سوا سال قبل کونسل آف فارن ریلیشنز کے فیلو اور جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان اور بھارت کے امور پر دسترس رکھنے والے امریکی مصنف ، ڈینیل ایس مارکی کی کتاب No Exit From Pakistan منظر عام پر آئی تھی۔ جس میں پاکستان کے مستقبل کا تجزیہ کرتے ہوئے امریکی دانشور نے کہا کہ اس نیو کلیئر پاور کے زوال میں دہشت گردی‘ ریاستی اداروں کی بے عملی اور ناقص کارگزاری کے علاوہ حکمران اشرافیہ کی تبدیلی کے عمل اور عوامل کو قبول نہ کرنے کی عادت کا بھی عمل دخل ہے۔
مارکی کی کتاب میں پاکستان اور امریکہ کے دیرینہ تعلقات ، ماضی، حال اور مستقبل کا گہرائی سے جائزہ لیاگیا ہے اور نشیب و فراز کی داستان پڑھنے کے قابل ہے۔دہشت گردی کے قومی معیشت ، سیاست، اقتصادیات ، سماج اور نفسیات پر مرتب ہونے والے اثرات کا اندازہ سب کو ہے۔ خوف ، بے یقینی اور ذہنی و نفسیاتی اضطراب نے پوری قوم کو مریض بنا دیا ہے مگر قومی اداروں کی بے عملی اور ناقص کار گزاری بھی کم پریشان کن اور نقصان دہ نہیں۔ قومی زندگی کو یہ عوامل کس طرح متاثر کرتے ہیں‘ اس کا اندازہ گزشتہ دو تین دن کے واقعات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
لاہور ایئرپورٹ دھند کی وجہ سے تو ہر سال وقفے وقفے سے بند ہوتا ہے مگر گزشتہ تین روز سے روزانہ کسی نہ کسی ایئر لائن کا خراب طیارہ رن وے بند کرا دیتا ہے اور اندرون و بیرون ملک سے لاہور آنے والی پروازوں کے پاکستانی اور غیر ملکی مسافر سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ گزشتہ روز سعودی ایئر لائن کے جو مسافر لاہور یا پاکستان کے کسی دوسرے ایئرپورٹ کے بجائے دمام ایئرپورٹ پر اتارے گئے ان میں سے معلوم نہیں کتنے بے چارے کرنسی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہوں گے، کسی کو شادی،غمی کی تقریب میں شرکت کرنا ہوگی اور کوئی چھٹیاں گزار کر اپنے سرکاری یا کاروباری دفتر میں حاضری کا پابند ہوگا‘ مگر اب ایک اجنبی ملک کے ایئرپورٹ پر پڑا اس نظام اور انتظام کو دعائیں دے رہا ہے جس نے اس کی خوشیاں اکارت کردیں۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں گرتے گرتے ساٹھ ڈالر سے بھی کم سطح پر آچکی ہیں۔ حکومت نے گزشتہ تین ماہ کے دوران تیل کے نرخ کم کیے مگر تاجروں اور ٹرانسپورٹروں نے تیل کی قیمتوں کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا۔ پنجاب میں تو پھر بھی حکومت نے دبائو ڈال کر بسوں ، ویگنوں وغیرہ کے کرائے کم کرائے مگر دوسرے صوبوں میں ایسا نہ ہوسکا۔ گزشتہ روز تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد کراچی میں ٹرانسپورٹرز نے اعلان کردیا کہ وہ کرائے ہرگز کم نہیں کریں گے۔ حکومت سندھ نے خاموشی اختیار کرلی۔اس دوران پھلوں ، سبزیوں ، دالوں ، گوشت اور دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں کوئی کمی ہوئی نہ گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کسی مہم کا آغاز ہوا۔
اس سال گنے کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، شوگر مل مالکان کے دبائو پر حکومت سندھ نے گنے کی طے شدہ قیمتیں کم کردیں، پنجاب حکومت نے بھی اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی مگر جلد نتائج بھانپ کر سنبھل گئی۔ مل مالکان نے من مانے نرخوں پر گنا خریدا۔ تیل کی قیمتیں کم ہوچکیں اور ڈالر بھی قدرے مستحکم ہے مگر نئی چینی آنے پر قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں اور ایک اخباری اطلاع کے مطابق یوٹیلٹی سٹورز پر چینی دستیاب نہیں۔ میاں نوازشریف نے گزشتہ روز تیل کی قیمتیں کم کرنے کا اعلان فرمایا تو عوام کو یہ اطلاع بھی دی کہ ان کے اقتدار سنبھالنے پر آلو اسّی روپے کلو بک رہا تھا‘ اب بیس روپے فی کلو دستیاب ہے مگر انہوں نے قوم کو یہ خوشخبری نہیں سنائی کہ وہ چینی کے نرخوں کو مستحکم رکھنے کی ہدایات جاری کررہے ہیں۔ نئی فصل یا پیداوار کے مارکیٹ میں آنے پر قیمتیں ہمیشہ کم ہوتی ہیں اور آف سیزن میں یہ بڑھ جاتی ہیں مگر یہاں بڑے زمینداروں ، صنعتکاروں ، ذخیرہ اندوزوں اور تاجروں کی مرضی ہے‘ جب چاہیں کسی چیز کی قیمت بڑھا دیں‘ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کیونکہ حکومت کے سپورٹر اور بعض دل جلوں کی اصطلاح کے مطابق یہ حکومت کے داماد ہیں۔ حکومت ان سے ٹیکس وصول کرسکتی ہے نہ انہیں من مانی سے روکنے پر تیار۔
دہشت گردی کا عفریت بھی ریاستی اداروں کی ناقص کارگزاری اور بے عملی کی وجہ سے پھلا، پھولا اور کنٹرول سے باہر ہوا۔ کون نہیں جانتا کہ چھوٹے چھوٹے مجرموں کی بروقت سرکوبی نہ کرنے کی وجہ سے بڑے مجرموں کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا اور ایک دن یہ ریاست کی آزادی، سلامتی اور مستقبل کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ رشوت اور سفارش کے ذریعے بھرتی ہونے والے پولیس اہلکار، انتظامی افسران اور خفیہ ایجنسیوں کے وابستگان اپنی نااہلی ، غیر مستعدی اور غفلت شعاری کی وجہ سے اس قابل نہیں رہیں گے کہ وہ بڑے دہشت گرد گروہوں تو کیا گلی محلے کے جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا تعاقب کرسکیں، ان کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوں اور کسی بڑی واردات کی روک تھام ان کے لیے ممکن ہو۔
عشروں کی بے عملی اور ناقص کارگزاری کا شاخسانہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ایک ماہ تک تعلیمی ادارے بند رکھنے پر مجبور ہیںاور کسی کو علم نہیں کہ کب انتظامات مکمل ہوں گے اور کب یہ ادارے کھل پائیں گے۔دھند چھا جائے تو ایئرپورٹ پروازوں اور موٹروے سفر کے لیے بند کردیتے ہیں اور ربیع الاوّل میں میلادالنبی ﷺ کے اجتماعات کی حفاظت موبائل فون سروس کی بندش سے کرتے ہیں۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی کارگزاری بہتر بنانے پر کسی کی توجہ ہے نہ یہ حکومت کی ترجیح۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم تیرہ سال سے شریک ہیں ۔پچاس ہزار مردوزن ، بچے، بوڑھے شہید کراچکے ،مگر آج تک سویلین اداروں کی اس حوالے سے تربیت ہوئی ہے‘ نہ انہیں قرار واقعی وسائل اور جدید ہتھیار وآلات فراہم کئے گئے۔ حتیٰ کہ ضرب عضب آپریشن شروع ہونے کے بعد بھی کسی نے انہیں چوکس نہیں کیا۔
نتیجہ سامنے ہے کہ دہشت گرد جب اور جہاں چاہتے ہیں واردات کرگزرتے ہیں اور ہمارے ادارے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی دیرینہ عادت کے مطابق خالی خولی بیانات پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہر بار یہ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے قبل از وقت اس طرح کی واردات کا خدشہ ظاہر کیا تھا مگر آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حکومت اور متعلقہ اداروں نے یہ اطلاع ملنے کے بعد روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے اور یہ نتیجہ خیز کیوں ثابت نہ ہوسکے۔
کل جماعتی کانفرنسوں اور اعلیٰ حکومتی و قومی عہدیداروں کے مابین طویل ملاقاتوں کے بعد ایک ایکشن پلان منظورہوچکا ہے اور اس پر عملدرآمد کے لیے چودہ پندرہ کمیٹیاں بن چکی ہیں مگر ابھی تک پورے ملک میں پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی نظر آتی ہے نہ عملی اقدام۔ 1965ء کی جنگ کے دوران مغربی پاکستان میں تاجروں اور ذخیرہ اندوزوں نے اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بڑھانے کی کوشش کی تو گورنر امیر محمد خان نے مونچھوں کو تائو دے کر سب کی دھوتیاں گیلی کردیں۔ مارکیٹ سے کوئی جنس غائب ہوئی نہ مہنگی بکی۔ کہا جاتا ہے کہ ان سترہ دنوں کے دوران ملک میں چوری، راہزنی، ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں حیران کن حد تک کم ہوگئیں۔ مشرقی پاکستان میں بھارت نے سمگلروں کے ذریعے پاکستانی معیشت تباہ کرنے کی کوشش کی تو میجر جنرل امرائو خان نے چند ہفتوں میں یہ دھندہ ختم کردیا اور بھارت کے عزائم خاک میں ملادیے۔ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ ریاستی اداروں کی اپنی کارگزاری شرمناک حد تک ناقص ہے۔ نجی اداروں کی لوٹ مار عروج پر ہے۔ تاجروں ، ذخیرہ اندوزوں ، گراں فروشوں کی چاندی ہو گئی ہے‘ عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں۔
ڈینیل مارکی کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا آسان ہے لیکن No Exit From Pakistanکیونکہ یہاں کی حکمران اشرافیہ اپنی بے عملی اور ناقص کارگزاری کی وجہ سے نسلی ، لسانی، فرقہ وارانہ تنازعات اور دہشت گردی پر جلد قابو پا سکتی ہے نہ یہ کسی تبدیلی کو آسانی سے قبول کرنے اور بدلتے حالات کے مطابق پالیسیاں تشکیل دینے کی عادی ہے۔ فوج ایک مضبوط ادارہ ہے۔ واشنگٹن کو قائدین کے ہجوم کے بجائے ایک طاقتور، مضبوط اور باعمل فرد سے معاملہ کرنا پڑے گا تاکہ خطے میں اس کے مفادات محفوظ اور پاک امریکہ تعلقات ٹھوس بنیادوں پر برقرار رہ سکیں۔ ہماری سیاسی قیادت کو مگر ساز باز، دھینگا مشتی، الزام تراشی اور اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ سے فرصت نہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ فوج کو دیوار سے لگانے کے لیے اکٹھے ہوسکتے ہیں جس طرح ان دنوں میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری ایک بار پھر Samepageپر ہیں اور '' رل مِل روٹی کھائیے‘‘ کی پالیسی پر کاربند۔ سرونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ میں نے بیشتر کامیابیاں دسترخوان (ڈائننگ ٹیبل) پر حاصل کی ہیں۔ میاں صاحب کو چرچل کس موقع پر یاد آیا۔