2002ء کے انتخابات کے بعد کی بات ہے۔ ایک شام میرے انگریزی اخبار کے ایڈیٹر شاہین صہبائی نے امریکہ سے ایک میسج کیا کہ فوراً پتہ کرو آصف زرداری اپنے ہسپتال کے کمرے سے غائب ہیں ۔ وہ اس وقت پمز ہسپتال اسلام آباد میں زیرعلاج تھے اور ان کی حفاظت پر بھاری نفری تعینات تھی۔ میں نے کہا ''سر ہم اسلام آباد میں بیٹھے ہیں اور ہمیں پتہ تک نہیں اور آپ کو امریکہ بیٹھے پتہ چل گیا ہے کہ زرداری اپنے ہسپتال سے غائب ہیں؟‘‘
شاہین صہبائی بولے ''دراصل بینظیر بھٹو امریکہ میں ہیں اور وہ پچھلے ایک گھنٹے سے سب پاکستانی صحافیوں کو مسلسل فون کر کے بتارہی ہیں کہ جنرل مشرف کی فوجی حکومت نے انہیں بلیک میل کرنے کے لیے آصف زرداری کو اغوا کر لیا ہے اور اب ان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا‘‘۔ میں نے ادھر ادھر فون کیا ۔تھوڑی دیر بعد شاہین صاحب کا فون آگیا کہ بینظیر بھٹو اب مطمئن ہیں ۔ لگتا ہے کہ آصف زرداری مل گئے ہیں ۔
کہانی کچھ یوں کھلی کہ اس رات اچانک امین فہیم پمز ہسپتال پہنچے۔ آصف زرداری کو لیا اور سیکرٹ ایجنسی کے سیف ہائوس پہنچے۔ یوں جرنیلوں اور زرداری صاحب کے درمیان جنرل مشرف کے ساتھ مل کر نئی حکومت بنانے کے پلان پر غور ہوا۔ جنرل مشرف بینظیر بھٹو اور زرداری صاحب کو مقدمات میں رعایت دینے کو تیار تھے لیکن وہ اس کے بدلے چاہتے تھے کہ وہ چوہدری شجاعت کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں ۔ وہ امین فہیم کو وزیراعظم بنانے کو تیار تھے۔ تاہم بینظیر بھٹو سمجھدار تھیں۔ وہ سندھ سے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کوئی سندھی وزیراعظم نہیں بنوا سکتی تھیں ۔
جنرل مشرف بھانپ چکے تھے کہ انسان کی چند ضروریات اور کمزوریاں اگر پوری ہوتی رہیں تو وہ زیادہ تنگ نہیں کرتا۔ امین فہیم اور جنرل مشرف شام کی محفلوں میں بھی شریک ہوتے۔ لہٰذا انہیں لگتا تھا کہ امین فہیم کے ساتھ ان کی جوڑی خوب نبھے گی۔ بینظیر بھٹو اور زرداری بھی امین فہیم کو استعمال کررہے تھے کہ وہ جنرل مشرف سے رابطے میں رہیں تاکہ موقع ملے تو جنرل کو اپنے جال میں پھنسایا جا سکے۔
جنرل مشرف بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کو ہر رعایت دینے کو تیار تھے لیکن اس کے بدلے میں وہ امین فہیم مانگ رہے تھے۔ زرداری اور بینظیر بھٹو جنرل مشرف کو یہ بھاری قیمت دینے کو تیار نہیں تھے۔ دوسرا نام مولانا فضل الرحمن کا تھا‘ جن پر جنرل مشرف اور زرداری دونوں تیار ہوگئے تھے۔ تاہم بینظیر بھٹو ڈر گئیں کہ اگر انہوں نے طالبان کے گاڈ فادر کو وزیراعظم کا ووٹ دیا تو مغرب میں ان کا جینا حرام ہوجائے گا۔تاہم زرداری صاحب حیران تھے کہ بینظیر بھٹو کیوں مولانا فضل الرحمن کے نام کی مخالفت کررہی تھیں؟ کچھ عرصے بعد کسی نے ان کے کان میں سرگوشی کی کہ دراصل انور بیگ نے جا کر بینظیر بھٹو کو امریکیوں کا پیغام دیا تھا کہ وہ مولانا کو وزیراعظم مت بنائیں۔ یوں زرداری صاحب نے انور بیگ سے دشمنی پال لی۔ یہ اور بات ہے کہ انور بیگ کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا ۔ انور بیگ کا کہنا تھا کہ اگر امریکیوں نے بینظیر کو منع کرنا ہوتا تو دوبئی میں امریکی سفیر یہ کام کرسکتا تھا۔ دوسرے انور بیگ کا کہنا تھا اگر وہ بینظیر بھٹو کا پیغام لے بھی جاتے تو بھی بینظیر بھٹو امریکیوں سے کنفرم کیے بغیر کیسے یہ مانتیں‘ لیکن زرداری صاحب نے انور بیگ کو معاف نہ کیا ۔
یوں جب بینظیر اور جنرل مشرف کے درمیان امین فہیم کے نام پر اتفاق رائے نہ ہو سکا تو پھر فیصلہ ہوا کہ اب پیپلز پارٹی کو توڑا جائے۔ فیصل صالح حیات بھی اس وجہ سے بغاوت کر گئے تھے اور ان کی بھی بینظیر بھٹو سے دوبئی میں بحث ہوئی تھی کہ جب جنرل مشرف ان کا وزیراعظم بنانے کو تیار ہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے۔ تاہم بی بی کو خوف تھا کہ امین فہیم وزیراعظم بننے کے بعد ان کی بجائے جنرل مشرف کے زیادہ وفادار ہوں گے اور دوسرے اگر ایک دفعہ انہوں نے خود پیپلز پارٹی کے اندر سے کوئی سندھی وزیراعظم دے دیا تو پھر ہمیشہ کے لیے اسٹیبلشمنٹ بینظیر کو وزیراعظم نہیں بننے دے گی۔
بینظیر بھٹو اور آصف زرداری نے اس وقت امین فہیم کو وزیراعظم بننے سے روکنے کے لیے پارٹی تڑوا دی ۔ اگرچہ اس وقت ہمیں یہ کہانی بھیجی گئی تھی کہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری اصولوں کی بنیاد پر جنرل مشرف سے ڈیل نہیں کررہے تھے۔ تاہم پھر اسی آسمان نے دیکھا کہ اسی جنرل مشرف سے بینظیر بھٹو اور زرداری صاحب نے ڈیل کی۔ جنرل مشرف کو منانے کے لیے وائٹ ہائوس میں رابطے کیے گیے۔ حسین حقانی کا اس سلسلے میں بہت اہم کردار رہا۔ اور تو اور جب بش وائٹ ہاوس میں تھے تو ایک سالانہ روایتی بریک فاسٹ میں بھی بینظیر بھٹو اور زرداری نے کوشش کرکے شرکت کی تھی۔ مقصد اپنے آپ کو امریکیوں کے قریب کر کے جنرل مشرف کے ساتھ مستقبل کے معاملات طے کرنا تھا۔ جنرل مشرف بہت تیز تھے ۔ انہیں پتہ تھا کہ انہیں اس وقت بینظیر کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ پہلے ان سیاستدانوں کی ساکھ استعمال کرنا چاہتے تھے جنہیں وہ پارلیمنٹ میں لائے تھے۔ البتہ اگلے پانچ سال کے لیے بینظیر بھٹو ان کے ذہن میں تھیں۔ اور وہی ہوا۔ 2006ء سے ہی بینظیر بھٹو سے رابطے شروع ہوگئے تھے۔ پہلے برطانوی ڈپلومیٹ مارک رائل گرانٹ نے راہ ہموار کی‘ پھر کونڈولیزا رائس کو یہ کام سونپا گیا۔ کونڈولیزا رائس نے بڑی تفصیل سے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کیسے اس نے جنرل مشرف اور بینظیر بھٹو کے درمیان ڈیل کرائی تھی۔ بینظیر کو ابھی بھی جنرل مشرف پر اعتبار نہیں تھا لہٰذا جنرل اشفاق پرویز کیانی کو لندن بلوا کر گارنٹی لی گئی جو انہوں نے بخوشی دی اور اس کے بدلے انہوں نے بھی فائدہ اٹھایا۔
زرداری کو علم تھا کہ امین فہیم بینظیر کے قتل کے بعد ان کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ میں اس پریس کانفرنس میں موجود تھا جو نوڈیرو میں زرداری صاحب نے کی تھی اور جس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کے وزیراعظم امین فہیم ہوں گے۔ مقصد یہ تھا کہ پارٹی کے اندر کوئی بغاوت نہ ہو اور سب الیکشن تک زرداری صاحب کو یہ سوچ کر فالو کرتے رہیں کہ وہ پاکستانی کی سونیا گاندھی ہیں جو خود کوئی عہدہ نہیں لینا چاہتے اور یہ کہ بینظیر کی سیاسی وراثت پر سوال نہ اٹھائے جائیں ۔ وہی کچھ ہوا۔ امین فہیم آصف زرداری کو پارٹی کے اندر قابل قبول کرانے کے مشن پر لگ گئے۔ جنرل مشرف بھی خوش تھے کہ ان کی شاموں کا ساتھی امین فہیم وزیراعظم بنے گا۔ دونوں کی پرانی خواہش پوری ہورہی تھی۔ امین فہیم اس خوش فہمی میں تھے کہ انہوں نے 2002ء میں قربانی دے کر وزیراعظم کی کرسی بینظیر بھٹو کے حکم پر قربان کی تھی‘ اب زرداری صاحب اس کا صلہ دیں گے اور 2008ء میں انہیں وزیراعظم بنائیں گے۔ مگر وہ حکمران ہی کیا جو اپنے وعدے پر قائم رہے۔ میں نے الیکشن کے بعد ایک دن زرداری صاحب کے اس وعدے پر سٹوری فائل کی تو خلیل ملک مرحوم جو زرداری کے ایڈوائزر تھے‘ نے مجھے آئس کریم کی دعوت دی۔ ہنستے ہنستے بولے‘ آپ امین فہیم کے غبارے میں ہوا بھرنا بند کردیں‘ انہیں زرداری صاحب نے وزیراعظم نہیں بنانا ۔ میں نے کہا کہ ملک صاحب پھر تین ماہ پہلے پریس کانفرنس میں کہا کیوں تھا؟ خلیل ملک مسکرائے اور بولے‘ بھولے بادشاہو‘ آپ آئس کریم کھائو۔
امین فہیم نے اپنے تئیں پارٹی میں زرداری صاحب کے خلاف بغاوت کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ گیلانی کے خلاف قومی اسمبلی میں ان کے وزیراعظم کے لیے کاغذات پر کوئی دستخط کرنے والا نہیں مل رہا۔ راجہ پرویز اشرف سے لے کر نوید قمر تک‘ جو ہر وقت ان کا دم بھرتے تھے‘ اب فون تک سننے کو تیار نہیں تھے۔ امین فہیم کو اس دن دکھی دیکھا تھا کہ جنہیں وہ پارٹی میں لائے تھے‘ وہ آج ان کا فون بھی نہیں سن رہے۔ اور پھر کچھ عرصہ کی بغاوت کے بعد امین فہیم کو احساس ہوا کہ بہتر ہوگا کہ زرداری صاحب سے صلح کر لیں۔ جس طرح ایوان صدر میں صلح ہوئی اس کی تفصیلات سنا کر میں امین فہیم کے چاہنے والوں کو ڈپریس نہیں کرنا چاہتا۔ زرداری صاحب کو بھی علم تھا کہ اب امین فہیم سے اپنا خرچہ اٹھانا مشکل ہورہا ہے۔ اور یوں ڈیل ہوگئی۔ سنا ہے اس دن زرداری صاحب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے جس دن ایک اکائونٹ سے چار کروڑ روپے برآمد ہوئے تھے۔ پتہ چل گیا تھا کہ ان کی پارٹی کے باغی کتنے میں بک سکتے ہیں!
اب سنا ہے پھر امین فہیم کے سر پر بغاوت سوار ہورہی ہے۔ میں ان خبروں پر مسکرا ہی سکتا ہوں۔ امین فہیم بڑے سمجھدار ہیں۔ ان کی زندگی کی انسانی خواہشات کی فہرست بہت مختصر ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت کم پر راضی ہوجاتے ہیں۔ قناعت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ امین فہیم نے جنرل مشرف سے مل کر محض اپنی سودے بازی کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور زرداری صاحب کو علم ہے کہ اب کچھ زیادہ ہی دینا پڑے گا اور امین فہیم پرانی تنخواہ پر پیپلز پارٹی ہی میں کام کرتے رہیں گے، جس پر وہ ذوالفقار علی بھٹو دور سے لے کر اب تک کرتے آئے ہیں...!