تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     31-12-2014

اربابِ سیاست

یہ اس میثاق جمہوریت کا ثمر ہے‘ جسے اس ناچیز نے کاغذ کے اس پرزے سے کمتر کہا تھا‘ جس پر وہ لکھا گیا۔ اقبالؔ کو ایک بار پڑھیے ؎ 
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست 
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہ افلاک 
وہی ذہنی اور اخلاقی افلاس‘ جو ہماری سیاسی جماعتوں کا خاصہ ہے اور آج سے نہیں‘ ہمیشہ سے۔ اقبالؔ نے کہا تھا: امید کیا ہے سیاست کے پیشوائوں سے‘ یہ خاک باز ہیں رکھتے ہیں خاک سے پیوند ؎ 
وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی 
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی 
پنجاب میں یونینسٹ پارٹی‘ جمعیت علماء ہند اور کانگرس ہی نہیں‘ بعض مسلم لیگی زعما کے کارنامے انہوں نے دیکھے تھے۔ ایسے قلق سے گزرے کہ ان کی روح چیخ اٹھی۔ 
پنجاب کے وزیر اعظم سکندر حیات کے خلاف احرار نے ایجی ٹیشن کا ارادہ کیا تو وہ مذاکرات کو مائل ہوئے۔ مدعو کیا مگر چودھری افضل حق آمادہ نہ ہوئے۔ کہا: احرار کے میکلوڈ روڈ والے دفتر میں تشریف لائیے۔ جلالِ شاہی کو یہ گوارا نہ تھا؛ چنانچہ علامہ اقبال کا گھر تجویز کیا گیا۔ لطیفہ یہ ہوا کہ علامہ سے کسی نے بات نہ کی اور ذکر کیا تو آخری دن۔ چودھری صاحب وہاں پہنچے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا ''چودھری! انہاں سوراں نوں میرے گھر کیوں بلایا ای؟‘‘ جواب میں عرض کیا ''میں نئیں بلایا‘ سوراں نے بلایا اے‘‘۔ بھڑک کر علامہ نے کہا ''چودھری اے میرا گھر اے‘ سوراں دا واڑا نئیں‘‘۔ 
کوئی دن کی بات ہے کہ وزیر اعظم کو طالبان سے مذاکرات کا مروڑ اٹھا۔ عمران خان بھی ان کے ہمنوا تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی بھی۔ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں آمادہ نہ تھیں۔ سرکار میں 
پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ مذاکرات کا اعلان کر دیا گیا۔ عسکری قیادت نے آپریشن تجویز کیا تھا‘ وزیر اعظم کو بات چیت پہ اصرار تھا۔ اس پر انہیں احتیاط کا مشورہ دیا گیا۔ اوّل یہ کہ گفتگو آئین کی حدود میں ہونی چاہیے۔ ثانیاً ایک مدت مقرر کر لی جائے۔ ثالثاً طالبان کے حامی مولوی صاحبان کو شامل نہ کیا جائے‘ وگرنہ وہ اس عمل کو ہائی جیک کر لیں گے۔ پہلی شرط سے تو خود وزیر اعظم انحراف نہ کر سکتے تھے۔ باقی دونوں مشوروں کو نظرانداز کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان تو طالبان حضرت مولانا سمیع الحق قوم کی گردن پر سوار ہو گئے‘ حتیٰ کہ مذاکراتی ٹیم میں ایک گمنام آدمی کو نامزد کر دیا... باقی تاریخ ہے۔ 
جو لوگ ریاست کو مانتے ہی نہیں بلکہ اسے تباہ کرنے کے در پے ہیں۔ ملک دشمنوں سے جن کے مراسم ہیں۔ تحریک پاکستان کے مخالفین کی جو معنوی اولاد ہیں۔ منشیات‘ سمگلنگ‘ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جن کے ذرائع آمدن ہیں۔ بے گناہوں کے قتلِ عام میں جنہیں کوئی تامل نہیں ہوتا‘ ان کے ساتھ مکالمے کا نتیجہ کیا ہوتا؟ حکومتی پیشکش کو انہوں نے کمزوری سمجھا اور ملک کو لہو سے بھر دیا۔ پھر ایک دن آئی ایس پی آر نے خبر جاری کی کہ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ پھر سرکار نے آگے بڑھ کر داد لینے کی کوشش کی۔ مذاکرات کے حامیوں کو سانپ سونگھ گیا۔ مولوی صاحبان تو بالکل ہی خاموش ہو گئے۔ مغلوں کے عہد سے اب تک ان کی تاریخ یہی ہے۔ طاقت کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ حکومت کمزور پڑے تو سمیع الحق ایسا آدمی ٹارزن ہو جاتا ہے۔ 
ایک جملہ معترضہ‘ اسد عمر‘ جہانگیر ترین‘ اسحق خاکوانی اور طارق چودھری کو غور کرنا چاہیے کہ اکتوبر 2011ء میں متشکل ہونے والی مقبولیت کی بے پناہ لہر کے باوجود‘ آخری مرحلے میں‘ کاروباری طبقات سمیت‘ بعض لوگوں نے نون لیگ کی حمایت کا فیصلہ کیوں کیا؟ عوام نے تجربے کو ترجیح دی۔ ایسا شوشہ بعض اوقات عمران خان چھوڑتے کہ سننے والے دنگ رہ جاتے۔ مثلاً یہ کہ تھانیدار کا الیکشن ہوا کرے گا۔ تھانیدار نہیں‘ وہ ''شیرف‘‘ تھا۔ شہر میں پولیس کا نگران؛ اگرچہ وہ تجربہ بھی ناکام رہا‘ حتیٰ کہ جمہوریت کے عشروں سے گزرنے والے معاشروں میں بھی‘ جہاں بلدیاتی اداروں کی بدولت‘ عام آبادی کی تربیت ہو چکی۔ تعلیم کا تناسب بہت زیادہ ہے اور سماج کی ساخت قبائلی یا نیم قبائلی ہرگز نہیں۔ 
وزیر اعظم ٹھوکر کھا کر سنبھلتے ہیں۔ لارڈ نذیر کے بقول اتوار کے دن جمعہ پڑھتے ہیں۔ باقیوں کا حال اس سے بھی پتلا ہے۔ عمران خان‘ سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن اب بھی حسرت پالتے ہیں کہ کاش کسی طرح بات ہو سکے۔ کس سے گفتگو؟ درندوں سے؟ انسان جب آدمیت کو خیرباد کہہ دے تو وحشی جانوروں سے بدتر ہو جاتا ہے۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: ''بے شرم اپنی مرضی کرے‘‘۔ جس نے اللہ کو بھلا دیا‘ بندگانِ خدا کی جسے پرواہ نہیں‘ اس کے لیے اصول کیا‘ اقدار کیا؟ سورہ حشر میں لکھا ہے: جب اللہ کو یکسر تم فراموش کر دیتے ہو تو وہ تمہیں اپنا آپ بھلا دیتا ہے۔ شعور کی آخری کرن بھی وحشت کے کالے جوہڑ میں ڈوب جاتی ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ع 
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی 
ایک اور تجربہ یہ ہے کہ اگر دین کی روح باقی نہ رہے۔ فقط ظواہر ہوں تو ایک اور طرح کی چنگیزیت وجود میں آتی ہے۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے عصر میں پروان چڑھنے والے خارجی‘ مصر کی فاطمی سلطنت‘ ایران کا اسمٰعیلی صفوی‘ افغانستان کے طالبان اور ان سے کہیں زیادہ ہماری قبائلی پٹی میں نمودار ہونے والے سفاک... لفظ جن کے لیے کم پڑتے ہیں۔ 
فوجی عدالتیں نہیں تو اور کیا؟ رضا ربانی اور حامد علی خان کو آج سوجھی ہے۔ وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے سامنے سیاسی لیڈر جب تشریف فرما تھے تو متبادل تجویز کیا ہوتا۔ منزل کے ایک سے زیادہ راستے ہوا کرتے ہیں۔ مقصود دہشت گردی کا خاتمہ ہے‘ فوجی برتری نہیں۔ 
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا 
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے؟ 
انگریزی اخبارات نے دبائو بڑھایا۔ سول سوسائٹی نے‘ جس کی تشکیل جدید میں مغربی افکار ہی نہیں‘ اس کے سرمائے کا عمل دخل بھی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے یقین دلایا تھا کہ سیاسی کارکنوں کے خلاف ان عدالتوں کو ہرگز استعمال نہ کیا جائے گا۔ عدم اعتماد کا کوئی جواز؟ وزیر اعظم سے اندیشہ ہو سکتا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں سیاستدانوں کو رگیدا گیا مگر فوج پہ عدم اعتماد کیوں؟ خوف بولتا ہے۔ مخدوم امین فہیم بے سبب جنرل مشرف کے پاس نہ گئے۔ ادی فریال تالپور سے وہی نہیں‘ پیپلز پارٹی کے اکثر لیڈر نالاں ہیں۔ سندھ ہی نہیں‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزراء کرام تک‘ حتیٰ کہ چھوٹے بڑے ٹھیکیدار۔ وزیر اعظم چودھری عبدالمجید خود کو بھٹو خاندان کا مجاور کہا کرتے۔ اللہ نے اسی کے سپرد کر دیا۔ لطیف اکبر اور عبدالوحید کے سوا آزاد کشمیر کی پوری کابینہ دست بستہ ہے‘ اخبار نویس اگر تحقیق کریں تو ایک طلسم ہوشربا لکھی جا سکتی ہے۔ 
کراچی میں شاید کسی کو یہ سوجھا کہ پیپلز پارٹی کو تقسیم کر کے‘ ایم کیو ایم کی مدد سے نئی صوبائی حکومت بنانے کی کوشش کی جائے۔ بڑا خطرہ بلاول بھٹو زرداری سے ہے۔ کارکنوں کا کنونشن تو کیا والدہ مرحومہ کی برسی میں شریک ہونے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ خالہ صنم بھٹو اور غنویٰ بھٹو کے خاندان سے انہوں نے مصالحت کر لی ہے۔ زرداری صاحب آتش زیر پا ہیں۔ عسکری قیادت سے پوچھتے ہیں کہ کیا ''بلّے‘‘ کو سیاست کا اذن اس نے دیا ہے۔ اظہارالحق کا شعر ہے ؎ 
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر 
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے 
بادشاہ کی بے بسی۔ غلام تک بے نیاز ہو گئے۔ رہے وزیر اعظم تو اس کرپشن پہ انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ یہ اس میثاق جمہوریت کا ثمر ہے‘ جسے اس ناچیز نے کاغذ کے اس پرزے سے کمتر کہا تھا‘ جس پر وہ لکھا گیا۔ اقبالؔ کو ایک بار پھر پڑھیے ؎ 
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست 
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہ افلاک 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved