تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     31-12-2014

ہلاکت خیز بیانیے

اگر ہم سوچیں کہ گزشتہ دوعشروں کے دوران پاکستان میں انتہا پسندانہ نظریات کیسے پھیلے تو کچھ ایسے بیانیے سامنے آتے ہیں جن کا اس ضمن میں بہت نمایاں کردار ہے اور جن پرکبھی تنقیدی سوالات نہیں اٹھائے گئے۔ معاشرے میں تشدد کا جواز فراہم کرنے والے انتہا پسندانہ خیالات پہلے سے موجود تھے جو کمزور سے پیرائے اور ڈھکے چھپے انداز میں دہشت گردی کی حمایت بھی کرتے تھے لیکن افغانستان میں امریکی مداخلت نے اسے بے پناہ توانائی فراہم کردی۔ انتہا پسندی کے بیانیے کو تصورات اور نظریات کو عملی شکل میں ڈھالنے کا موقع ہاتھ آگیا۔
گزشتہ عشرے کے دوران میڈیا، جس میں مطبوعہ صحافت بھی شامل ہے اور چکاچوند کشش رکھنے والا الیکٹرانک میڈیا بھی، نے انتہا پسند گروہوں ، ان کے سیاسی ہمدردوں اور سیاست دانوں کے بہروپ میںانتہا پسندی کے نظریات کی ترویج کرنے والوں کو بہت جگہ فراہم کی۔ تاہم اس ضمن میں صرف میڈیا کوہی مورد ِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں۔ یقیناہمارے نوخیز میڈیا کو اس معاشرے، جو ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ایک ٹی وی چینل کے ذریعے نشر کی جانے والی پالیسی سے نجات پاکر صحافتی آزادی کی دنیا میں سانس لے رہا تھا، میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا، تاہم ایسا کرتے ہوئے یہ ایسے منہ زور گھوڑے پر سوار ہوگیا کہ اس کے ہاتھوں سے سماجی ذمہ داریوں کی لگام نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس گھٹن زدہ معاشرے میں اس نے جس برق رفتاری سے رائے عامہ کو متاثر کرنا شروع کیا وہ حیران کن بھی تھی اور تشویش ناک بھی۔ اس پر ریاستی اثر کم و بیش ختم ہوگیااورنوخیز سول سوسائٹی کی اقدار اس کے سامنے بند باندھنے سے قاصر دکھائی دیں۔ اس عالم میں انتہا پسندی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو شدت پسند گروہوںنے دبانا شروع کردیا ۔ کچھ کو دھمکی دے کر چپ کرادیا گیا، کچھ کو قتل کرکے خاموش کردیا گیا، اس کے بعد طویل عرصے تک ہمارے قومی بیانیے کا یہ عالم تھا جسے ایک مشہور پنجابی مصرع اس طرح بیان کرتا ہے۔۔۔ ''گلیاں ہوجان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے‘‘۔ 
اقتدار میں چاہے بلاشرکت ِ غیرے طاقت رکھنے والے مشرف ہوں یا ان کے بعد قائم ہونے والی دو جمہوری حکومتیں، کسی نے انتہا پسند گروہوں یا ان کے پھیلائے ہوئے بیانیے کے توڑ کے لیے کچھ نہ کیا۔ اس کی بجائے بہت دیر تک (چند ہفتے پہلے تک) طاقتور حلقے بھی ان شدت پسندوں کو اپنے اتحادی اورخطے میں جاری معرکے کی کسی ''عظیم سٹریٹیجی‘‘ میں شراکت دار سمجھتے رہے تھے۔ اس سے اچھے طالبان اور برے طالبان کی اصطلاح وجود میں آئی اور معاشرے میں کنفیوژن پھیلی ۔ اس کنفیوژن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہا پسند گروہ پہلے کچھ مخصوص طبقوں اور پھر تمام معاشرے میں مجموعی طور پر اپنے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے گئے اور اُنہیں روکنے والا ہاتھ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پاکستان کے ریاستی ادارے اور سیاسی طاقتیں شاید یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ عدم برداشت رکھنے والے گروہوں کو برداشت کرنے کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوںگے یا یہ زہریلے سانپ ہمیں کس قدرنقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ 
انتہا پسندی کو تقویت دینے والے تین اقسام کے بیانیے معاشرے میں گردش میں رہے۔ پہلا یہ کہ ''یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔‘‘ کئی عشروںسے شدت پسندوںکے حامی اور ان کے سہولت کار یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں۔ اس سے معاشرے میں یہ تاثر جڑ پکڑ گیا کہ اگر تمام نہیں تو بھی کچھ طالبان اچھے ضرورہیں اور وہ کسی اچھے مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں۔ افغانستان میں لڑنے والے طالبان کے پس ِ منظر میں ان شدت پسندوں کی توقیر کی گئی اور انہیں مجاہد قراردیا گیا،یہاں تک کہ ان کی طر ف سے سوات پر قبضے نے بھی ہمیں خواب ِ غفلت سے نہ جگایا۔ سکیورٹی اہل کاروں کے گلے کاٹنے اور ایک عورت کو سرعام زمین پر لٹا کر کوڑے مارنے کی ویڈیو نے دنیا کو لرزا کر رکھ دیا تو ہماری آنکھیں کھلیں۔ یہ درست ہے کہ فوجی آپریشن کے ذریعے سوات کو انتہا پسندوں کے قبضے سے چھڑا لیا گیا لیکن اُس بیانیے کا توڑ نہ کیا جاسکاجو معاشرے میں رچ بس چکا تھا۔ جو لوگ اس بیانیے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے زہر ِ قاتل سمجھتے تھے، اُنہیں '' مغرب نواز ،امریکی ایجنٹ اور ڈالر خور‘‘ قراردیا گیا۔ 
دوسرا بیانیہ یہ تھاجو ہر دہشت گردی کی کارروائی کے بعد کہا گیا۔۔۔''ہمارے لوگ ایسا نہیں کرسکتے، یا کوئی مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو قتل نہیں کرسکتا، یا مساجد ، مزارات ، امام بارگاہوں اور گرجا گھروں اور عوامی مقامات پر دھماکے کر کے شہریوں کا خون بہانے والے انسان نہیں‘‘۔ اس طرح طالبان کے حامی عوام کو چکمہ دینے اور اصل بیماری سے ان کی توجہ ہٹانے کے لیے ہونے والی خونریزی پر مغربی طاقتوں اور دشمن ممالک کی ایجنسیوں کو مورد ِ الزام ٹھہراتے۔ اس دوران طالبان کے نمائندے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے رہے لیکن ہم نے آنکھیں بند کرنے کی آسان پالیسی جاری رکھی۔ تیسرا بیانیہ یہ تھا کہ یہ حملے کرنے والے انتقامی کارروائیاں کررہے ہیں۔۔۔ پاکستانیوں کو شہروں میں اس لیے قتل کیا جارہا ہے کیونکہ ''مجاہدین‘‘ پر ڈرون حملے ہوتے ہیں یا فاٹا میں فوج ہے وغیرہ ، نیز ''یہ ہماری جنگ نہیں ہے، ہمیں اس سے نکل آنا چاہیے‘‘۔ 
تاریخ عالم ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کہ عوام کو جان بوجھ کر اس طرح گمراہ کیاگیا ہو اور اندھیرے کی طاقتوں کو معاشرے میں اپنے پنجے پھیلانے کا موقع دیا گیاہو۔ انتہا پسند یقینا ہر دور اور ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن اُنہیں اس طرح گلوری فائی نہیں کیا جاتا جیسے ہمارے ہاں کیا گیا۔ اب جبکہ ساٹھ ہزار شہریوں اور سکیورٹی اہل کاروں کی ہلاکتوں اور خاص طور پر آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والی وحشیانہ خونزیزی کے بعد سیاسی طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کی آنکھیں کھل گئی ہیں تو ضروری ہے کہ آپریشن کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود انتہا پسندوں کی سوچ کی بھی بیخ کنی کی جائے۔ فوجی آپریشن اس جنگ کا صرف ایک پہلو ہے، باقی ذمہ داری سیاسی اور صحافتی طبقوں پر عائد ہوتی ہے۔ اب ہم نے اس بات میں کوئی ابہام نہیں رکھنا کہ یہ صرف اور صرف ہماری اور ہمارے بقا کی جنگ ہے، تمام شدت پسند ہمارے دشمن ہیں، اثاثے نہیں۔ انتہا پسند اور ان کے حامی ہمارے کھلے دشمن ہیں اور ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ امیدافزا بات یہ ہے کہ حکومت اورعسکری اداروںکی طرف سے ایسے عزم کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ یقین رکھنا چاہیے کہ اب پرانے کھیل نہیں کھیلے جائیںگے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved