تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-01-2015

مینارِ شہدا

آج ''دنیا‘‘ میں محترم امیرحمزہ کا مضمون شائع ہوا ہے۔جو قارئین اس کا مطالعہ نہیں فرما سکے‘ ان سے درخواست ہے کہ گزشتہ روز کا اخبار آسانی سے دستیاب ہو سکتا ہے ‘ اسے ضرور پڑھیں۔ امیرحمزہ ایک عالم دین ہیں‘ لیکن جو درد اور سوز ان کی تحریر میں دیکھا‘ اسے پڑھ کر سوچا کہ کاش! اسلام کا نام لینے والے دہشت گرد‘ اس تحریر کو پڑھیں اور پھر سوچیں کہ سچا مسلمان کیا ہوتا ہے؟ وہ انسانیت کے کتنے بلند درجے پر فائز ہوتا ہے؟ اس کے سینے میں کتنا گداز ہوتا ہے؟بہت کم علمائے کرام ہیں‘ جو اس عظیم قومی سانحے کے بعد‘ شہداء کے اہل خاندان کے پاس چل کر گئے ہوں۔ ان کا دکھ بٹایا ہو۔ ان کے ساتھ شریک غم ہوئے ہوں۔ میرے حالات ایسے نہیں کہ میں لاہور سے باہر سفر کر سکوں۔ صحت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ دمے کا موذی مرض اس انتہا تک پہنچ چکا ہے کہ میں دس قدم بھی چلوں‘ تو سانس پھول جاتی ہے۔ بہت تڑپا۔ بہت سوچا کہ کسی طرح میں ان عظیم والدین کے ساتھ شریک غم ہو سکوں۔ مگر افسوس کہ معذوری نے اجازت نہیں دی۔ لیکن میں لاہور میں بیٹھ کر بھی وہی درد محسوس کر رہاہوں‘ جو شہید بچوں کے والدین نے محسوس کیا ہو گا۔ آج امیرحمزہ کا مضمون پڑھ کرخیال آیا کہ ہم اپنے شہید بچوں کو لازوال تو نہیں کر سکتے‘ لیکن انہیں جاوداں تو بنا سکتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ اسی سکول میں‘ جہاں بچوں نے جام شہادت نوش کیا‘ ایک عظیم الشان مینار تعمیر کیا جائے‘ جس کا نام ''یادگارشہیداں‘‘ یا ''مینارشہداء‘‘ ہو۔ اگر اس سے بہتر نام تجویز کیا جا سکتا ہو‘ تو میں اس کا بھی خیرمقدم کروں گا۔ میری تجویز یہ ہے کہ مقام شہادت پر ایک عظیم الشان مینار تعمیر کیا جائے جس کا ڈیزائن ترکی اور پاکستان کے اعلیٰ ترین آرکیٹیکٹس تیار کریں۔ ترکی اس لئے کہ ہمارے ترک بھائی اپنے طرزتعمیر کے ساتھ ‘ حسن تعمیر کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ مجھے پاکستان کے آرکیٹیکٹس کا بھی علم ہے‘ لیکن جس جذبے کے ساتھ میں یہ تحریر کر رہا ہوں‘ اس کا واحد 
مقصد یہ ہے کہ طرز تعمیر میں‘ اس جذبہ شہادت کی عظمت‘ شان اورمعصوم شہادتوں کی ہر خصوصیت کو سمو دیا جائے‘ جسے دیکھنے پر وہ سب کچھ نظروں کے سامنے آ جائے‘ جو ہم دیکھ نہیں سکے‘ لیکن جو ہمارے شہید‘ بچوں پر گزری۔ میں ہرگز یہ نہیں چاہوں گا کہ پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں کا ایک پیسہ بھی‘ اس مقدس یادگار کو ناپاک کرے۔ میری خواہش ہے کہ اس یادگار کو صرف اور صرف عوام اپنی محبت‘ عقیدت اور پیسے کے ساتھ تعمیر کریں۔ بلکہ ہو سکے‘ تو یہ شرط بھی لگا دی جائے کہ اس مینار کی تعمیر میں مالی اعانت کرنے والے صرف اور صرف رزق حلال سے عطیات دیں۔ اس میں حرام کی کمائی کا ایک پیسہ بھی شامل نہ ہو۔ یہ فیصلہ ہر عطیہ دینے والے کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنے ایمان کی روشنی میں فیصلہ کرے کہ جو کچھ میں دے رہا ہوں‘ وہ سوفیصد رزق حلال میں سے ہے۔ 
میرے ذہن میں اس مینار کا جو خاکہ ابھر رہا ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ مینار‘ پشاور شہر کی سب سے بلند تعمیرات میں شامل ہو اور اس کا نچلا حصہ‘ سیاہ پتھروں سے آراستہ کیا جائے اور ان پتھروں پر تمام شہدا کے اسمائے گرامی کندہ ہوں۔ یہ میرا اپنا آئیڈیا نہیں۔ مجھے لنکن میموریل کے زیرسایہ ‘تعمیرشدہ وہ دیواریں یاد آ گئیں‘ جن پر ان‘ تمام امریکی افسروں اور سپاہیوں کے نام کندہ ہیں‘ جنہوں نے ویتنام کی جنگ میں ‘ جانوں کی قربانی دی۔ دنیا بھر کے جتنے بھی سیاح‘ لنکن میموریل دیکھنے جاتے ہیں‘ ان کی بڑی تعداد اس یادگار کا مشاہدہ بھی کرتی ہے‘ جہاں ویتنام کے اندر جانیں دینے والوں کے نام لکھے ہیں۔ میں نقل کرنے کی تجویز نہیں دے رہا۔ میں صرف آئیڈیا یاد کر رہا ہوں‘ جس میں ایک قوم 
کے فرزندوںنے اپنے وطن کی سربلندی کے لئے قربانیاں دیں۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ویتنام میں امریکی حملہ آور تھے اور انہوں نے وطن پرستوں پر شرمناک مظالم ڈھائے۔ میں صرف اس نکتے پر توجہ دے رہا ہوں کہ وطن کی خاطر ‘جانیں قربان کرنے والوں کی یادگاریں کس طرح بنائی جاتی ہیں؟ مجھے کبھی کبھی یہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم نے وطن کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں کی یادگاریں کیسی بنائی ہیں؟ اور کہاں کہاں تعمیر کی ہیں؟ مثلاً ہم نے 1965ء کی جنگ کے شہیدوں کے علیحدہ علیحدہ مزار بنا کر‘ زمین پر دوردور تک بکھیر رکھے ہیں‘ لیکن ایسی ایک بھی یادگار تعمیر نہیں کی‘ جس میں ان شہیدوں کی عظمتوں کو یکجا کر کے‘ ایک ایسی یادگار تعمیر کی گئی ہو‘ جس پر ہر شہید کا نام بھی موجود ہو اور ان کی اجتماعی قربانی کی عظمت بھی نظر آئے۔ میں دوسرے الفاظ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ واہگہ کے قرب و جوار میں ہمیں 1965ء کے تمام عظیم شہداء کی ایک مشترکہ یادگار بنانا چاہیے‘ جس پر شہادت دینے والے تمام فرزندان وطن کے نام لکھے ہوں اور زائرین ایک ہی نظر میں پورے خاندان کے ساتھ‘ سارے عظیم شہیدوں کے اسمائے گرامی کو پڑھ لیں۔ مجھے تو سیاچن پر جام شہادت نوش کرنے والے ان فرزندان وطن کی یاد بھی آ رہی ہے‘ جنہوں نے دنیا کے دشوار ترین میدان جنگ پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں۔ میں نے اپنے کالم میں ایک نوجوان افسر کا وہ خط شائع کیا تھا‘ جو اس نے اپنے اہل خاندان کو ‘ اپنے شوق شہادت کے حوالے سے لکھا تھا اور پھر تھوڑے ہی دنوں کے بعد‘ اس نے جام شہادت نوش کر لیا تھا۔ اس وقت کے صدر جنرل ضیاالحق نے میرا وہ کالم‘ حسن ابدال کی ایک تقریب میں روتے ہوئے پڑھ کر سنایا تھا‘ لیکن بات وہیں پر ختم ہو گئی۔ میری تمنا ہے کہ سیاچن کے ان شہیدوں کو بھی یاد رکھنے کا اہتمام کیا جائے اور ان کی یادگار‘ اسلام آبادکے کسی مقام پر تعمیر ہو۔ ہمارے بچوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے ملک پاکستان کے لئے کس کس نے کیسی کیسی قربانیاں دیں؟شہیدوں کی یادیں تازہ رہیں‘ توحب الوطنی کا جذبہ بھی جوان رہتا ہے۔ ہم کیسے بے وفا ہیں ؟کہ اپنے شہیدوں کو بھلا دیتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتے۔ ہم نے تو نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کرنے والوں کے لئے بھی کوئی ممتاز یادگار نہیں بنائی۔ 
پشاور کے معصوموں کی شہادتیں‘ غالباً دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی قربانی ہے۔ شہادت کا اعزاز حاصل کرنے والے بچوں نے کتنی جرأت اور بہادری سے درندوں کا سامنا کیا؟ اس کی نئی نئی کہانیاں روز سننے میں آ رہی ہیں اور روز کلیجہ پھٹتا ہے۔ اہل پشاور تو شاید‘ اپنی زندگی میں اس سانحے کو فراموش نہ کر سکیں‘ لیکن یہ زخم ایسا ہے کہ اسے بھرنا نہیں چاہیے۔ ایسے زخموں کا تازہ رہنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ پاکستان میں دردمند انسانوں کی کوئی کمی نہیں۔ بلکہ میرا تو یقین ہے کہ انسانیت کی بھلائی اور فلاح کے لئے‘ جتنا پیسہ پاکستانی قوم خرچ کرتی ہے‘ شاید ہی کسی دوسرے ملک کے شہری کرتے ہوں؟ کیونکہ ہمارے ملک میں تنظیم سازی کی صحت مند روایت موجود نہیں‘ اس لئے فلاحی کاموں پر یا تو صاحب ثروت نجی طور پر خرچ کر دیتے ہیںیا عبدالستار ایدھی جیسے چند درویش منش افراد ‘ عوامی عطیات یکجا کر کے‘ ایک ادارے کے ذریعے ضرورت مندوں تک پہنچاتے ہیں۔مجھے کسی ایسے ہی صاحب دل کی تلاش ہے‘ جو شہداء کی یادگاریں بنانے کی ذمہ داری اٹھا سکتا ہو۔ ایدھی صاحب ‘ اپنے ادارے کو اتنا پھیلا چکے ہیں کہ اب وہ مزید پھیلائو کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ میرا ذہن عمران خان کی طرف جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا نے انہیں گزشتہ انتخابات میں بھاری تعداد میں ووٹ دے کر‘ اظہار محبت کیا ہے۔عمران خان یوں بھی فلاحی کاموں کی طرف رحجان رکھتے ہیں۔ ماشاء اللہ ان کے زیرانتظام‘ پاکستان کا بہترین کینسر ہسپتال ضرورت مندوں کے کام آ رہا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی نمل یونیورسٹی بھی پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔ان کی سیاسی مصروفیات بھی کافی ہیں‘ لیکن وہ ادارے قائم کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں‘ اس لئے میں چاہوں گا کہ وہ شہداء کی یادگاروں کی تعمیر کی ذمہ داری اٹھائیں اور اپنی سرپرستی میں ایک نیا ادارہ تعمیر کر کے‘ شہداء کے اہل خاندان کی غم گساری اور اہل وطن کی طرف سے اظہار عقیدت کے لئے‘ ایسی عظیم یادگاریں تعمیرکریں‘ جو آئندہ نسلوں کے لئے بھی سرمایہ ثابت ہوں۔ میرا یقین ہے کہ پاکستان انشاء اللہ‘ ہمیشہ زندہ سلامت رہے گا اور ہماری قومی یادگاریں بھی آنے والی نسلوں کو عظمت وطن کا احساس دلاتی رہیں گی۔میں اپنی طرف سے یہی عرض کر سکتا ہوں کہ جو صاحب دل اس نیک کام کا بیڑا اٹھائے گا‘ اسے سب سے پہلے ایک لاکھ روپے کا چیک میں پیش کروں گا۔کاش! یہ ذمہ داری عمران خان اٹھا لیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved