تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     31-12-2014

سانحے روکنے کے لیے

جو بھی حکمران آئے‘ کبھی سوچ بچار کے نام پر تو کبھی وقتی اور ذاتی مصلحتوں کے نام پر ملکی سلامتی کے معاملات کو پس پشت ڈالتے رہے اور نتیجہ یہ نکلتا رہا کہ کبھی عوام مرتے اور کبھی ان کے بچے مرتے رہے اور وہ لوگ جنہوں نے کچھ کرنا تھا ان کا کام ہی یہی رہ گیا کہ ایک مذمتی بیان جاری کردیں‘ کسی جنازے میں شرکت کریں اور پھر چند دنوں بعد ہونے والے اگلے حادثے کیلئے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ایک جوشیلی تقریر یا کسی نئی کمیٹی اور کمیشن کی تشکیل کرتے رہیں؟ ستم دیکھئے کہ ایک موٹر وے جو بن چکی ہے اس پر مزید200 ارب روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے لیکن دہشت گردی کے خاتمے اور خفیہ اداروں کو مزید فعال کرنے کیے نیکٹا کیلئے 30 ارب نکالنا محال ہو گیا ہے۔ اب جب حادثہ ہو چکا ہے تو یہ فنڈ جاری کرنے کا خیال آ گیا ہے۔ جب ترجیحات سیا سی ہوجائیں‘ جب ملکی مفاد کو عوام کے ووٹ پر ترجیح دی جانے لگے تو یہی کچھ ہو گا جو واہگہ اور پشاور میں ہو چکا ہے۔ نقصانات بہت ہو چکے ہیں لیکن اگر قوم کی بہتری کیلئے کچھ کرنے کا ارادہ ہے توسب سے پہلے ہر جرم کی سزا بے لاگ اور بے خطر دینا ہو گی اور ایک ایک کر کے وہ سب اقدامات کرنے ہوں گے جس سے امن قائم ہو سکے۔ وہ لوگ جن پر گھنائونے جرائم ثابت ہو چکے ہیں اور وہ لوگ جن کے بارے میں ملک کی عدالتوں نے آئین اور قانون کے تحت فیصلے صادر کر دیئے ہیں‘ ان کو ملنے والی وہ سزائیں اپنی پوری طاقت سے لاگو کر دی جائیں۔ 
دوسرا سب سے اہم ترین مسئلہ جو ہمارے ملک کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے وہ افغان ہیں جو پاکستان میں داخل ہوئے اور آج ان کی دوسری اور تیسری نسل پاکستان کے مختلف حصوں میں اس طرح موجود ہے کہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ ان میں سے خیبر پختون خوا کے پشتو ن کون ہیں اور افغانستان کے افغانی کون ہیں؟ بلوچستان میں یہ جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور دور نہ جائیں پاکستان کے حساس ترین شہر اسلام آباد اور اس کے ارد گرد ان کی اس قدر کچی بستیاں آباد ہیں کہ گنتی میں ہی نہیں آتیںاور یہ وہ افغان مہاجرین ہیں جو 1980ء میں پاکستان پہنچے۔ ہمارے ملک میں پناہ لینے والے ان افغان خاندانوں کی اب تیسری نسل جوان ہو رہی ہے اور یہ بات کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں کہ یہاں پر رہنے والے اسلام آباد سمیت راولپنڈی اور اس سے ملحقہ علا قوں میں اپنے روزگار اور کاروبار کے علا وہ مختلف علا قوں میں دکانداری بھی کرتے ہیں‘ ان میں بسوں ، ٹرالوںاور ٹرکوں کے ڈرائیور بھی ہیں اور اسلام آباد کی سڑکوں پر ٹیکسی چلانے والے بھی۔ ان میں سے کتنے قانون کی حدود میں رہ رہے ہیں اور کتنے ہیں جنہوں نے اسلام آباد کے مختلف سیکٹروں میں ریڑھیاں لگانے سے لے کر کئی چھوٹے چھوٹے ہوٹل بھی بنا رکھے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے یہاں بڑے بڑے پلازے اور شاندار ہوٹل تعمیر کئے ہوئے ہیں۔ بہت سوں نے لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ سے لے کر بلوچستان ،کراچی، حیدر آباد اور راولپنڈی سمیت ملک میں جگہ جگہ وسیع کاروباری ادارے قائم کر لئے ہیں۔ اب کون جان سکتا ہے اور کیسے جان سکتا ہے ان میں سے کتنے مشکوک کردار کے حامل ہیں۔ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان پر کوئی چیک نہیں ہے اس لئے ہماری حکومت کو اب امریکہ اورافغانستان کو مجبور کرنا ہو گا کہ وہ ہم سے اس 35سالہ مہمان نواز ی کا بوجھ کم کرتے ہوئے انہیں اپنے وطن میں منتقل کرنے میں ہماری مدد کریں۔
اگر اہم ترین مسئلے کے بارے میں بات کی جائے تو ہمارے ملک کے میڈیا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ وہی کردار ادا کرے جو امریکہ، اسرائیل اور بھارت سمیت دوسرے ممالک کا میڈیا اپنے اپنے ملکوں کیلئے ،اس کے اداروں کیلئے اور ان کی سکیورٹی ایجنسیوں کیلئے ادا کرتا ہے۔ کبھی آپ میں سے کسی نے دیکھا یا سنا ہو کہ بھارت کا میڈیا چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یاالیکٹرانک ،اپنے ملک کے اہداف کے خلاف بھر پور انداز میں اس طرح پروپیگنڈا کرتے نظر آئے جیسے ہمارے ملک کے میڈیا سے منسلک لوگ مختلف تنظیمیں بنا کر کبھی ہیومن رائٹس کے چیمپئن بن کر اپنی ہی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو روندتے نظر آئے ہوں؟۔ بھارت کے میڈیا کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ نجی میڈیا ہے یا بھارتی حکومت کا کوئی نیشنل پریس ٹرسٹ؟۔ جس طرح گزشتہ سات برسوں سے لال مسجد کے عبد العزیز کوہمارا میڈیا اور کچھ مذہبی گروپ ہیرو اور مظلوم بنا کر پیش کرتے رہے وہ سب کے سامنے ہے اور آج جب پوری قوم ماتم کر رہی تھی‘ تو ایسے وقت جب قوم کے سر پر ہاتھ
رکھنے کی ضرورت تھی تو یہی حضرت میڈیا پر قوم کے 134 بچوں اور ان کے اساتذہ کو شہید کرنے والوں کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے تھے۔میڈیا ہی سے متعلق دو حکومتی اینکرز عمران کے دھرنے کو ختم کرنے پر اپنی ماہرانہ رائے دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ وہ ڈر گیا۔ اسے بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے لوگ ہمارے میڈیا کے چوہدری اور عالم بنے بیٹھے ہیں۔ 
ہماری بدقسمتی تو یہاں تک ہے کہ ملک ٹوٹنے کے 43 سال بعد پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کے میڈیا اور انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی تنظیمیں اپنا ہی ملک توڑنے میں دشمن کی سازشوں کو پروان چڑھانے کیلئے ان کے مقاصد کے حق میں مضامین لکھتی ہیں‘ لوگوں کو پاکستان کے بارے میں جھوٹ پر مبنی تجزیئے بتاتی ہیں اور بھانڈا اس وقت پھوٹا جب دشمن نے ان کی خدمات کو اس طرح سراہا کہ انہیں اور ان کی اولادوں کو 43 سال بعدبنگلہ دیش بلا کر بھارتی صدر کے ہاتھوں ایوارڈز دلوائے اور مجیب کے ساتھیوں اور بھارتی حکمرانوں نے ان کی شان میںقصیدے پڑھتے ہوئے ان کی بنگلہ دیش بنانے اور پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں مدد کرنے پران کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ وقت پکار پکار کر خبر دار کر رہا ہے کہ پاکستانیوں تمہیں ایسے لوگوں کو پہچاننا ہوگا اور اب بڑے فیصلے کرنے ہوں گے ورنہ یہ سانحے روکے نہیں جا سکتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved