ہماری پارلیمانی قیادت نے پہلی بار سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور گیارہ گھنٹے کے مسلسل اور طویل اجلاس کے بعد دہشت گردی کو کنٹرول کرنے اور دہشت گردوں کو کیفرِکردار تک پہنچانے کے لئے مکمل اتفاقِ رائے سے ایکشن پلان کے نام سے ایک بیس نکاتی لائحہ عمل مرتب کیا اور وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب کے ذریعے اس کا اعلان کیا۔ ابتدا میں فوجی عدالتوں کی تشکیل کی تجویز دی گئی، لیکن اس پر بعض جماعتوں کے تحفظات تھے ، لہٰذا اُن کی طمانیت کے لئے درمیانی راستہ نکالاگیا کہ انہیں فوجی عدالت کی بجائے اسپیڈی ٹرائل کورٹس کہا جائے گا اور آئین میں دوسالہ مدت کے لیے ایسی عدالتوںکے قیام کی گنجائش نکالی جائے گی ۔ ان عدالتوں کا سربراہ فوجی افسر ہوگا، جس کی شناخت کا ظاہر کرنا ضروری نہیں ہوگا۔ ہماری سیاسی قیادت نے طویل بحث کے بعد بالآخر ایک متفقہ فیصلے تک پہنچنے کی اہلیت وصلاحیت کا جو مظاہرہ کیا، یہ ایک لحاظ سے قابلِ قدر ہے۔ اے کاش! کہ اس صلاحیت یا اجتماعی دانش کا مظاہرہ حالات کے جبر کے تحت نہیں بلکہ معمول کے حالات میں ہوا ہوتا، تاہم ''دیر آید درست آید ‘‘ کے مصداق یہ بھی بسا غنیمت ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کی اجتماعی دانش اور توقعات کے مطابق یہ جدّوجُہد نتیجہ خیز ثابت ہو، کیونکہ نتائج کا مدار عملی تنفیذ پر ہے۔
لیکن بصد ادب واحترام عرض ہے کہ ان''اسپیڈی ٹرائل کورٹس‘‘ کے قیام کے فیصلے میں ایک مستور پیغام یہ بھی ہے کہ ہمارانظامِ عدل عملی نتائج کے اعتبار سے بے فیض اور بے ثمرہے اور یہ عوام کو فوری انصاف فراہم کرنے میں بحیثیتِ مجموعی ناکام ہوچکا ہے، اِلّا ماشاء اللہ۔ ہمارا ضابطۂ قوانین (Procedural Law)جسے ضابطۂ فوجداری اور ضابطۂ دیوانی کہا جاتاہے ، حقیقی انصاف کی فراہمی میں مُمِدّومعاون بننے کی بجائے رکاوٹ بن رہا ہے ، اس میں کہیں نہ کہیں ایسا جھول ہے کہ حق داروں ، مظلومین اور متاثرین کی داد رسی اور تسکین کی بجائے باعثِ اذیت وآزار بن رہا ہے۔
قرآن وسنت کی واضح تعلیمات کا تقاضا تو یہ ہے کہ انصاف کی فراہمی شفاف ہو، اپنے اور غیر ،زیر دست اور بالادست کی تمیز سے ماورا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1)''اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لئے گواہی دینے والے بن جاؤ، خواہ یہ گواہی تمہارے اپنے خلاف یا تمہارے ماں باپ اور قرابت داروںکے خلاف ہو، (فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب ، اللہ تعالیٰ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے ، پس تم خواہشِ (نفس) کی پیروی کرکے عدل سے روگردانی نہ کرواور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اِعراض کیا، تو اللہ تمہارے سب کاموں کی خبر رکھنے والا ہے،(النساء:135)‘‘۔ (2)''اور اگر تم کوئی بات کہو تو انصاف کے ساتھ کہو، خواہ وہ (فریقِ معاملہ) تمہارا قرابت دار (ہی) ہو،(الانعام:152)‘‘۔ (3)''بے شک اللہ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچاؤ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں کیسی اچھی نصیحت فرماتاہے، یقینا خوب سننے والا دیکھنے والا ہے، (النساء:59)‘‘۔
عدلِ حقیقی کے عناصرِ ترکیبی میں خشتِ اول خوفِ خدا اور فکرِ آخرت ہے،اس کے بعد عدالت ہے، قانون ہے، گواہ ہے اور آج کل ایک اہم ادارہ وکالت کا ہے اور نامی گرامی وکلاء کی فیسیں ناقابلِ تصور ہیں ، کیونکہ وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے میں ملکۂ تامّہ اورمہارتِ کاملہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے تعلیم ِ امت کے لئے فرمایا:''تم میرے پاس مقدمات لے کر آتے ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی بہ نسبت اپنے موقف کو مؤثر دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو(جسے ہم چرب زبانی اور طلاقتِ لسانی سے تعبیر کرتے ہیں) اور میں اس کے دلائل کی روشنی میں اس کے حق میں(کسی چیزکا) فیصلہ کردوں(حالانکہ وہ درحقیقت اس کا حق نہیں بنتا)،سو جس کو میں اس کے بھائی کا حق دیدوں ، تو وہ اسے نہ لے ، کیونکہ میں اس کو آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں،(صحیح مسلم:1713)‘‘۔اس لئے کہ اُس سے بہتر کون جانتا ہے کہ چرب زبانی ، طلاقتِ لسانی ، زورِ بیان اور حجت کے زور پر جو اس نے لیا ہے، وہ درحقیقت اس کا نہیں بلکہ اس کے فریقِ مخالف کا حق ہے۔ سرورِ عالمﷺ نے اسے وعید کے طورپر بیان فرمایاکہ یہ اس کے لئے نارِ جہنم کے عذاب کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ: ''نبی ﷺ سے ایک قرض خواہ نے سختی کے ساتھ اپنے قرض کاتقاضا کیا، تو آپ کے اصحاب نے اس کو (مارنے یا ڈانٹنے) کا ارادہ کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:اس کو چھوڑ دو، کیونکہ جس کا حق ہوتاہے، اسے سختی کے ساتھ بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے، (بخاری:2401)‘‘۔
امام ثعلبی ''الکشف والبیان ‘‘ میںلکھتے ہیں:ایک انصاری شخص طُعمہ بن اُبَیرق تھا، جس نے اپنے پڑوسی قتادہ بن نعمان (اور ایک روایت میں ان کے چچارفاعہ بن زید) کے گھرسے آٹے کی بوری اور زِرہ چوری کی ۔ بوری کی پھٹن سے آٹا گرتا رہا اور اسی سے اس کا سراغ ایک یہودی زید بن سمین کے گھر تک پہنچا اور سامان مل گیا ۔ یہودی نے کہا کہ یہ سامان طُعمہ بن اُبَیرق میرے گھر رکھ کر گیا ہے۔ طُعمہ نے حلف اٹھایا کہ میں چوری میں ملوّث نہیں ہوںاور اس کا خاندان اس کے دفاع کے لئے آگیاکہ ہمارے صالح شخص کی رسوائی ہورہی ہے ۔رسول اللہ ﷺ کو خیال گزرا کہ شاید بلاوجہ اس پر چوری کا الزام لگایا جارہا ہے کہ اس دوران قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی ، جس سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ چورطُعمہ بن اُبیرق ہی تھا اور یہ شخص منافق تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حقیقتِ حال سے مطلع فرمایا:
''بے شک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اُس(علمِ حق) کے مطابق فیصلہ کریں، جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے اور آپ خیانت کرنے والوںکے وکیل نہ بنیں، (النساء:105)‘‘۔ اس کی تفسیر میں علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ''اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ جس کا موقف باطل ہو ،تو اس کی وکالت جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ باطل کی حمایت پر مبنی ہوگی جو شریعت کے مسلّمہ اصولوں کے خلاف ہے۔ پس کسی کے لئے بھی جائز نہیںہے کہ کسی کے موقف کی حقانیت کو جانے بغیر اس کی حمایت کرے...وہ مزید لکھتے ہیں:''جب مسلمانوں پر کسی قوم کا نفاق واضح ہوجائے تو اس کا حمایتی اور مُدافع(Defender)بننا جائز نہیں ہے،(الجامع لاحکام القرآن ، جلد:5،ص:377)‘‘۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر دعویٰ ناحق ہو اور باطل پر مبنی ہو۔ پس اگر کسی مدّعی کا دعویٰ حق پر مبنی ہے، تو اس کی وکالت کرنا ، اس کی حمایت اورمدافعت کرنا بلاشبہ اچھی بات ہے، کیونکہ اس میں وکیل حق دار کو اُس کا حق دلانے میں معاون بن رہا ہے اور اسلام کی نظر میں یہ ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔ لیکن اگر کسی پر یہ حقیقت آشکارا ہے کہ اس کے مدّعی کا موقف ناحق ہے اور باطل پر مبنی ہے، تواس کے باوجود اس کی حمایت کرنا، اس کا دفاع کرنا اور اس کا حق کو رَد کرنے کے لئے وکیل بننا اور اس کے ناجائز موقف کو طلاقتِ لسانی، چرب زبانی اور اپنی قو تِ استدلال سے درست ثابت کرناشریعت کی نظر میں یقینا ناپسندیدہ امر ہے اور اللہ عزّوجلّ نے اپنے رسولِ مکرّم ﷺ کو سورۃ النساء ، آیت:105میں یہی حکم فرمایا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کی روشنی میں حق پر مبنی فیصلے کیجئے اور خائنوں کی حمایت ، دفاع اور وکالت نہ کیجئے۔ مقامِ غور ہے کہ آج کل جوہمارا وکالت کا شعبہ ہے، کیا اس میں شریعت کی پاسداری کا اہتمام نہیں ہے ، حق وباطل سے قطعِ نظر اپنے موکل کا دفاع کیا جاتاہے اور اس کی وکالت کی جاتی ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے خائن کی وکالت سے منع فرمایا ہے۔اور ہمارے نظامِ عدل کی ساری پیچیدگیوں اور بے ثمر ہونے کا سبب یہی ہے ۔تنویر الابصار مع الدر المختار نے وکالت کی تعریف میں لکھا ہے کہ :''کسی شخص کا اپنی سہولت یا اپنے موقف کو بیان کرنے میں عَجز کے سبب ایسے تصرف میں اپنا وکیل بنانا جو جائز اور معلوم ہو،(ردالمحتار، جلد:8،ص:213)‘‘۔
امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں :'' وکالت جس طرح رائج ہے کہ حق کو ناحق اور ناحق کو حق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جھوٹے حلف اٹھواتے ہیں، قطعی حرام ہے اور آج کل یہی وکالت رائج ہے۔ جو تحقیق کے بعد اپنے موکل کو حق جان کر اس کی وکالت کرے ، جھوٹ بلوانے سے پرہیز کرے، اس کی وکالت اس زمانے میں بالکل نہیں چل سکتی، (فتاویٰ رضویہ ، جلد:19، ص:96)‘‘۔