پشاور کے سانحہ عظیم کے اگلے ہی دن‘ حکومت نے برق رفتاری سے کام کرنے کے لئے اعلیٰ سطحی میٹنگوں کا فیصلہ کیا اور پھر مزیدبرق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ دھڑادھڑ کمیٹیاں بنائی گئیں۔ ایکشن پلان تیار کئے گئے۔ وزیراعظم نے نشری تقریر میں دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کیا۔موت کے چند سزایافتگان کو فوری طور سے سزائیں دے دی گئیں۔ عوام کے لئے ٹرانسپورٹ کا ایندھن سستا کرنے کے اعلانات ہوئے۔ فوجی عدالتیں بنانے کے وعدے کئے گئے۔ مگر اتنی بھرپور کارکردگی کے بعد ‘وزیراعظم صاحب نے خود ٹرانسپورٹ کے ایندھن کے نرخوں میں کمی کا اعلان کر دیا اور عوام کو بار بار یاددلایا کہ ان کی حکومت نے کتنا بڑا احسان کر دیا ہے؟ شاید انہیں بتایا نہیں گیا کہ اب تک حکومت نے قیمتوں میں جتنی کمی کی ہے‘ اس کا بھاری فائدہ ٹرانسپورٹر اٹھا گئے ہیں۔ انہوں نے شہری انتظامیہ کی درخواستوں اور التجائوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے‘ کرایوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا اور ایسے ایسے عذرلنگ پیش کئے جن میں نہ کوئی دلیل تھی نہ منطق۔ مثلاً بسوں اور ویگنوں کے کرایوں میں یہ کہہ کر کمی سے انکار کر دیا کہ نرخ تو پٹرول اور ڈیزل کے کم ہوئے ہیں‘ ہماری ٹرانسپورٹ گیس سے چلتی ہے اور اس کے نرخوں میں کمی نہیں آئی۔ لہذا ہم کرائے کم نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کی جیبیںکاٹنے والے نفع خور‘جو کرایہ اس وقت وصول کر رہے ہیں‘ وہ ڈیزل کے نرخوں کو سامنے رکھ کر طے کیاگیا تھا۔ ان کی بھاری تعداد اس وقت بھی گیس ہی استعمال کر رہی تھی۔ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا تھا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ فرق صرف یہ پڑا کہ نرخوں میں جتنی کمی آئی‘ وہ ساری کی ساری ٹرانسپورٹروں نے ہضم کر کے اپنے منافعے میں کئی گنا اضافہ کر لیا۔ لیکن عوام کی جیبوں سے کرایوں کی صورت میں‘ جو بھاری نفع وصول کیا جا رہا ہے‘ اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ میرے خیال میںجب تک گیس اور ڈیزل کا مسئلہ ختم نہیں کر لیا جاتا‘ ٹرانسپورٹرز عوام سے اسی طرح اربوں روپے کا جگا ٹیکس وصول کرتے رہیں گے۔ آبادی کا بڑا حصہ ایندھن کے استعمال پر جو کرائے ادا کر رہا ہے‘ وہ ڈیزل کے ہیں اور جن گاڑیوں پر وہ سفر کر رہے ہیں‘ وہ گیس سے چلتی ہیں۔ ٹرانسپورٹروں کی اندھا دھند اور بے تحاشا کمائی کے نتیجے میں یہ بے رحم نفع خور‘ سفر کرنے والوں کو کسی طرح کا آرام نہیں پہنچاتے۔ ان کے ساتھ بھیڑبکریوں والا سلوک ہو رہا ہے۔ رش کے اوقات میں جس طرح عورتوں اور مردوں کی توہین کی جاتی ہے‘ اسے ہمارے بے بس عوام برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ ورنہ اگر حکومت کسی کام کی ہوتی تو عام شہری اس طرح لُٹ کر ہر روز اپنی بے عزتی نہ کراتے۔
مجھے لگتا ہے کہ میں نے پشاور کے شہیدوں کو فراموش کر دیاہے اور دہشت گردوں سے بدلہ لینے کے لئے جتنے اعلانات کئے گئے تھے‘ ان کی گھن گرج میں کمی آتی جا رہی ہے اور فوجی عدالتیں قائم کرنے اور شدت جذبات میں دانستہ کمی لائی جا رہی ہے۔ اور جب میں نے پرجوش اعلانات کے جھکڑوں میں عرض کیا تھا کہ جو لوگ سانحہ مشرقی پاکستان کو بھول گئے‘ ان کے سامنے پشاور کے شہید کیا چیز ہیں؟ اورآپ نے دیکھ لیا کہ حکمران کتنی پھرتی اور چالاکی سے کچھ کئے بغیر‘ 15دن گزار چکے ہیں۔ لیکن حقیقت میں نہ کسی اچھے پلان پر عملدرآمد شروع ہوا نہ کوئی ہنگامی فورس معرض وجود میں آئی نہ موجودہ سرکاری مشینری کو موثر طریقے سے دہشت گردی کے خلاف استعمال کرنے کی کارروائی شروع ہوئی۔ سب کچھ وہیں کا وہیں ہے۔ وزیراعظم صاحب البتہ اعلیٰ سطحی اجلاسوں کی مسلسل صدارتیں فرما رہے ہیں۔ عوام سے زیادہ ان کی نظر تحریک انصاف پر ہے۔ قومی سوگ کے دنوں میں جذباتی فضا کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ عمران خان نے اپنی تحریک چند دنوں کے لئے روک کر‘ مذاکرات سے امید باندھی کہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے فوری طور پر عملی کام شروع کرایا جائے۔ سرکاری ٹیم نے مذاکرات کے کئی دور بھگتا دیئے‘ لیکن اصل مقصد کے قریب نہیں پھٹکے۔بات جہاں سے پہلے دن شروع ہوئی تھی‘ وہیں پر رکی ہوئی ہے۔ البتہ سرکاری حلقے مذاکرات جاری رکھنے کے اشارے بلاناغہ دے رہے ہیں‘ لیکن مذاکرات میں ایک انچ آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کا صبر جواب دے رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے تو کہہ بھی دیا ہے کہ انہیں اب مذاکرات سے کوئی امید نہیں۔ درحقیقت انہوں نے امید لگا کر شدید غلطی کی تھی۔ انہیں چاہیے تھا کہ تین دن کا سوگ منانے کے بعد‘ وہ اپنی تحریک کا سلسلہ وہیں سے شروع کر دیتے جہاں سے ٹوٹا تھا۔ جتنا وقفہ بڑھتا جائے گا‘ عوام کے اندر تحریک کے جوش و جذبے میں کمی آنے کا فطری عمل جاری رہے گا اور اگر مزید تاخیر ہو گئی تو عمران کو جوش و جذبے کی وہی شدت دوبارہ پیدا کرنے کے لئے بہت سے وقت اور محنت کی ضرورت پڑے گی۔ حکومت بڑی کامیابی کے ساتھ تحریک کے جوش و جذبے کو ٹھنڈا کر کے‘ عمران خان کو جھنڈی دکھا دے گی۔ اتنے عرصے میں دو سال کا عرصہ پورا ہو جائے گا اور آپ دیکھیں گے کہ اس کے ساتھ ہی حکومت کے تیور ایک دم بدل جائیں گے اور وہ نئے دلائل کے ساتھ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ اعلان کرنے لگے گی کہ ہمارے اقتدار کا نصف عرصہ تو پورا ہونے کو ہے‘ اب دھاندلی کی تحقیقات چھوڑیئے۔ آیئے! آئندہ کے لئے فیصلے کرتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی نہ ہو سکے۔تحریک انصاف کے نئے اور سادہ لوح سیاستدان‘ اس طرح کی چالبازیوں میں آتے رہیں گے۔ انتخابات میں حقیقی شفافیت اور غیرجانبداری کے لئے ٹھوس اقدامات سے گریز ہوتا رہے گا اور پھر قبل ازوقت انتخابات کی تاریخیں دینا شروع کر دی جائیں گی جنہیں بدلتے بدلتے باقی ماندہ وقت نکال لیا جائے گا۔ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔دھاندلی پھر اسی طرح کی جائے گی اور اس بار کسی نے احتجاج کیا‘ تو حکومت مخالفین کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہنا شروع کر دے گی کہ دھاندلی کے الزام لگانا تو ان کی عادت بن چکی ہے۔ یہ اپنی شکست قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہماری ہر کامیابی پر یہ دھاندلی کے الزام لگاتے ہیں اور ملک کے بحران میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔
میری رائے میں عمران خان کوازخود فیصلہ کر کے‘ جامع منصوبہ بندی کے تحت پھر سے میدان میں اترنا پڑے گا۔ عوام کو طویل اور بھرپور تحریک کے لئے تیار کرنا ہو گا۔ اس تحریک کو بتدریج آگے بڑھاتے ہوئے‘ اس وقت تک سڑکوں پر رہنا ہو گا‘ جب تک حکمران مفلوج ہو کر اپنے آپ کو ‘ عوام کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیتے۔ لیکن میں یہ انتباہ ضرور کروں گا کہ عمران خان کو ہر لمحے اس بات کے لئے تیار رہنا پڑے گا کہ حکومت‘ تحریک کو ختم کرنے کے لئے آخری حدوں تک جانے سے پہلے معقولیت اختیار نہیں کرے گی۔ اس نے قوم کو سوگوار چھوڑ کر‘ اپنی پوری توجہ اس بات پر مرکوز رکھی ہے کہ سانحہ پشاور کے سوگ کے ماحول میں اپنا دائو کیسے لگانا ہے؟ احتجاجی تحریک میں تعطل کو کس طریقے سے طول دینا ہے؟ سانحہ پشاور کے زخم بھرنے کے لئے عوام کو مزید کتنے عرصے تک ٹال مٹول کر کے پر امن رکھنا ہے؟ پاکستان میں اصل حکمرانی کرنے والے چند ہی افراد ہیں اور ان کے بنیادی مفادات اور کاروبار ‘ مدتوں پہلے بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ اگر ان کے بیرون ملک رہائشی انتظامات‘ کاروبار اور جائیدادوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ وہ خود اور ان کی آئندہ نسلیں‘ مستقل رہائش کہاں رکھیں گی؟ یہاں پر ان کی حتی الامکان کوشش رہے گی کہ جہاں تک ممکن ہو‘ اقتدار کو زیادہ سے زیادہ طول دیا جائے۔ یہ جب تک پاکستان میں رہیں گے‘ اپنے آپ کو ٹرانزٹ میں سمجھیں گے۔ بڑے بڑے منصوبے شروع کر کے‘ ملائی فوراً ہی سمیٹ لیں گے۔ ہمارے قرضے اور اپنے اثاثے بڑھاتے رہیں گے۔ آج بھی اگر جائزہ لے کر دیکھئے توآپ پر واضح ہو جائے گا کہ کس کے اثاثوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور کس کے قرضوں میں؟ مستقبل بینی کے ماہرین جو پیش گوئیاں کر رہے ہیں‘ انہیں پڑھ کر ذہن پریشان ہو جاتا ہے۔ بڑی آہستگی لیکن ٹھوس طریقے سے پاکستانی ریاست کی رٹ میں کمی آتی جا رہی ہے۔ دہشت گردوں کے سامنے حکومت جتنی بے بسی اور لاچاری کا ثبوت دے رہی ہے‘ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنی عملداری کو موثر اور طویل بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ کراچی اور بلوچستان میں حکومت نے اپنی رٹ جیسے پامال کی ہے‘ فاٹا میں اپنے اختیارات کو جس طرح سمیٹا ہے‘ پنجاب حتیٰ کہ اسلام آباد میںقانون شکنی کے رحجانات کے پھیلائو کو جس طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ اس میں ٹرانزٹ کی ذہنیت صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ جس ملک کے وزیرخزانہ کا اپنا کاروبار بیرون ملک ہو‘ اس کے مستقبل کا اندازہ کرنے میںدشواری نہیں ہونا چاہیے۔