تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-01-2015

افسوس! بار بار افسوس

اہمیت سبھی چاہتے ہیں۔ دو طرح کے لوگ دنیا میں ہوتے ہیں۔ ایک ایثار اور ریاضت سے اپنا وجود منواتے ہیں‘ دوسرے کھنڈت ڈال کر۔ افسوس ان لوگوں پر صد ہزار بار افسوس۔ 
شام کو فاروقی آ پہنچا‘ گورا چٹا‘ خوش مزاج‘ خوش قامت‘ مختصر سی داڑھی ایسی بھلی لگتی کہ دیکھنے والے رک جاتے۔ حکمت یار کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھا۔ گیارہ برس بعد گلبدین نے مجھے بتایا: کھوج کے اس سفر میں فاروقی اس کے ہمراہ تھا‘ جب وہ یہ معلوم کرنے پاکستان آیا کہ سوشلزم کے علمبردار ہونے کے باوجود بھٹو‘ افغان مجاہدین کی مدد پر آمادہ کیوں ہیں۔ 
افغان جہاد کے پہلے علم بردار نصیراللہ بابر تھے۔ وہ بہادر آدمی‘ بعدازاں کراچی میں جس نے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا۔ پیپلز پارٹی والے دعویٰ کرتے ہیں کہ سب کیا دھرا ضیاء الحق کا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ افغان پالیسی کی بنیاد بھٹو نے رکھی۔ نصیراللہ بابر ان کے مشیر تھے‘ جن کی حب الوطنی پر انہیں اعتماد تھا۔ 
خیر‘ یہ ایک اور کہانی ہے۔ فاروقی سے میں نے کہا: مجاہدین میں اختلافات کی پریشان کن خبریں آتی ہیں۔ جواب ملا: اختلاف مجاہدین میں نہیں‘ تاجروں میں ہے۔ اقتدار کے بھوکے ان تاجروں نے بعد میں جو گل کھلائے‘ ان کی یاد اذیت ناک ہے۔ ایک وقت وگرنہ وہ تھا‘ جب صدر رونالڈ ریگن نے ان کے بارے میں کہا تھا: "Moral equivalent of our Founding Fathers..." ''اخلاقی اعتبار سے‘ ہمارے بانی اجداد کے ہم پلہ‘‘۔ 
اسی طرح کے تاجروں سے ہمیں واسطہ آن پڑا ہے۔ ایک دن وزیر اعظم کی موجودگی میں‘ وہ طے کرتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں۔ اگلے ہی دن وہ انحراف کرتے ہیں۔ پھر صاف صاف مکر جاتے اور مخالفت پر اتر آتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھتا ہے اور نہ ان کا ضمیر ملامت کرتا ہے کہ بھائی صاحب! کل تو آپ ایک اور گیت گا رہے تھے۔ 
فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ سیاستدانوں نے خود کیا۔ فوراً بعد وہ چیخ و پکار کرنے‘ دہائی دینے لگے۔ سرائیکی کے ایک لوک گیت میں ایک دل گرفتہ‘ اپنے محبوب سے سوال کرتا ہے: جب تم نے مجھ سے پیمان کیا اور ساری دنیا سے کاٹ ڈالا تو کیا اس وقت تم ہوش و حواش میں نہ تھے؟ 
حامد علی خان کا واقعہ لرزا دینے والا ہے۔ اب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عاصمہ جہانگیر ایسی خاتون سے ہر برس کیوں پٹتے وہ ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کے لیے عمران خان نے آنجناب کو نامزد کیا تو پارٹی کے ایک رہنما نے کہا: کسی اور کو بھیج دیجیے۔ ان کے ذہن میں شاید ماضی کے کچھ واقعات رہے ہوں۔ مثلاً جب انہوں نے فوزیہ قصوری ایسی فرشتہ سیرت خاتون کا سیاسی مستقبل تباہ کر ڈالا۔ جھوٹے بہانے پر کہ وہ امریکی شہری ہیں‘ نہ صرف قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے نہ دیا بلکہ شعبہ خواتین کی صدارت سے بھی انہیں محروم ہونا پڑا۔ امریکہ کے صرف ایک دورے میں شوکت خانم ہسپتال کے لیے وہ ڈیڑھ ملین ڈالر لائی تھیں۔ اپنے گھر میں‘ رات گئے وہ میرے سامنے آئیں۔ آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی۔ کہا: ہارون بھائی! یہ کیا ہوا؟ پارٹی پر کیا گزری؟ سیاست الگ‘ میرے لیے وہ سگی بہن جیسی ہیں۔ اس لمحے کی اذیت کبھی میں فراموش نہ کر سکوں گا۔ میں نے کہا: کون سی پارٹی اور کون سے مقاصد؟ 
وہ اغراض کے بندے ہیں۔ لیڈری چمکانے کے آرزو مند۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ عمران خان بھی فقط ذاتی عظمت کے متلاشی ہیں۔ کبھی کبھی دل بہت دکھتا ہے۔ جی چاہتا ہے‘ اٹھارہ برس کی رفاقت کے نام پر‘ عمران خان سے ایک سوال پوچھوں: تمہارا ضمیر کیا تمہیں کچوکے نہیں دیتا کہ معصوم بچوں جیسی اس خاتون کے لیے تلافی کا کوئی قرینہ تلاش کرو۔ یا رب! دل اتنے سخت کیسے ہو جاتے ہیں۔ 
پارٹی کے معترض لیڈر سے کپتان نے یہ کہا: پارٹی کا مؤقف پیش کرنے کے سوا‘ حامد علی خان کو کیا کرنا ہے؟ بھولا بادشاہ‘ وہ واقعہ اسے کیوں بھول گیا‘ افتخار چودھری کے دائر کردہ مقدمے میں‘ عمران خان سے منسوب ایک جعلی بیان جب اس نے عدالت میں داخل کرا دیا تھا۔ خان گویا معافی مانگ رہا ہو۔ عمران نے اگر اسے معاف کر دیا تو اچھا کیا۔ مگر ایسے آدمی پہ دوسری بار اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اب ایک دوسرا ہی مؤقف ان صاحب نے اختیار کیا۔ سوال کیا گیا تو کہا کہ میں وکیلوں کا لیڈر بھی ہوں۔ خدا کا خوف کرو بھائی‘ یہاں تم پارٹی کی نمائندگی کرنے آئے تھے یا وکلاء کی؟ شام کو شیریں مزاری وضاحت کرتی رہیں۔ کب تک وضاحتیں؟ ایک سیاسی پارٹی‘ جو ممکن ہے کہ کل ملک کی باگ ڈور سنبھالے‘ اس قدر غیر ذمہ دار کیسے ہو سکتی ہے؟ 
تحریک انصاف کا لیڈر آزردہ بہت تھا۔ بولا: جائیدادیں بیچ کر‘ سرکاری عتاب کا خطرہ مول لے کر ہم سیاست کرتے ہیں۔ ادھر وکیلوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ یکایک نمودار ہوتے اور سب کچھ سمیٹ لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی چہرے ذہن میں ابھر آئے۔ مقدمات فیس کے بغیر لڑتے ہیں۔ قیمت مگر ملک کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ وزارتیں اور وزارتوں کے بل پر من مانی۔ ایک صاحب تو گورنر بھی ہو گئے تھے۔ ان کے دور کی روداد لکھی جائے تو اچھے اچھے منہ چھپا لیں۔ عدالتوں میں بعض ایسے کارنامے آنجناب نے انجام دیئے کہ سبحان اللہ۔ 
قلم بہکتا ہے۔ اسلام آباد سے موصول ہونے والی اطلاعات یہ ہیں کہ فوری سماعت کی عدالتیں انشاء اللہ قائم ہو کر رہیں گی۔ اس نازک دور میں سیاستدانوں کا کردار مگر یاد رہے گا۔ زرداری صاحب کو شکایت اپنے فرزند سے ہے۔ اشارہ مگر فوج کی طرف کیا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی سیاسی پشت پناہ ہے۔ کون سی پشت پناہی؟ مخدوم امین فہیم کو خود وہ روک نہیں سکے۔ عسکری قیادت سے کیا گلہ؟ ایک باخبر آدمی سے پوچھا: بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت پر‘ یہ قصہ زرداری صاحب نے کیوں چھیڑ دیا؟ کہا: توجہ اگر نہ ہٹاتے تو اور کیا کرتے۔ کارکن وگرنہ سوال کرتے کہ ان کے دورِ اقتدار میں محترمہ کے قتل کی تفتیش کیوں نہ ہو سکی۔ قاتل کیوں گرفتار نہ ہوئے؟ کوئی نہ کوئی شوشہ تو چھوڑنا ہی تھا۔ ان کی اطلاع کے مطابق بلاول ہی نہیں‘ چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھی تحفظات رکھتی ہیں۔ بعض کے مطابق اسی سے فون کرایا تھا کہ گاڑی کی چھت کھول کر‘ ہجوم کے لیے ہاتھ ہلائیں۔ 
شکوک اگر تھے تو سیاستدان متبادل تجویز کرتے۔ واویلا کرنے کا مقصد کیا ہے؟ منگل کی شب دنیا ٹی وی پر کامران شاہد کے پروگرام میں سروے ہوا تو 84 فیصد ناظرین نے ان عدالتوں کی تائید کی‘ صرف 16 فیصد نے مخالفت۔ ایک باقاعدہ سروے بھی شاید مختلف نہ ہو گا۔ دہشت گردی کے باب میں اکثر سیاستدانوں کا کردار منفی ہے۔ فکری انتشار انہوں نے پھیلایا۔ نون لیگ تک نے ان سے مراسم رکھے۔ پورا سال بے معنی مذاکرات پر ضائع کر دیا۔ ان کے حامیوں کو شریک اقتدار کیا۔ عمران خان اب تک وکالت کرتے رہے۔ خدا خدا کر کے یکسو ہوئے تو حامد علی خان بیچ میں کود پڑے۔ اور تو کچھ نہ کر سکے‘ قوم کو ذہنی اذیت دی۔ اتفاق رائے کو برباد کرنے کی کوشش۔ لاہور کا کالم نگار سچ کہتا ہے: فوج اگر نہ ہو تو ملک کے پلاٹ بنا کر بیچ دیں۔ فوجی افسروں کو میں نے دکھی پایا۔ ان میں سے بعض کو یقین ہے کہ میاں صاحب کے ا شارے پر زرداری صاحب نے کھٹ راگ الاپنا شروع کیا۔ بارِ دگر عرض ہے کہ مقصود فوجی عدالت نہیں بلکہ انصاف کی بروقت فراہمی۔ پولیس‘ تفتیشی نظام‘ سول انٹلی جنس اور عدالتی نظام کو سیاستدانوں نے برباد کر دیا۔ اب فوج کی راہ میں روڑے اٹکانے پر اتر آئے ہیں۔ 
اہمیت سبھی چاہتے ہیں۔ دو طرح کے لوگ دنیا میں ہوتے ہیں۔ ایک ایثار اور ریاضت سے اپنا وجود منواتے ہیں‘ دوسرے کھنڈت ڈال کر۔ افسوس ان لوگوں پر صد ہزار بار افسوس۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved