سکول اور کالج کے زمانے میں دسمبر کے آخری دنوں میں دو کام بڑے ذوق شوق سے کئے جاتے۔ ایک تو نئے سال کی ڈائری خریدی جاتی،دوسرا نئے سال کے حوالے سے وش کارڈز لئے جاتے ،جو اکتیس دسمبر کی شام سے پہلے پہلے مخصوص دوستوں تک پہنچائے جاتے۔ اس میں بیتے سال کے حوالے سے اشعار اور نئے سال کے متعلق کوئی دعائیہ نظم ضرور شامل ہوتی۔ اس حوالے سے اردو کے منفردعلامتی افسانہ نگار اور شاعر مظہر الاسلام نے ہمارے لئے آسانی پیدا کر دی تھی، مظہر الاسلام کے افسانوی مجموعے تو منفرد ناموں سے شائع ہوئے، جیسے ''گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی‘‘،'' خط میں پوسٹ کی ہوئی دوپہر ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایک کام وہ مزے کا کرتے کہ نئے سال کے حوالے سے دعائیہ نظم لکھتے، یہ نظم ہر سال لکھی جاتی، مختلف ڈائجسٹوں میں چھپا کرتیں۔ ہم دوست ان نظموں سے استفادہ کرتے اور خوبصورت شاعرانہ دعائوں سے سجے دعائیہ کارڈز اپنے دوستوں کوبھیجا کرتے۔ سال کی آخری شام ڈوبتے سورج کو دیکھنا بھی نوجوانی کے ان دلکش دنوںکی ایک یاد تھی۔ میرا ایک دوست شہزاد جسے اپنے بہنوئی کے انتقال کے بعد احمد پور شرقیہ چھوڑ کرعلی پور شفٹ ہونا پڑا تھا، وہ ہر سال کی آخری شام گزارنے لازمی آتا۔ ہم وہ گلابی شام اکٹھے گزارا کرتے، پارک نام کی کوئی شے ہمارے بدقسمت شہر میں نہیں تھی، سکول کے گرائونڈز تھے، جو کرکٹ ،فٹ بال کھیلنے کے کام آتے، وہاں جاتے ، گپ شپ کرتے، اشعار سنتے، سناتے، گزرے سال کی پڑھی کتابیں یاد کرتے ،پھر جیسے ہی سال کے آخری دن کا تھکا ہارا سورج ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا، ہم دم بخود اس کے ڈوبنے کا منظر دیکھتے۔ کبھی دھند کے باعث سورج نظر نہ آتا، مگر ہمارے جوش وولولے میں کوئی کمی نہ آتی۔ شائد وہ دن ہی ایسے تھے۔ بعد میں ویسا لطف اور حظ کبھی نہیں ملا۔
ڈائری کو بعد میں اقوا ل زریں، اشعار اور مختصرنثر پارے درج کرنے کے لئے استعمال کرتے ۔ یہ عہد بھی کرتے کہ نئے سال کو ڈسپلن اور پلاننگ کے ساتھ گزاریں گے اور اپنے اگلے دن کا لائحہ عمل تحریر کیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ اور بات کہ سال کے آخر میں وہ ڈائری آدھے سے زیادہ خالی صفحات کے ساتھ ملتی، جس میں کہیں کہیں پر اشعار ، نظمیں وغیرہ نقل ہوتیں، یا پہلے صفحے پر نئے سال کے عہد بلکہ اپنے آپ سے کئے وعدو ں کی ایک فہرست، جسے کبھی ایفا نہ ہونا تھا۔
لاہور آنے کے بعد ایک دوست نے جس کا موضوع نفسیات اور پیشہ ور کونسلنگ تھا، انہوںنے کئی نئے تصورات سے آشنا کیا۔ انہوں نے سمجھایا کہ ڈائری کو آنے والے دنوں کی ملاقاتوں اور مصروفیت کی تفصیل لکھنے کے لئے استعمال کرنا چاہیے ،مگر ڈائری کا ایک خاص کام نئے سال کی تفصیلی اور جامع پلاننگ ہے ، جسے پچھلے سال کے آخری دن یعنی اکتیس دسمبر کی شام یا زیادہ سے زیادہ یکم جنوری کے دن تک تحریر میں لے آنا چاہیے۔ اس موضوع پر خاصا کچھ پڑھنے کا موقعہ بھی ملا۔ معلوم ہوا کہ نئے سال کی اس پلاننگ کو جنرلائز رکھنے کے بجائے زیادہ واضح اور غیر مبہم رکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر نئے سال میں اپنا وزن کم کرنا ہے، اس فقرے کے بجائے واضح طور پر لکھنا چاہیے کہ اپنا وزن پچیس پائونڈ کم کرنا ہے، جنوری کے مہینے میں سات پائونڈ، جبکہ فروری، مارچ اور اپریل میں پانچ پانچ پائونڈز کم کرنے ہیں۔ اس واضح سوچ کے نتیجے میں آدمی بہتر منصوبہ بھی بنا سکتا ہے اور ہر ہفتے یا دو ہفتے کے بعداپنے اہداف کا جائزہ بھی لے سکتا ہے کہ سپیڈ کیسی جا رہی ہے، کہاں غلطیاں ہوئیں، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح مختلف حوالوں سے مستقبل کی پلاننگ کی جا سکتی ہے۔
یہ کالم سال کے پہلے دن شائع ہور ہا ہے، پچھلے سال یعنی 2014ء کی یکم جنوری کو میں نے بھی کچھ عہد کئے تھے، ان میں سے بعض پورے ہوئے، کچھ کا حال پہلے جیسا ہی رہا، مگرایک بار پھر یہ اندازہ ہوا کہ فالو اپ کئے بغیر کوئی بھی عہد یا ٹاسک پورا نہیں ہوسکتا۔ ہر سال میں کچھ کتابیں پڑھنے کا عہد کرتا ہوں۔ کبھی کتابوں کی فہرست بناتا ہوں اور کبھی موضوعات کا تعین کر لیتا ہوں کہ اس سال ان پر پڑھنا ہے۔ اس سال ایوارڈ یافتہ شاہکار فلموں کا سوچا تھا، اس حوالے سے خاصا کامیاب رہا۔ ٹی وی پر وقت ضائع کرنا بند کیا اور اس وقت کو استعمال کرتے ہوئے بہت سی یادگار فلمیں دیکھیں، جن کا نشہ دل ودماغ پر طاری ہے۔سال گزشتہ کتابوں کے حوالے سے زیادہ اچھا نہیں رہا۔ مصروفیت کچھ اس طور رہی،معاملات کنٹرول میں نہ رہنے کے باعث منصوبہ بندی متاثر ہوئی۔ چند ایک ایسی کتابیں کسی نہ کسی طرح پڑھ ہی
لیں، جنہوں نے سرشار کر دیا۔ اوحان پاموک کے ناول مائی نیم از ریڈ کا اردو ترجمہ ''سرخ میرا نام‘‘پڑھنے کو ملا، اسے فرخ سہیل گوئندی نے شائع کیا ہے۔ کمال کا ناول ہے،ترک ناول نگار اورحان پاموک کے فسوں ساز قلم سے میں آشنا تھا، ان کے ایک ناول کا ترجمہ عمر میمن نے سفید قلعہ کے نام سے کیا ہے، ''سرخ میرا نام‘‘ مگر غیرمعمولی ناول ہے۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ماسکو کے پس منظر میں لکھا ناول بھی اسی سال پڑھا، ان کے مخصوص سٹائل میں لکھا دلکش ناول ہے۔ سال کے آخر میں ایلیکس ہیلے کا مشہور ناول روٹس کا ترجمہ'' اساس‘‘پڑھنے کو ملا۔ روٹس بہت مشہور ناول ہے، اردو میں اس کا ترجمہ شائع ہونا بہت خوشگوار اضافہ ہے۔ ایک بہت دلچسپ ناول دسمبر کے آخری ہفتے میں ملا ، یہ مصری ناول نگار علاالاسوانی کا ناول ''عمارت یعقوبیان‘‘ہے۔ غضب کا ناول ہے، مصری کلچر اور وہاں کے زوال زدہ سماج کی بہت عمدہ عکاسی ہے۔ عرصے بعد کوئی کتاب ساری رات جاگ کر پڑھی۔ اس کی لذت اور چسکا ساتھ لئے نئے سال میں داخل ہوا۔ مذہبی کتابوں کے حوالے سے ایک بہت خوشگوار دریافت ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کے لیکچرز یعنی محاضرات کے چار مجموعے ہیں، جو سال کے شروع میں بک ایکسپو سے خریدے ،مگر پڑھنے کا موقعہ قدرے دیر سے ملا۔ محاضرات سیرت، محاضرات قرآن، محاضرات حدیث اور محاضرات فقہ۔ ڈاکٹر محمود غازی بڑے سکالر اور متوازن سوچ کے حامل تھے۔علامہ یوسف قرضاوی کی مشہور کتاب دین میں ترجیح کا معاملہ کے بعد روایتی
دینی فکر میںپہلی بار متوازن سوچ پڑھنے کو ملی ۔ نئے سال کے اہداف میںروایتی دینی فکر کے بعض ممتاز سکالرز جیسے مفتی تقی عثمانی صاحب ،مولانالدھیانوی صاحب اور بعض دوسرے محترم علما کی کتابیں پڑھنا شامل ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ دینی مدارس سے تعلق رکھنے والے ممتاز علما کی فکر اور سوچ کو میرے جیسے لوگ زیادہ نہیں جانتے ، ان کی تحریریں اور کتابیں ایک خاص روایتی دائرے تک ہی محدود رہتی ہیں ، وہاں انہیں بہت زیادہ پزیرائی ملنے کے باوجود مین سٹریم میڈیا میں ان کی فکر سرائیت نہیں کرپاتی۔
بعض نوجوان قارئین نے فیس بک میسجز اور ای میلز کے ذریعے نئے سال کے حوالے سے مشورہ مانگا۔ میں تو ہر ایک کو یہ کہوں گا کہ نئے سال کی کمٹمنٹ میں قرآن پاک ترجمہ سے پڑھنے کی ضرور کوشش کریں۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو مطالعے کے شوقین ہیں، مگر اس طرف توجہ نہیں دے پاتے، انہیں اس طرف سوچنا چاہیے۔ جو بھی ترجمہ انہیں اچھا لگے، اسے پڑھ ڈالیں۔ کتابیں پڑھنے کے حوالے سے اپنا ہدف مقر ر کریں۔ اپنی تعلیمی یا دفتری مصروفیت کے ساتھ ساتھ کچھ وقت پڑھنے کو نکالیں، ہر مہینے کم از کم ایک نئی کتاب تو پڑھ ڈالیں۔فکشن کو اپنے مطالعہ کا حصہ ضرور بنائیں کہ شخصیت میں سافٹ نیس اسی سے آتی ہے۔ نئے سال میں ہم لوگ اپنی بعض مضر عادتیں ،جیسے سگریٹ نوشی وغیرہ ترک کرنے کا عہد کرتے اور کچھ نئی صحت مند عادتیںڈالنے کا عہد کرتے ہیں۔ ایساضرور کرنا چاہیے، مگر غلطی یہ کی جاتی ہے کہ اپنے اہداف کا فالو اپ نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے خلوص نیت کے باوجود ہر کمٹمنٹ ناکام ہوجاتی ہے۔ اس سال دوسری کمٹمنٹس کے ساتھ ہفتہ وار فالو اپ کا عہد بھی کر ڈالیں۔