تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     29-12-2014

آپ کس کے ساتھ ہیں؟

امریکہ کا نائن الیون ہوا تو دنیا بھر میں اک کہرام مچ گیا۔ سب لوگ اپنی اپنی جگہوں پر سہم کر رہ گئے اور سوائے چند ناعاقبت اندیش جنونیوں کے باقی تمام بنی نوع انسان خون کے آنسو روئے۔ اس وقت سب کی نظریں اسامہ بن لادن کی القاعدہ اور افغانستان کی جانب اٹھنے لگیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور پینٹاگان سے ٹکرانے والے جہاز وںنے ہر امریکی کی آنکھوں میں نفرت بھر دی۔ دنیا بھر میں امریکیوں کی سبکی ہوئی، حتیٰ کہ اپنے ملک میں امریکی ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے اور پوچھنے لگے کہ ''کیا ہم محفوظ ہیں‘‘۔ امریکی صدر جارج بش نے افغانستان میں ملا عمر کی طالبان حکومت اور پاکستان کے تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقت کے پاکستانی فوجی حکمران جنرل مشرف کو فون کر کے ایک ہی سوال کیا'' تم ہمارے ساتھ ہو یا ان دہشت گردوں کے ساتھ؟‘‘ جس پر جنرل مشرف نے امریکی صدر کو یقین دلاتے ہوئے امریکہ کاساتھ دینے کا اعلان کر دیا ۔ آج جب پاکستانی قوم کے133 بچے بے رحمی سے موت کی نیند سلا دیئے گئے ہیں تو ہم بھی اوباما اور کیمرون سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمنوں کے ساتھ؟
بھارت کے شہر ممبئی میں26/11 ہوا تو اس کے چند منٹ بعد بھارتی وزیر اعظم اور ان کی پوری حکومت نے اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا اور سخت ترین سزا دینے کا اعلان کر دیا۔ اس حملے کے چند دن بعد امریکہ کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس بھارت آئے تو نئی دہلی ائر پورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی دنیا بھر کے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کو دھمکی 
دی کہ اس وقت تو ہم نے صبر کر لیا ہے اور بھارت سے بھی پُر امن رہنے کی درخواست کی ہے لیکن امریکہ دنیا بھر کے سامنے پاکستان کو واضح اور کھلے الفاظ میں پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر آئندہ پاکستان نے بھارت میں کہیں بھی کسی بھی قسم کی کوئی دہشت گر دی کر نے کی کوشش کی تو پھر ہم بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے سے نہیں روکیں گے ۔
ممبئی واقعہ کے کچھ ہفتوں بعدبرطانیہ کے وزیر اعظم بھارت کے دورے پر آئے تو انہوں نے بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں ضائع ہونے والی قیمتی جانوں کے نقصان پر بھارتی حکومت سے تعزیت کیلئے آیا ہوں لیکن اس موقع پر میرا پیغام بہت ہی واضح ہے کہ اب تک مہذب دنیا کی رائے عامہ نے بہت برداشت کر لیا ہے لیکن اب اگر کبھی بھارت کے خلاف دہشت گردی کا ایسا واقعہ ہوا تو ہم بھارت کو کوئی بھی ایکشن لینے سے روکنے کی بجائے، ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ مل کر اس کے ملک کے اندر کی جانے والی دہشت گردی اور اس کے محرک کا مل کر مقابلہ کریں۔
پاکستان گذشتہ کئی سالوں سے بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں دہشت گردی کے ان گنت حملوں کا شکار ہو چکا ہے جس میں ستر ہزار سے زائد شہری اور اس کی سکیورٹی فورسز اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے سات ہزار سے زائد افسر اور جوان شہید کئے جا چکے ہیں اور ابھی سولہ دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے میں ہمارے133 بچوں سمیت کل 148 لوگ شہید کر دیے گئے ہیں جس پر محض پاکستان سے اظہار افسوس کیا گیا ۔جب امریکی صدر اوباما کا ہمارے وزیراعظم نواز شریف کو فون آیا تھا تو اوباما سے اسی طرح کھل کر سوال کیا جانا چاہیے تھا، جس طرح صدر بش نے کیا تھا کہ جناب صدر، میرے ملک کے عوام آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمنوں کے ساتھ؟۔ 
بھارت میں ایک دفعہ طاعون پھیلا تو یقین کیجئے اس کا الزام بھی بھارتیوں نے پاکستان کی آئی ایس آئی پر لگا دیا کہ اس نے جراثیم بھارت میں پھیلائے ہیں۔ یہ تو سب کے سامنے ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ ہوا تو پورا بھارتی میڈیا اور ان کی وزارت اطلاعات اور داخلہ نے چند منٹوں بعد ہی واویلا مچا دیا کہ یہ آئی ایس آئی کا کیا دھرا ہے اور پھر دنیا نے دیکھا اور اس طرح دیکھا کہ سب پر ثابت ہو گیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں درجنوں ہلاکتوں کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ بھارت کی ہی فوج کے حاضر سروس کرنل پروہت اور اس کا سنگھ پریوار ہے۔ مکہ مسجد حیدر آباد ، اجمیر بم دھماکے ، مالیگائوں اور پونا بیکری بم دھماکے کس سے پوشیدہ ہیں۔یہ کن گروپوں نے کروائے؟ جولائی 2013ء میں بھارتی میڈیا کے ہر چھوٹے بڑے گروپ نے بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ہدایات پر بھارت کے ہر شہری کے دل میں بٹھا دیا کہ ان کی اطلاعات کے مطا بق پاکستان کی آئی ایس آئی بھارت کے مختلف شہروں میں ہندو قیا دت اورا ن کی جماعتوں کے مقامی لیڈروں کے خلاف دہشت گرد کارروائیاں شروع کرنے والی ہے ۔بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب پراپیگنڈہ اس لیے کیا گیا تھا کہ بھارت کی نیم فوجی مذہبی تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے چیف موہن بھگوت بھارت کے طول و عرض میں واقع کئی شہروں کے تنظیمی دوروں پر جا رہے تھے، چنانچہ پھیلائے جانے والے اس جھوٹ کے ذریعے انہیں انتہائی اعلیٰ درجے کی فول پروف سکیورٹی میسر آتی رہی اور یہ ثابت ہو گیا کہ آئی ایس آئی کے حملوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی کہانیاں جھوٹ کے ایک پلندے اور بھارتی میڈیا کے شور شرابا کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دکن کرانیکل نے سات نومبر2014ء کی اشاعت میں اپنی رپورٹر نمرتا آہوجا کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی پلاننگ کر رہی ہے کہ بھارت کے بڑے بڑے تجارتی مراکز اور اہم ترین سرکاری مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بنا یا جا ئے۔اس رپورٹ میں شوشہ چھوڑا گیاکہ آئی ایس آئی نے اپنے ایجنٹ بھارت میں داخل کر دیے ہیں جن کے بارے میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو اطلاع مل چکی ہے اور ان کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق آئی ایس آئی نے اپنے ایجنٹوں کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ بھارت کے ریزرو بینک، ممبئی سٹاک ایکسچینج، نیو دہلی تہاڑ جیل، بھارتی سکیورٹی فورس کے ہیڈ کوارٹر واقع جالندھراور پنجاب کی پٹیالہ جیل سمیت مقبوضہ جموں کشمیر میں واقع آونتی پور جیل پر حملے کریں اور قیدیوں کو رہا کرائیں ۔وہ لوگ جو بھارتی لیڈروں کی نفسیات اور ان کی ایجنسیوں کے طریقہ واردات سے اچھی طرح واقف ہیں، اب وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ بھارت کی جانب سے کیا جانے والا یہ پراپیگنڈہ آرمی پبلک سکول میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی واردات سے پہلے ہی کیوں کیا گیا؟۔اب بھارت کی خفیہ ایجنسیوں یا دکن کرانیکل نے لکھا ہے کہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ راجستھان سے پونہ میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں انہیں اپنی تخریبی کارروائیوں کے لیے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے گولہ بارود اور اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔ اب اگر کوئی دکن کرانیکل یا بھارتی ایجنسیوں سے پوچھے کہ جناب راجستھان بارڈر کے ایک ایک انچ پر آپ نے بھاری اور مضبوط خار دار باڑیں اور بھاری سرچ لائٹیں لگائی ہوئی ہیں جن میں شام چار بجے سے صبح نو بجے تک برقی رو چھوڑ دی جاتی ہے، پھر یہ ایجنٹ کون سے راجستھان سے داخل ہوئے ہیں؟ اور بھارت سرکار کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول افغانستان میں کیا کچھ کر رہا ہے وہ بھی کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved