سیاسی و عسکری قیادت ایک ہی
صفحے پر آ چکی ہیں... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''سیاسی و عسکری قیادت ایک ہی صفحے پر آ چکی ہے‘‘ اگرچہ بھائی صاحب کی سرتوڑ کوشش تھی کہ اپنے لیے الگ صفحہ بنایا جائے کیونکہ ایک ہی صفحہ تھا جس پر سیاسی قیادت کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں بچی تھی بلکہ اہلِ سیاست نے اپنی جگہ پہلے ہی خالی کر رکھی تھی کیونکہ وہ دیگر مفید کاموں میں مصروف رہی ہے اور اس صفحے پر آنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی کیونکہ سارا کام اس کے بغیر ہی ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا؛ چنانچہ اب ہم خود ہی اس صفحے کے ایک کونے میں آ بیٹھے ہیں‘ حالانکہ خاصا اجنبی اجنبی سا لگ رہا ہے اور اس سے ہمارے کام میں کافی حرج بھی واقع ہو رہا ہے لہٰذا تاریخ میں ہماری یہ قربانی یاد رکھی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتیں گے‘‘ اور بے شک یہ جنگ فوج نے ہی جیتنی ہے کیونکہ ہم تو امن پسند آدمی ہیں اور جنگ سے ہماری ویسے ہی جان جاتی ہے جبکہ دہشت گردوں کو خود بھی اچھی طرح سے ہماری امن پسندی کا پورا پورا احساس ہے‘ بے شک ان سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ آپ اگلے روز وزیرداخلہ چودھری نثار سے ملاقات کے دوران تبادلۂ خیال کر رہے تھے۔
بلاول اور زرداری کے درمیان
کوئی اختلافات نہیں ہیں... گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''بلاول
اور زرداری کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں‘‘ کیونکہ دونوں کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کامیاب ہو کر انہوں نے ایک ہی کام کرنا ہے جبکہ زرداری اپنے حصے کا تقریباً پہلے ہی کر چکے ہیں بلکہ سارے زعما حسب توفیق اپنے اپنے حصے کا کام نمٹا چکے ہیں اور اب صرف بلاول کے حصے کا کام باقی رہ گیا ہے اور اگر انہوں نے میری ہدایات پر عمل کیا تو بہت جلد اس میں طاق ہو جائیں گے جبکہ دیگر اکابرین بھی اس سلسلے میں انہیں اپنی اپنی مہارت سے مستفید کر سکتے ہیں‘ اس لیے دونوں کے درمیان کسی اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے؛ چنانچہ ان افواہوں پر کان دھرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی ایک منظم جماعت ہے‘‘ اور جو کام اسے آتا ہے اسے پورے منظم طریقے سے کرتی ہے۔ اسی لیے جب بھی اقتدار ملتا ہے وہ اس کام میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتی چلی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''زرداری کمان ہے تو بلاول تیر ہے‘‘ اور اگر یہ تیر وقت سے پہلے کمان سے نکل گیا تو بلاول کا نقصان زیادہ ہے کیونکہ زرداری کے تو اب اپنی نیک کمائی کھانے کے دن ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت پوری قوت سے
دہشت گردی کو ختم کرے... منظور وٹو
پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''حکومت پوری قوت سے دہشت گردی کو ختم کرے‘‘ جبکہ ہم اپنے عہد میں اسے اس لیے ختم نہ کر سکے تھے
کیونکہ ہم اپنی قوت دونوں ہاتھوں سے عوام کی خدمت پر صرف کر رہے تھے جس کا الٹا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب میں عوام نے ہماری خدمت بھی اسی قوت کے ساتھ کردی؛ حتیٰ کہ مستقبل میں بھی کچھ نظر نہیں آتا اور اب یہ خیال آتا ہے کہ عوام کی وہ خدمت اتنی زیادہ قوت سے نہیں کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کا شکریہ کہ اس نے دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے مؤقف کی تائید کی ہے‘‘ بلکہ دیگر نفع آور کاموں میں بھی کھل کر ہمارے نقش قدم پر چل رہی ہے بلکہ ہم نے بھی اسی کے نقش قدم پر چل کر جملہ فتوحات حاصل کی ہیں کیونکہ یہ نقشِ قدم بنیادی طور پر انہی حضرات کا جمایا ہوا ہے لہٰذا دونوں کی حالت یہ ہے کہ ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں‘ سب مزے میں ہیں
آپ اگلے روز ماڈل ٹائون میں بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
طالبان کی تقسیم ختم ہو چکی‘ اب سب
بُرے طالبان ہیں... پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''طالبان کی تقسیم ختم ہو چکی‘ اب سب بُرے طالبان ہیں‘‘ کیونکہ یہ حضرات تب تک ہی اچھے طالبان تھے جب تک یہ
ہمارے ساتھ اچھے تھے اور ہم ان کے ساتھ۔ اب تو یہ مجبوری بھی ہے کہ اچھے طالبان کو بھی اچھا نہیں کہہ سکتے‘ نہ ہی وہ ہمیں اب اتنا اچھا سمجھتے ہیں‘ اس لیے حکومت بھی یک رنگ ہو گئی ۔ بلکہ اسے ہونا پڑا ہے حالانکہ وہ ہر طرح کی ورائٹی میں یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھ سمیت کوئی بھی شخص اگر ریاست کے خلاف بندوق اٹھائے گا وہ دہشت گرد ہے‘‘ حالانکہ خاکسار نے تو کبھی غلیل تک نہیں چلائی۔ انہوں نے کہا کہ ''اکبر بگٹی نے ریاست نہیں بلکہ ایک شخص کے خلاف بندوق اٹھائی تھی‘‘ جبکہ ہم نے بھی اس کے خلاف بندوق اٹھا رکھی تھی لیکن جب سے عسکری قیادت کے ساتھ ایک صفحے پر آئے ہیں‘ یہ بندوق مال خانے میں جمع کرا دی ہے اور خود سے کہہ رہے ہیں کہ ہور چوپو! انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کی سرزمین کسی کو بھی دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘ البتہ اگر کوئی ہماری اجازت کے بغیر ایسی حرکت کرے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
لمس کی گرمی کہاں سے آئی تھی اُس میں، ظفرؔ
یہ اگر وہ خود نہیں تھا، یہ اگر آواز تھی