میں پرسوں کیسا تماشا سا برپا رہا۔ حیرت سے میں نے سوچا۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام‘ قائداعظم اور نہ اقبالؔ کا ذکر‘ بس بھٹو اور اس کا خاندان۔ خورشید شاہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ سیاست جسے سیکھنی ہو وہ فخر ایشیا کے مزار پر آئے۔ اللہ اللہ‘ دمِ رخصت ختم المرسلینؐ نے ارشاد کیا تھا: دیکھو‘ میری قبر کو عبادت گاہ نہ بنا لینا۔ جہل مرکب! آزاد کشمیر کے وزیراعظم چودھری مجید نے کہا تھا: بھٹو خاندان کا میں مجاور ہوں۔ گڑھی خدا بخش اور پھر مدینہ منورہ جائوں گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دربارِ رسولؐ کی زیارت نصیب نہ ہو سکی۔
بھٹو کے کارنامے کئی ہیں مگر پہاڑ سی غلطیاں۔ پہلی حقیقی عوامی پارٹی‘ دستور کی تدوین‘ ایٹمی پروگرام کا آغاز‘ بھارت کے مقابلے میں مضبوط مؤقف‘ امریکی غلبے سے بچ نکلنے کی پیہم کوشش۔ رواداری مگر نام کو نہیں تھی۔ نعرہ عوام کا لگایا مگر اقتدار جاگیرداروں کو سونپا۔ صنعت تباہ کردی۔ خودپسند کہ 1977ء میں نہ صرف خود بلامقابلہ منتخب ہوئے بلکہ ان کے چاروں وزراء اعلیٰ بھی۔ پریس کو محکوم رکھا۔ ان کے محسن و مربی فیلڈ مارشل ایوب خان دنیا سے اٹھے تو ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے خبر نشر کرنے کی اجازت نہ دی۔ اخبارات مجبور تھے؛ چنانچہ ان میں اطلاع اندرونی صفحات پر چھپی۔ تاریخ میں ایسی تنگ دلی کی مثالیں کم ہوں گی۔ مزدوروں نے جہاں کہیں مطالبات منوانے کے لیے تحریک برپا کی‘ ریاستی قوت سے انہیں کچل دیا گیا۔ صرف کالونی ٹیکسٹائل ملز میں دو سو مزدور قتل کر دیئے گئے۔ فیڈرل سکیورٹی فورس کے نام سے ذاتی فوج بنائی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ حنیف رامے کو شاہی قلعے میں رکھا‘ اپنے جانشین معراج محمد خان کو جیل میں ڈالا۔ مصطفی کھر کو رسوا کیا اور ان کے ساتھیوں کو دلائی کیمپ میں۔ بہت ہی پڑھے لکھے آدمی‘ عصری تحریکوں سے آشنا۔ نثر نگار اور خطیب مگر ان کا ورثہ کیا ہے؟ دشمنی اور انتقام۔ احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کرایا گیا اور المناک انجام سے دوچار ہوئے۔ اولاد پر کیا گزری؟ پارٹی میں وراثت کی روایت اس طرح قائم کی کہ بالآخر داماد کے ہاتھوں رسوا ہو کر برباد ہو گئی۔
بھٹو بخیل بہت تھے۔ ہوٹل کے کمرے کا کرایہ تک دوسروں کو ادا کرنا پڑتا۔ شاید ہی کبھی کوئی شخص ان کی مہمان نوازی سے فیض یاب ہوا ہوگا۔ عمران خان انتہائی کفایت شعار ہیں مگر ہسپتال اور یونیورسٹی کے لیے ایثار کرتے ہیں۔ بھٹو ایسے سفاک اور منتقم مزاج بھی نہیں؛ البتہ خوشامد پسند۔
اقتدار کی تمنا ایسی شدید ہے کہ تجزیہ نہیں کر سکتے۔ دوسروں کے بھّرے میں آ جاتے ہیں۔ انہی لوگوں نے کپتان کو یقین دلایا تھا کہ تین دن میں شریف حکومت سرنگوں ہو جائے گی۔ پھر ایک جعلی روحانی پیشوا نے 6 ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔ ''آزادی یا شہادت‘‘ کا نعرہ اسی نے دیا۔ اعلان کرتا پھرا کہ نئی حکومت میں عہدیدار وہ نامزد کرے گا۔ ایک ذرا سی بازپرس اِس اخبار نویس نے کی تو روتا پھرا۔
سب سے اول اور سب سے بڑھ کر تحریک انصاف کو تنظیم کی ضرورت ہے۔ کارکنوں کو تربیت کی۔ ان میں سے بعض اس قدر احمق ہیں کہ مجھ ایسے خیرخواہوں پہ بگڑتے ہیں۔ علم نہ تمیز‘ عقل نہ عاقبت اندیشی۔ صلاحیت تربیت سے نکھرتی ہے۔ دہشت گردی پر پارٹی اب تک کنفیوژن کا شکار رہی۔ بجلی اور گیس‘ ٹیکس اور عدل کے نظام‘ پولیس اور افسر شاہی‘ صحت اور تعلیم پر عرق ریزی کی ضرورت ہے۔ صحیح خطوط پر آج اگر سفر کا آغاز ہو جائے تو ساڑھے تین سال بعد اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح گود میں گرے گا‘ وگرنہ وہی خواری اور رسوائی۔ کافی مقبولیت کے باوجود جو مئی 2013ء میں نصیب ہوئی۔
کپتان کا مستقبل کیا ہے؟ لیس للانسان الاّ ماسعیٰ۔ انسان کے لیے وہی کچھ ہے‘ جس کی اس نے کوشش کی۔ دوسروں کی غلطیوں پر نہیں‘ زندگی اپنی ریاضت اور خوبیوں پہ بسر کی جاتی ہے۔