ہر سال بے نظیر بھٹو کی برسی پیپلز پارٹی کی قیادت کو چند نئے اعلانات کرنے اور چند از کار رفتہ عزائم دُہرانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اجتماع چونکہ جذباتیت سے پُر ہوتا ہے اس لیے تقریریں بھی جذبات سے لبریز ہوتی ہیں۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی کی تقریب ہو اور تقریروں میں جیالا پن نہ ہو، یہ تو ممکن ہی نہیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اِس بار بے نظیر بھٹو کی برسی کے اجتماع میں تقریر کے دوران توپ کا رُخ کسی اور طرف موڑ دیا۔ پنڈال میں موجود لوگ ہی نہیں، ٹی وی پر لائیو کوریج دیکھنے والے بھی حیران رہ گئے کہ آصف زرداری سیاق و سباق سے ہٹ کر بات کیوں کر رہے ہیں۔ ویسے تو خیر اب سیاست میں سیاق و سباق کا تکلف برتنے کی روایت باقی نہیں رہی مگر پھر بھی بولتے وقت تھوڑا بہت تو خیال رکھنا ہی پڑتا ہے۔ ''سب پر بھاری‘‘ قرار پانے والے آصف زرداری نے اپنی بھرپور تقریر کے دوران ایک ہی بھاری بھرکم تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید بھی کچھ ایسی ہی بات کہہ چکے ہیں کہ فوجی عدالتوں کو جمہوریت کی خاطر زہر کا گھونٹ سمجھ کر قبول کیا ہے۔ اللہ خیر کرے۔ خورشید صاحب ہی اُس جُملے کی وضاحت فرمائیں۔خون کا گھونٹ پی کر تو انسان بچ جاتا ہے، زہر کا گھونٹ پینے کے بعد بھی بچ رہنے کی صورت کیا ہوگی؟ اگر خورشید شاہ خون کے گھونٹ کی بات کرتے تو ہمیں چنداں حیرت نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی خُون کے گھونٹ پیتی اور پلاتی آئی ہے!
والدہ کی برسی کی تقریب میں شریک نہ ہوکر بلاول بھٹو زرداری نے مخالفین کو مزید چہ مگوئیوں کا موقع فراہم کردیا۔ اُنہوں نے اِس موقع پر ٹوئیٹ کیا۔ ''آصف زرداری کمان ہیں اور میں تیر ہوں۔‘‘ یہ ٹوئیٹ سراسر غیر ضروری تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ بلاول کو کمان پر چڑھاکر مخالفین کی طرف پھینکا گیا۔ ڈھائی ماہ قبل کراچی میں جلسے کے نام پر بلاول بھٹو کی باضابطہ سیاسی لانچنگ کی گئی مگر محتاط لفظوں میں بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ لانچنگ انتہائی بیک فائر کرگئی ہے!
باضابطہ لانچنگ سے قبل بھی بلاول کو پیپلز پارٹی کی قیادت یعنی اہل خانہ نے تیر کی حیثیت ہی سے استعمال کیا تھا۔ نوک پر کڑوی باتوں کا زہر لگاکر یہ تیر متحدہ کی طرف پھینکا گیا تھا جس پر خاصا ہنگامہ برپا ہوا۔ ایم کیو ایم نے بلاول کو عمر کا ایڈوانٹیج دیا۔ یہی ایڈوانٹیج اُنہیں ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی دیا تھا۔ بعد میں شاید پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی اندازہ ہوگیا کہ شیشے کے گھر میں رہنے والوں کو دوسروں پر پتّھر نہیں پھینکنے چاہئیں۔ یُوں بلاول کو تیر یا ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے رُجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ یہ بھی بڑی بات ہے ورنہ اب ہماری سیاست میں اپنی کسی بھی غلطی یا کوتاہی سے کون سبق سیکھتا ہے؟
گڑھی خدا بخش میں آصف زرداری نے بظاہر سیاق و سباق سے ہٹ کر بِلّے کے تھیلے سے باہر آ جانے کا ذکر کیا تو لوگوں کو تھوڑی سی حیرت ہوئی۔ اگلے ہی دن یہ حیرت آصف زرداری کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ختم کردی۔ فرحت اللہ بابر کے توسّط سے جاری کئے جانے والے ایک بیان میں آصف زرداری نے کہا کہ پرویز مشرف سندھ حکومت کو ختم کرنے کی کوشش (یعنی سازش!) کر رہے ہیں۔
سابق صدر کا یہ الزام پڑھ کر مرزا تنقید بیگ کا ہنستے ہنستے بُرا حال ہوگیا۔سندھ حکومت ختم کرنے کی کوشش یا سازش سے متعلق بیان مرزا کے لیے بھرپور اور توانا لطیفے سے کم نہ تھا۔ کہنے لگے۔ ''آصف زرداری خاصے معقول آدمی ہیں۔ حیرت ہے اُنہوں نے یہ بات کہی کیسے؟ سندھ حکومت جس طور چلائی جاتی رہی ہے یا چلتی رہی ہے اُس کے پیش نظر اُسے گِرانے یا ختم کرنے کی زحمت کوئی کیوں گوارا کرے گا! ڈیڑھ سال سے بھی زائد مدت کے دوران سندھ حکومت نے جو 'کار ہائے نمایاں‘ انجام دیئے ہیں وہ اپنے لیے کھودے جانے والے گڑھے سے کم نہیں۔ ایسے میں کسی کو کیا پڑی ہے کہ کدال اور پھاؤڑا تھام کر خواہ مخواہ زمین کا سینہ چیرے؟‘‘ ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ سندھ حکومت کی راہ میں روڑے بھی اٹکائے جاتے رہے ہیں۔ اگر کام کرنے کی پوری آزادی اور اختیار ملے تو کوئی سبب نہیں کہ کارکردگی کا گراف بلند ہو اور عوام کے بُنیادی مسائل حل ہوں۔
مرزا نے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ ''اِس میں کوئی شک نہیں کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان پایا جانے والا روایتی کِھنچاؤ برقرار ہے اور دوسرے صوبوں کے ساتھ ساتھ سندھ کو بھی وفاق سے شکایات ہیں۔ مگر سارا ملبہ اِس روایتی کِھنچاؤ پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ سندھ حکومت کو گِرانے یا ختم کرنے کی سازش کرنے والے کی عقل کا ماتم ہی کیا جانا چاہیے۔
مرزا کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم نے وضاحت چاہی تو بولے۔ ''تھر میں جو کچھ ہوا کیا اُس کے بعد بھی سندھ حکومت کے خلاف کوئی سازش کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ ایک دور اُفتادہ علاقے میں غذا اور غذائیت کی کمی سے سیکڑوں بچے موت کے منہ میں جاچکے ہیں مگر اب تک کوئی سنجیدہ نہیں ہوا۔ محض تماشا دیکھا جارہا ہے۔ تھر کا بحران کسی بھی اعتبار سے اِتنا بڑا نہ تھا کہ تھوڑے سے وسائل ڈھنگ سے خرچ کرنے پر ختم نہ ہو پاتا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ایسی باتوں پر سوچنے کا صوبائی حکومت کے پاس وقت ہی نہیں۔ سندھ کی ثقافت کو بچانے اور فروغ دینے کے نام پر مالی وسائل پانی کی طرح بہائے جارہے ہیں مگر ثقافت کی زندہ علامات یعنی انسانوں کو بچانے کی فکر کسی کو لاحق نہیں۔‘‘
پیپلز پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت کیا سوچ رہی ہے، کچھ پتا نہیں چلتا۔ یا شاید لوگوں کو سب کچھ معلوم ہے اِس لیے اب کسی بھی بات پر حیرت ہوتی ہے نہ تاسّف۔ جن باتوں پر توجہ دینی ہے اُنہیں سَرد خانے یا کھٹائی میں ڈال کر غیر متعلق معاملات کا راگ الاپا جارہا ہے۔ جو حکومت اپنے وجود سے بھی مخلص نہیں اور اپنی بقاء کے لوازم بھی پُورے نہیں کر رہی اُس کے خلاف سازش کا ڈھول پیٹ کر لوگوں کی توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ یعنی زمین سے متعلق سوال پوچھا گیا ہے تو آسمان کی طرف اشارا کیا جارہا ہے۔ بہت سوچنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ عوام جمہوریت کے نام پر اپنائی جانے والی اِس روش پر تالیاں پیٹیں یا (اپنے) سَر؟