تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-12-2014

ہماری کمیٹیوں کا بنیادی مقصد

تھوڑا عرصہ پہلے اچانک ہی جنوبی پنجاب کے لیے ایک علیحدہ سیکرٹریٹ اور دیگر کئی حوالوں سے نیم خودمختاری ٹائپ دینے کا غلغلہ مچا۔ میں نے یہ لفظ ''نیم خودمختاری‘‘ بھی اپنی مرضی استعمال کرتے ہوئے لکھا ہے وگرنہ اس سلسلے میں جو وسیع و عریض کمیٹی بنی تھی اس کا نام "Committe for empowerment of south punjab"تھا۔ انگریزی لفظ Empowerment کا ڈکشنری میں ترجمہ دیکھیں تو اردو کے کئی لفظ ملتے ہیں۔ مثلاً اختیار دینا‘ مختار کرنا‘ مجاز کرنا‘ مالک کرنا وغیرہ وغیرہ۔ مجھے پہلے دن سے ہی یقین تھا کہ یہ لفظ Empowerment ہمیں گولی دینے کے لیے استعمال کیا گیا ہے وگرنہ تخت لاہور یہ کس طرح گوارا کر سکتا ہے کہ اس کی ''سلطنت‘‘ جو جھاری کس کے پل سے شروع ہو کر کوٹ سبزل پر ختم ہوتی ہے آدھی رہ جائے؟ میں اس کمیٹی کا ممبر تھا‘ باوجود اس کے کہ میں اس کمیٹی کی خودمختاری کے بارے میں صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ باقاعدہ مایوس تھا لیکن صرف اپنے اندازے کی بنیاد پر میں نے اس کمیٹی سے علیحدہ ہونے کے بجائے ''برے کو اس کے گھر پہنچانے‘‘ کے مصداق‘ پوری طرح شمولیت کا فیصلہ کیا۔ میرا خیال تھا کہ چلیں کچھ آغاز ہوا ہے اور محض اپنے ذاتی شک اور خیال کی بنا پر اس سے علیحدہ ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی تمام تر قوت کو اس کمیٹی میں رہتے ہوئے مثبت انداز میں استعمال کیا جائے اور مکمل محرومی کے بجائے کچھ نہ کچھ حاصل کیا جائے یعنی جو ملتا ہے کم از کم وہ تو لیا جائے۔ 
پانچ مارچ 2014ء یعنی تقریباً نو ماہ پہلے یہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی میں جنوبی پنجاب کے اکلوتے سینیٹر اٹھائیس حاضر ممبران قومی و صوبائی اسمبلی‘ دو سابقہ ایم این اے‘ چودہ صوبائی سیکرٹریز‘ تین کمشنر‘ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کا صوبائی چیئرمین‘ بورڈ آف ریونیو کا سینئر ممبر‘ پانچ ریٹائرڈ بیوروکریٹس جن کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا‘ ایک ریٹائرڈ جج‘ دو یونیورسٹیوں سے ایک ایک پروفیسر‘ ایک ممبر پنجاب پبلک سروس کمیشن سے‘ ایک اور سرکاری افسر اور دو عام شہری تھے۔ ایک بہاولپور سے اور ایک ملتان سے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والا عام شہری یہ عاجز تھا۔ اس کمیٹی کے کل ارکان کی تعداد باسٹھ تھی۔ چیئرمین رانا ثناء اللہ اور شریک چیئرمین حمزہ شہباز تھے۔ 
کمیٹی کا پہلا اجلاس چودہ مارچ کو ہوا اور اس کے بعد مزید تفصیلی جائزہ لینے اور سفارشات تیار کرنے کے لیے پانچ ذیلی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ سات رکنی ہیلتھ کمیٹی‘ گیارہ رکنی تعلیمی کمیٹی‘ سولہ رکنی انفراسٹرکچر کمیٹی‘ دس رکنی اکنامک ڈویلپمنٹ کمیٹی اور چودہ رکنی ایڈمنسٹریٹر ریفارم کمیٹی۔ یہ کمیٹیاں بنانے سے قبل مجھ سے فون پر پوچھا گیا کہ میں کس کمیٹی میں کام کرنا پسند کروں گا۔ کئی دوستوں کے مشورے کے برعکس میں نے ہیلتھ کمیٹی میں کام کرنے کی ہامی بھری۔ میرے خیال میں جنوبی پنجاب میں تقریباً ہر معاملے میں صرف بہتری کی نہیں بلکہ بے تحاشا کام کی ضرورت ہے مگر صحت کا معاملہ بہت ہی خراب تھا اور خصوصی توجہ کا مستحق تھا لہٰذا میری ترجیح ہیلتھ سیکٹر تھی۔ اٹھارہ مارچ کو ہیلتھ کمیٹی کا اجلاس سول سیکرٹریٹ لاہور میں ہوا۔ ہیلتھ کمیٹی میں میرے علاوہ ایک ایم این اے‘ تین ایم پی اے اور دو سرکاری ممبران تھے جن میں ایک سیکرٹری ہیلتھ تھا۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والا ایم این اے اویس لغاری کبھی کمیٹی کے کسی اجلاس میں شریک ہی نہ ہوا۔ پہلے اجلاس کے آغاز میں ایڈیشنل سیکرٹری ہیلتھ نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو علم ہی ہوگا کہ یہ کمیٹی کس لیے بنائی گئی ہے اور آج ہم یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے جواباً کہا کہ پاکستان میں کمیٹیاں عموماً معاملے کو دبانے اور مٹی ڈالنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ یہ کمیٹیاں بھی دراصل جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے والے معاملے پر مٹی ڈالنے کے لیے بنائی گئی ہیں اور ان کا واحد 
مقصد ایک علیحدہ انتظامی یونٹ والے معاملے سے توجہ ہٹا کر دوسری طرف کرنا ہے۔ کمرے میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔ میں نے ہنس کر اپنے ایک طرف بیٹھے ہوئے تینوں نوجوان ایم پی ایز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ میری ہاں میں ہاں بے شک نہ ملائیں مگر آپ کم از کم اس جملے کو انجوائے تو کریں۔ تینوں نوجوان ایم پی اے ہنس پڑے۔ میں نے انہیں کہا کہ اس کمیٹی میں میرے علاوہ اور کوئی رکن ایسی باتیں نہیں کرے گا اور میں نے ایسی باتیں کرنے سے باز نہیں آنا۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ لوگ صورتحال سے لطف اندوز ہوں۔ اس کے بعد کی تمام میٹنگز نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئیں۔ دیگر ارکان نہ صرف یہ کہ میرے کمنٹس سے لطف اندوز ہوتے تھے بلکہ کسی حد تک اپنا حصہ بھی ڈالنے لگ گئے۔ 
ہیلتھ کمیٹی کی دو تین میٹنگز ہوئیں۔ میں ہر میٹنگ میں نہ صرف ملتان سے لاہور جا کر شرکت کرتا رہا بلکہ میں کمیٹی کا واحد ممبر تھا جو ہر میٹنگ میں اپنی تجاویز تحریری طور پر لے جاتا رہا اور ان تحریری تجاویز کی ایک ایک کاپی دیگر ممبران کو بھی دیتا رہا۔ ان تجاویز میں ملتان کے علاوہ ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان میں کڈنی سنٹر بنانے‘ ملتان میں کھڑے ہوئے برن یونٹ کو چالو کرنے‘ ملتان میں ڈی ایچ کیو یعنی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال تعمیر کرنے‘ کڈنی سنٹر کو فعال کرنے‘ عرصہ دراز سے پورے ملتان بلکہ بلوچستان تک کے مریضوں کو صحت کی سہولیات پہنچانے والے واحد ہسپتال نشتر کے علاوہ شہر کے دو اطراف میں چار چار سو بیڈز کے دو مزید ہسپتال بنانے‘ بہاولنگر میں میڈیکل کالج اور ٹیچنگ ہسپتال بنانے‘ ملتان میں کینسر کی تشخیص اور آگاہی کے لیے PET سکینر کی تنصیب (یہ سہولت لاہور اور کراچی کے درمیان بارہ سو کلو میٹر میں کہیں موجود نہیں) اور نشتر ہسپتال کو اپ گریڈ کر کے اس کے بیڈز کی تعداد کے مطابق فنڈز کی فراہمی شامل تھی۔ 
پچاس کی دہائی میں جب نشتر ہسپتال تعمیر ہوا تو اس کے بیڈز کی سرکاری تعداد اس ہسپتال کے مکمل ہونے کے بعد گیارہ سو تین تھی لیکن مریضوں کے بڑھتے ہوئے دبائو کے پیش نظر اس میں بیڈز کی تعداد غیر سرکاری طور پر بڑھتی گئی۔ پہلے ایک وارڈ میں شاید بتیس بیڈز ہوتے تھے جو بڑھتے بڑھتے اڑتالیس کر دیے گئے۔ ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ بچوں کے وارڈ میں تو یہ تقریباً معمول کی بات تھی کہ ایک بیڈ پر دو بچے لیٹے ہوئے ہیں۔ اب حالت یہ تھی کہ نشتر ہسپتال میں مریض تو تقریباً سترہ سو ہوتے تھے اور فنڈز گیارہ سو کے حساب سے مل رہے تھے۔ ڈاکٹروں کی تعداد گیارہ سو مریضوں کے مطابق ہے اور نرسوں کی تعداد بھی گیارہ سو مریضوں کو سامنے رکھ کر منظور کی گئی ہے۔ پیرامیڈیکل سٹاف کا بھی یہی عالم تھا اور دوائیوں کا بھی یہی حال تھا۔ گیارہ سو مریضوں کی دوائیاں سترہ سو مریضوں میں تقسیم کی جا رہی تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا تھا کہ نہ دوائیاں پوری پڑ رہی ہیں اور نہ مریض مناسب طریقے سے اٹینڈ ہو رہے ہیں۔ نہ ڈاکٹر پورے ہیں اور نہ نرسیں۔ خدا خدا کر کے نو ماہ بعد کم از کم ایک تجویز پر تو عملدرآمد ہوا ہے اور نشتر ہسپتال کے بیڈز کی سرکاری تعداد بھی سترہ سو کردی گئی ہے۔ اس کے لیے اب مزید ڈیڑھ سو ڈاکٹرز‘ تین سو کے لگ بھگ نرسیں اور اسی حساب سے پیرامیڈیکل سٹاف کے علاوہ دوائیوں کا بجٹ بڑھایا جائے گا مگر یہ سب کچھ قطعاً ناکافی ہے۔ 
گزشتہ چار سال سے نشتر ہسپتال کو مشینری کی خرید کے لیے ایک پیسہ نہیں دیا گیا۔ بیڈز کی اکثریت خستہ حال ہے۔ فرش ٹوٹے ہوئے ہیں۔ باتھ رومز ناقابل استعمال ہیں۔ مشینری پرانی ہے اور کئی مشینیں ایسے ماڈلز کی ہیں جو اب بننا بھی بند ہو گئے ہیں۔ مرمت کی مد میں سالانہ صرف نو لاکھ مل رہے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرہ ہیں۔ تخت لاہور کی عقل و دانش کا یہ عالم ہے کہ اگر شہبازشریف ملتان میں نئی مشینری بھیج دیں تو گمان کرتے ہیں کہ ملتان پر خرچے کا کوٹہ پورا ہو گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شہبازشریف ہسپتال میں نئی مشینری کی تنصیب سے نشتر ہسپتال کی مشینری کی کمی پوری ہو گئی ہے۔ ہیلتھ کا نظام وہ لوگ چلا رہے ہیں جو اس معاملے میں الحمدللہ بالکل کورے ہیں۔ صرف ہیلتھ کا ہی کیا؟ ہر معاملے میں یہی ہو رہا ہے۔ پاکستانی بیوروکریسی کو خوش فہمی ہے کہ انہیں ہر کام آتا ہے مگر یہ خوش فہمی محض ایک غلط فہمی ہے۔ 
ہاں یاد آیا۔ سب کمیٹیوں کی سب تجاویز تقریباً تقریباً فائلوں کے پیٹ میں دفن ہو چکی ہیں۔ ایمپاورمنٹ کمیٹی کے چیئرمین رانا ثناء اللہ صاحب وزارت سے فارغ ہو کر گھر جا چکے ہیں۔ شریک چیئرمین مرغیوں‘ انڈوں اور دودھ دہی جیسے اہم معاملات میں مصروف ہیں اور اگر اس سے تھوڑی فرصت ملے تو دیگر خوش رنگ معاملات ان کے منتظر ہوتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کو کسی بات کی رتی برابر پروا نہیں۔ ان کمیٹیوں سے کہیں بہتر تو وہ کمیٹیاں ہیں جو خواتین مل جل کر ڈالتی ہیں اور کسی نہ کسی کی کمیٹی تو ہر ماہ نکل ہی آتی ہے۔ ایسی کمیٹیوں کے نکلنے پر خواتین ''کٹی پارٹی‘‘ کا اہتمام کرتی ہیں۔ جنوبی پنجاب کو سہولتوں اور آسانیوں کی فراہمی کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کی تجاویز نو ماہ سے کہاں پڑی ہیں کسی کو کچھ خبر نہیں۔ میں نے کہا تھا کہ ہمارے ہاں کمیٹیاں معاملے پر مٹی ڈالنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved