رئوف کلاسرا کو سلام، ہم اُن کے بے حد مشکور ہیں۔ شاید وہ واحد کالم نگار ہیں جو ان لوگوں، جو انسانیت کے لیے باعث ِ آزار ہیں ، کا دوٹوک نام لینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جب بھی میں اُنہیں ان صفحات میں پڑھتی ہوں، تو مجھے وہ معلومات پڑھنے کو ملتی ہیں جن کے افشا کا کم از کم مجھ میں ، اور بے شک بہت سے دوسرے کالم نگاروں میں حوصلہ نہیں ۔ درحقیقت حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ کروطن اور اہل ِوطن کا نقصان کرنے والوں کو اس طرح کھلے الفاظ میں چیلنج کرنا آسان کام نہیں۔
اپنے ایک حالیہ کالم میں رئوف کلاسرا تین مئی 2012ء کو ایک انگریزی اخبار میں چھپنے والی ایک کہانی کا ذکر کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ اُن چاروں صحافیوں کا ذکر کرنے سے گریز کرتے ہیںجن کے نام امریکی سیل کمانڈوزکو بن لادن کے ایبٹ آباد والے احاطے پر کارروائی کے دوران ملنے والی دستاویزات میں دکھائی دیئے؛ تاہم اُنھوں نے اُس ویب سائٹ کا حوالہ ضروردیا ہے جس پر وہ نام دیکھے جاسکتے ہیں۔ جن قارئین نے رئوف کلاسرا کا وہ کالم مس کردیا ہو، وہ انٹر نیٹ پر تین مئی 2012ء کا اخبار نکال کر انور اقبال کی رپورٹ پڑھ سکتے ہیں۔ میں یہاں اس رپورٹ کا تھوڑا سا حوالہ دے رہی ہوں ۔ یہ حوالہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا اکتیس ماہ پہلے تھاکیونکہ آج بھی طالبان کے بہت سے ہمدرد میڈیا میں موجود ہیں۔ انور اقبال لکھتے ہیں۔۔۔'' ایک ڈاکو منٹ میں دنیا بھر کے تیس سے پچاس صحافیوں کی فہرست موجود ہے۔ اس میں القاعدہ کے ایجنٹوں کے لیے ہدایات موجود ہیں کہ وہ ان صحافیوں کو پروپیگنڈہ کا مواد بھجوائیں۔۔۔ اس
فہرست میں چار پاکستانی صحافیوں کے نام بھی موجود ہیں۔ رپورٹ میں لکھا ہے 'یہ بہت اچھا ہوگا کہ اگر ہم ان لکھاریوں اور صحافیوں کو یہ میٹریل بھجوائیں۔ ہم ان میں سے ہر ایک کو بتائیں گے کہ وہ ان عالمی صحافیوں کے گروہ میں شامل ہے جنہیں ہم نے چن لیا ہے۔یہ صحافی نائن الیون کے واقعے کو دس سال مکمل ہونے پر ایک خصوصی پیغام وصول کریں گے۔ ہر صحافی کوایک مخصوص پاس ورڈ اور ویب سائٹ کا پتہ بتا دیا جائے گا جہاں سے وہ نائن الیون کو دس سال مکمل ہونے سے پانچ دن پہلے وہ مواد ڈائون لوڈ کرلے گا۔ ‘‘
کیا خیال ہے ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ پاکستانی میڈیا کاگہرا جائزہ لیتے ہوئے گندم کو بھوسے سے الگ کرنے کا عمل شروع کردیا جائے۔ اس کام کا آغاز میڈیا ہائوسز سے کیا جائے۔ ان طاقتور ہائوسز کو ایک سادہ سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے جو بھی حقوق اور اختیارات ہوں ، وہ اپنے قارئین اورناظرین کے سامنے ایک نکتے پر جواب دہ ہیں۔۔۔۔ پاکستان کا بچائو اور تحفظ۔ باقی تمام باتیں اس یک نکاتی دائر ے سے باہر ہیں۔کسی کو اس کے اندر نقب لگانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس وقت بہت سی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی پاکستان میں دہشت گردوں کو دی جانے والی سزائے موت پر احتجاج کر
رہی ہیں، ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ انسانیت کے ان مجرموں، جو پاکستان کو ہر صورت میں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، سے جیلیں بھرنے کی کیا ضرورت ہے؟اور پھر ان کے ماسٹر مائنڈ جیلیں توڑ کر اُنہیں چھڑا لیتے ہیں۔ جیل سے جانے کے بعد وہ پھر بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگتے ہیں، تو پھر اُنہیں پھانسی کے سوا کیسے جہنم رسید کیا جائے ؟
اس وقت میڈیا کے لیے انتہا ئی ضروری ہے کہ وہ کھیل کھیلنا بند کردے۔۔۔ بہت ہوگئی۔ وہ کم از کم دہشت گردی کی موجودہ جنگ کے حوالے سے سنسنی پھیلانے سے گریز کرتے ہوئے اپنے تدبر کا احساس دلائے ۔ میں اُس آرمی افسر، جس کی بیوی پشاور سکول پر حملے میں شہید ہوگئی، کے پیغام کے کچھ الفاظ نقل کرنا چاہتی ہوں ۔ بریگیڈیئر طارق سعید لکھتے ہیں۔۔۔''میری بیوی، صائمہ طارق بھی اس سکول میں ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہوئی۔ اُس نے پانچ نومبر کو اس سکول کو جوائن کیا تھا۔اُس کے پاس تدریس کا وسیع تجربہ تھا اور اس نے APSACS میں سولہ سال تک پڑھایا تھا۔ جب میں پشاور آیا تو میں درحقیقت اس کی تدریسی کی سرگرمیوں کے خلاف تھا کیونکہ میں چاہتا تھا وہ اپنا وقت اعلیٰ تعلیم کے حصول میں صرف کرے، تاہم اس نے اصرار کرتے ہوئے آرمی پبلک سکول، پشاور کو جوائن کرلیا کیونکہ اُسے تدریس سے روحانی انسیت تھی۔اپنی نرم خوئی کی وجہ سے وہ اپنے شاگردوں میں بہت مقبول تھی۔ ان کے شاگرد اور ساتھی ٹیچر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر بہت سی کہانیاں دیکھی ہیں ۔ ان میں سے کچھ حقائق پر مبنی ہیں جبکہ کچھ افواہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میری بیوی نے بہت بہادری سے شہادت کو گلے لگایا ۔ وہ بچوں کو بچانے کے لیے قاتلوں کے سامنے آگئی اور یہ ایک انتہا ئی تکلیف دہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوںنے اسے زندہ جلادیا تھا۔ اب اس واقعہ کو دہرانا بھی سوہانِ روح ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ سکیورٹی فورسز کے تاخیر سے پہنچنے پر تنقید کررہے ہیں۔ میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ پشاور میں سینکڑوں سکول ہیں، صرف کینٹ کے علاقے میں ہی چوراسی سکول ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ سکیورٹی ایجنسیاں ہر سکول کو مکمل تحفظ فراہم کرپائیں۔ میں خود اس واقعے میں متاثرہ فریق ہوں لیکن میں اپنی سکیورٹی فورسز ، خاص طور پر فوج ،کو سلام کرتا ہوں۔ تنقید کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ اُس وقت سکول میں گیارہ سو کے قریب بچے تھے، جن میں سے ساڑھے نوسو کو بچالیا گیا۔ اگر ایس ایس جی کمانڈوز دلیری کا مظاہرہ نہ کرتے تو نقصان کہیں زیادہ ہوتا۔ درحقیقت ان کمانڈوز نے فقید المثال بہادری اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا تھا۔ میں ان سب کا مشکور ہوں کیونکہ ان کی وجہ سے نوسو پچاس گھروں کے پھول سے بچے زندہ واپس آنے میں کامیاب ہوئے۔ اس لیے ہمیں اداروں پر تنقید سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر اس حملے کا مقصد ہمیں خائف کرنا تھا تو مجھے کہنے دیجیے کہ تحریک ِطالبان پاکستان سے غلطی ہوگئی ہے۔ وہ ہماری سکت اور حوصلے کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ میرے سینے میں انسانی دل ہے اور میں غمزدہ ہوں لیکن یہ غم مجھے کمزوری نہیں بلکہ لڑنے کے لیے میرے حوصلہ کو کئی گنا مہمیز دیتا ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری بیوی نے جرأت کا مظاہرہ کیا۔ یقیناہم اُس کی کمی شدت سے محسوس کریںگے لیکن اُس کی قربانی نے قوم کو لڑنے کے لیے ایک صفحے پر متحد کردیا ہے۔ یقینا قومیں قربانیوں سے تقویت پاکر آگے بڑھتی ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنے شہدا کو یاد رکھیں گے اور دہشت گردوںکو اُن کے منطقی انجام تک پہنچا ئیں گے۔‘‘
اس وقت جب قوم ، اس کے ادارے اور سیاست دان لڑائی کے لیے تیار ہیں، میڈیا کو بھی اس میں حصہ ڈالنا ہے۔ درحقیقت یہ اس پر قرض بھی ہے کیونکہ قوم میں ایک گہرا تاثر جارہا ہے کہ انتہا پسندی کے نظریات کی ترویج میں میڈیا کے کچھ دھڑوں کا ہاتھ ہے۔ جس قوم کے سامنے ایک خونی دشمن ہو اور اس کا ہاتھ بندوق کی لبلبی پر ہو، وہ افواہوں پرکان نہیں دھرتی۔میڈیا کو اس بات کی اب سمجھ آجانی چاہیے تو دوسری طرف ارباب ِسیاست کو بھی مزید کنفیوژن پھیلانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ یہ یکسوئی کا وقت ہے۔