جنرل پرویز مشرف نے ملک واپسی کا اعلان کیا تو جنرل کیانی کے ایما پر ڈی جی آئی ایس آئی شجا ع پاشا دبئی جا کر ان سے ملے۔ انہیں روکنے کی کوشش کی ۔ طبعاً پرویز مشرف مہم جو آدمی ہیں؛لہٰذا اپنی کر گزرے ۔ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ بدترین کارکردگی نے انہیں اپنی مقبولیت کا خواب دکھایا۔یہ بات وہ سمجھ نہ سکے کہ 2008ء کے عام انتخابات میں قاف لیگ کو بدترین شکست سے دوچار کرتے ہوئے ، عوام نے ہمیشہ کے لیے انہیں مسترد کر دیا ہے۔ یہ بھی کہ بطور آرمی چیف ، صدر اور قاف لیگ کے عملی سربراہ کی حیثیت سے پارلیمینٹ میں اکثریت کے ساتھ پاکستانی سیاست میں جو کردار انہوں نے ادا کرنا تھا، کر دیا۔ بہرحال اپنے بہی خواہوں کا مشورہ نظر انداز کرتے ہوئے وہ لوٹ آئے ۔ 2013ء کے الیکشن میں صرف ایک نشست جیتی ۔ اپنے لیے مشکلات پید اکیں اور دوسروں کے لیے بھی۔
سیاست کا ایک معمولی طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں پرویز مشرف اب ماضی کاحصہ ہیں ۔ پھرآصف علی زرداری کے اس الزام کا مطلب کیا ہے ، جس میں پرویز مشرف کو انہوں نے سندھ حکومت غیر مستحکم کرنے ، صوبائی اسمبلی میں ہارس ٹریڈنگ کی کوشش کا مرتکب ٹھہرایا ہے ؟ سندھ اسمبلی کی 133میں سے 67یعنی پچاس فیصد نشستیں پیپلز پارٹی کے پاس ہیں ۔ صوبائی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ بالترتیب 8، 7 اور چار اراکین رکھنے والی مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ نون او رتحریکِ انصاف ایم کیو ایم کے ساتھ آملیں ۔ یا پیپلز پارٹی میں بڑے پیمانے کی شکست و ریخت ہو ۔ پارٹی کی اندرونی دھڑے بندی اس قدر واضح ہے کہ اعلانیہ طور پر زرداری صاحب کو کہنا پڑا :جسے کپتان کے ساتھ جاناہے ، چلا جائے ۔ یہ بھی کہ کارکن جتنے مرضی نعرے لگائیں ، الیکشن کے لیے ٹکٹ انہی نے تقسیم کرنا ہیں ۔ کیا نون لیگ کے ساتھ مفاہمت اور عملاً اپوزیشن سے دستبردار ہونے والے سابق صدر نے پرویز مشر ف کو ایک آسان ہدف کے طور پر نشانہ بنایا ہے؟ میرا خیال ہے کہ جلد ہی صورتِ حال واضح ہو جائے گی ۔
اتوار کے روز ایک قومی اخبار میں لکھا ہے کہ فیس بک پر اہم ترین قومی اداروں کے ایک درجن جعلی اکائونٹ چل رہے ہیں۔ پی ٹی اے کے پاس انہیں بند کرنے کی صلاحیت نہیں ۔ سالِ گزشتہ جنرل کیانی کے نام سے ایک اکائونٹ میں خود دیکھ چکا ہوں ؛حالانکہ وہ ہمیشہ ہر حال میں پسِ منظر میں رہنے کے خوگر ہیں ۔ سرکارِ دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا تھا: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کرے ۔ بغیر حوالے اور ثبوت کے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ آج کا سوشل میڈیا، بالخصوص فیس بک ہے ۔بظاہر متاثر کن نظر آنے والی ایک جھوٹی تصویر یہاں سینکڑوں لوگوں کے ذہن پہ اثر انداز ہو سکتی ہے ۔اور تو اور، کمپیوٹر پہ مہارت رکھنے والے افراد کسی بھی قومی نیوز چینل کی تصویر پر اپنی من پسند خبر لکھ کر جاری کر سکتے ہیں ۔
فیس بک پر ایک بار پھر وہی تماشا شروع ہو چکا ہے ، طالبان سے مذاکرات کے دوران جس کا منظر ہم دیکھا کرتے تھے۔ جی ہاں، فلسطین سے کشمیر اور یوکرائن تک ، عورتوں اور بچّوں کی لہولہان تصاویریہ کہہ کر پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ شمالی وزیرستان میں ''مجاہدین‘‘کے اہلِ خانہ ہیں ۔یہ پراپیگنڈہ کم عمر افراد کو زیادہ متاثر کرتااو روہ اسے آگے پھیلانے کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسی تصاویر کو محفوظ کر کے گوگل پکچر کے ذریعے کھوج لگائیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ توکئی سال پہلے سے انٹر نیٹ پر موجود ہیں ۔
سوشل میڈیا پرپروپیگنڈہ کے لیے دس بارہ افراد کی ایک ٹیم کافی ہے ، جو سینکڑوں جعلی اکائونٹ بناکر او راشتہارات کے ذریعے اپنے صفحے کو مصنوعی طور پر مقبولِ عام ثابت کر سکتی ہے ۔ مذاکرات کا وقت یاد کیجیے ۔ بات چیت آگے بڑھنے کے باوجود طالبان نے حملے جاری رکھے۔ جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا گیا ۔ مہمند ایجنسی میں ایف سی کے 23جوانوں کے گلے کاٹ دیے گئے۔ اس پر احتجاج ہوا تو دہشت گردوں نے یہ کہا : پولیس اور فوج کی تحویل میں موجود ہمارے ساتھیوں کو قتل کر کے سڑکوں پہ پھینکا جا رہا ہے ....اور یا للعجب سوشل میڈیا کے بہت سے حلقوں نے یہ وضاحت قبول کرتے ہوئے اسے اپنے دوستوں تک پہنچایا۔اس کے باوجود کہ لا پتہ افراد کے مقدمے میں عدالت قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سخت باز پرس کر رہی تھی ۔ یہ کھیل جاری رہا تو عسکری طور پردہشت گردوں کو وقتی شکست دینے کے باوجود نظریاتی سطح پر ہمیں دیر پاشکست کا سامنا ہوگا۔ ایک ایک فرد کی کھوج اگرمتعلقہ اداروں کے بس میں نہیں تو عسکریت پسندوں کی اعلیٰ قیادت کے خاتمے تک فیس بک بند ہی کر دینی چاہیے ۔
مولانا سمیع الحق کو مدارس کی جانچ پڑتال پہ تحفظات ہیں ۔ آل پارٹیز کانفرنس میں فوجی عدالتوں کی حمایت اور دہشت گردی میں ملوّث مدارس کو بند کرانے کا مطالبہ پیش کرنے والے مولانا فضل الرحمن کا لہجہ بھی بدلتا جا رہا ہے ۔ اب کی بار انہوں نے کہا کہ ایک عالمی ایجنڈے کے تحت مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ غیر رجسٹرڈ سکولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف مدارس پر انگلی اٹھائی جاتی ہے ۔یہ بات درست ہے کہ عام مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔ رجسٹریشن سے متعلق بھی مولانا کا موقف اصولی طور پر درست ہے لیکن حقیقت کو بھی دیکھنا ہو گا ۔
کالج کے زمانے میں ایک پورا سال میں نے قرآن حفظ کرنے میں صرف کیا ؛لہٰذ امجھے آپ چشم دید گواہ قرار دے سکتے ہیں ۔ عسکریت پسندی نہ بھی ہو تو فرقہ ورانہ تعصبات وہاں بہت شدید ہوتے ہیں۔اساتذہ کی اکثریت دنیاوی اور عصری تعلیم سے محروم ہے۔ دوسری طرف سیکولر طبقہ اور ملک بھر میں پھیلی ہوئی این جی اوز ہیں۔ کراچی کا مسئلہ بھی ہے ، جس کی شدّت میں کمی ضرور آئی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے مسلّح ونگ اب بھی موجود ہیں ۔چار پارٹیوں نے ٹارگٹ کلنگ کو سیاسی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار کر رکھا ہے ۔
دہشت گرد ایک ہشت پہلو عفریت کا روپ دھار چکے ۔ آزادی درکار ہے تو ہر بازو پہ ہمیں کاری ضرب لگانا ہوگی ۔ ریاست اور عوام کے خلاف بندوق اٹھانے والوں پر بھی اور ان کے جھوٹے نظریے کا پرچار کرنے والوں پر بھی ۔