تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     02-01-2015

ہم سب نیگیٹو ہو چکے ہیں؟

سال کی آخری رات عامر متین کے ڈیرے پر ہی جمی ۔
سوچتا ہوں عامر متین بھی اگر امریکہ میں تین سال رپورٹنگ کرنے کے بعد پاکستان نہ لوٹتا اور وہیں بس جاتا تو میرے جیسے بہت سارے ''کالیائوں‘‘ کا کیا بنتا... عامر متین کا گھر اسلام آباد میں ہم جیسوں کا ایسا ٹھکانہ بن چکا ہے جس کا کوئی متبادل پچھلے بارہ برس سے اسلام آباد میں نہیں ڈھونڈ سکا ۔ ہم سب کی بیگمات عامر متین سے جلتی ہیں ۔ ہمارا اپنے گھر سے زیادہ وقت ان کے پاس گزرتا ہے۔ دوستوں کی اپنی جیب سے عامر متین مسلسل تقریباً ہر روز مہمان نوازی کرتا ہے اور شاید کوئی ایسا دن ہو جس دن ان کے گھر پارٹی اور محفل نہ جمتی ہو اور عامر متین کے چہرے پر خوشی نہ ہو۔ 
آج کل سردی اور میٹھی دھوپ نے کچھ ایسا سماں باندھ دیا ہے کہ کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔ سارا دن لیٹ کر فلم دیکھ لیں یا پھر ناول پڑھ لیں۔ سردیوں کا موسم کتاب پڑھنے کا موسم ہے۔ کتاب سے یاد آیا میں امریکہ سے آتے ہوئے ایک بہت نایاب کتاب دوست اکبر چوہدری کے پاس چھوڑ آیا تھا ۔ یہ کتاب بالٹی مور کی ایک دکان The Escape book سے خریدی تھی۔ اس کا نام Treasure of Philosophy تھا۔ یہ بھی ایک کمال خزانہ ہے۔ جب پاکستان واپس لوٹنے لگا تو سب سامان کے علاوہ اس کتاب کو ہینڈ کیری میں ڈال دیا کہ یہ کسی صورت مس نہیں ہونی چاہیے ورنہ پھر نہیں ملے گی۔ امریکہ میں بھی شاید آئوٹ آف پرنٹ ہوچکی ہو۔ ایئرپورٹ پر سامان کچھ زیادہ ہوگیا تو پتہ نہیں سر میں کیا سمائی کہ وہ کتاب اکبر چوہدری کو دے دی کہ آپ گھر پر رکھ لیں پھر لے لوں گا ۔ 
کتاب تو میں نے دے دی، پھر جو ٹینشن میں نے تین ماہ بھگتی ہے‘ اس کا مجھے ہی اندازہ ہے۔ اپنے آپ کو لعن طعن کرتا رہا کچھ بھی ہوجاتا کتاب ساتھ لانی چاہیے تھی ۔ کسی گورے کا قول پڑھا تھا... کتاب اور گرل فرینڈ کسی کے پاس نہیں چھوڑنی چاہیے۔ پاکستان لوٹ کر اکبر چوہدری کو فون کیا‘ کچھ ہوجائے اس کتاب کو محفوظ رکھیے گا ۔ بولے بھائی آپ کا بچا کچھا سامان ایک جگہ پڑا ہے لیکن پتہ نہیں جس کتاب کا آپ کہہ رہے ہیں وہ اس میں ہے یا نہیں۔ 
مجھے ایک اور پریشانی ہوگئی۔ اکبر چوہدری کی بیٹی ماہم چوہدری کی شادی ہورہی تھی۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا اور مجھے ایک ہی دھڑکا لگا رہا کسی مہمان نے وہ کتاب دیکھ لی تو وہ اٹھا کر لے جائے گا ۔ کتاب تو شاید کوئی نہ پڑھے لیکن مفت کا مال دیکھ کر اٹھا ضرور لے گا ۔ اکبر چوہدری بھی مروت کے بادشاہ ہیں ۔ ان کی ڈکشنری میں ناں کا لفظ تو ہے ہی نہیں۔ان سے کچھ مانگ لو، وہ کہیں گے ہاں بھائی لے لو ناں۔ وہ مجھے ڈیلس ایئرپورٹ چھوڑنے آرہے تھے تو میں نے کہا چوہدری صاحب‘ بڑی مشکل سے سامان گاڑی میں رکھا ہے۔ اب نئے سرے سے ایئرپورٹ پر اتار کر اندر لے جانا ہوگا۔ کیا آپ اس طرح اپنی اسی گاڑی میں مجھے اسلام آباد نہیں چھوڑ آتے؟ آرام سے بیٹھے ہیں ۔ اب کون اترے اور جہاز پر چڑھنے کے لیے قطاروں میں لگے۔ تلاشیاں دے... اکبر چوہدری بے ساختہ بولے۔ ہاں رئوف بھائی چلو ناں۔ اس میں کیا ہے۔ چلتے ہیں ۔ 
مجھے علم تھا میری کتاب کے ساتھ یہی کچھ ہونا تھا ۔۔۔ کسی نے مانگنی تھی اور اکبر چوہدری نے فوراً کہنا تھا۔ ہاں بھائی لے لو ناں! 
چھبیس دسمبر کو عامرمتین کے فون سے کال آئی ۔ اٹھایا تو آگے سے اکبر چوہدری کی آواز تھی۔ میں حیران اور خوش ہوا چوہدری صاحب چپکے سے پاکستان پہنچ گئے تھے۔
تین دن سے مسلسل ملاقات ہورہی تھی لیکن میں خوف کے مارے ان سے پوچھ نہیں پارہا تھا کتاب لائے یا نہیں۔ جب تیسرے دن بھی وہ خاموش رہے تو میں سمجھ گیا کہ اب تمام امیدیں ختم۔ 
تاہم جونہی نیا سال شروع ہوا تو اکبر چوہدری نے کہا اپنی کتابیں لیتے جایئے گا ۔ عامر متین کے گھر بڑی مشکل سے بچاکر رکھی ہیں ۔ سب حملہ آور ہوتے ہیں۔ میں نے ڈرتے دل کے ساتھ کتابوں کا بنڈل کھول تو جان میں جان آئی... وہ کتاب موجود تھی۔ 
اکبر چوہدری ہنس کر بولے، بھولے بادشاہو مجھے علم تھا آپ نے جو کتاب ایئرپورٹ پر دی تھی کہ سارا سامان گم ہوجائے یہ کتاب گم نہ ہو، میں نے اسے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ 
میں نے اکبر چوہدری کو زور سے گلے لگایا ۔ 
عامر متین کے گھر محفل عروج پر تھی اور کچھ ایسی عروج پر تھی کہ کسی کو پتہ نہ چلا اور رات کے بارہ بج گئے۔ محفل کی جان چوہدری انور عزیز تھے۔ سابق وزیر جوگیزئی، رانا جواد، محمد مالک، حامد میر، فرمان، اداکار توقیر اور سب سے بڑھ کر ہماعلی۔ جب 1993ء میں پہلی دفعہ ہما علی کی خبریں فرنٹیئر پوسٹ میں پڑھیں تو میں انہیں لڑکی سمجھتا تھا ۔ وہ تو میرے بھائیوں کے کلاس فیلو لیہ کالج کے پروفیسر لالہ میرو نے وہ راز کھولا کہ ہما علی تو یونیورسٹی کے دنوں سے ان کا دوست ہے اور آج کل فرنٹیئر پوسٹ کا چیف رپورٹر ہے ۔
لالہ میرو کا ایک سفارشی رقعہ لے کر لیہ سے ملنے لاہور گیا تو آگے سے فرنٹیئر پوسٹ کے دفتر میں ہما کی بجائے ایک ہمالیہ پہاڑ کو دیکھ کر اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا ۔( جی ہاں میں فرنٹیئر پوسٹ لاہور میں رپورٹر کے لیے ہما علی کے نام سفارشی رقعہ لے کر گیا تھا اور نوکری پھر بھی نہ ملی تھی)۔ 
ہما علی کسی دور میں لاہور کی صحافت کا بڑا نام تھا ۔ لاہور پریس کلب کے الیکشن جیتے اور جب میں ان کے ہر سال جیتنے کی خبر پڑھتا تو سمجھ نہ آتی کہ لوگ کیسے الیکشن جیت جاتے ہیں ۔ جب برسوں قبل ہما علی سے عامر متین کے گھر ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا وہ کیوں جیت جاتے تھے۔ لوگوں کے دلوں میں گھر بنانا کوئی ان سے سیکھے۔ بات بات پر قہقہے لگانا ہما علی کی شخصیت کا حصہ ہے۔ ہما علی کا دل بھی ان کے قد کاٹھ اور جسم کی طرح بڑا ہے۔ برسوں گزر گئے جب بھی ملتے ہیں تو ایک ہی گلہ کرتا ہوں۔ آپ کے دوست لالہ میرو کا سفارشی رقعہ لایا تھا۔ لیکن آپ نے فرنٹیئر پوسٹ میں مجھے چیف رپورٹر ہوتے ہوئے رپورٹر کی نوکری نہیں دی تھی ۔ اس لیے کہ میں پسں ماندہ علاقے سے آیا تھا ؟ آپ بڑے صحافی بن گئے تھے اور آپ کو اپنے لیہ کے دوست لالہ میرو کا بھی لحاظ نہ رہا تھا؟ 
صاف ظاہر ہے ہما علی کو کہاں یاد رہنا تھا کہ 1994ء میں ان سے کون اور کیوں ملا تھا... ہماعلی بھی اکبر چوہدری کی طرح مروت کا بادشاہ ہے۔ پیار سے گلے لگا کر ہر دفعہ معذرت کرتا ہے۔ بڑی دیر تک پوری سنجیدگی سے وضاحتیں پیش کرتا رہتا ہے۔۔ہر دفعہ وہ وعدہ لیتا ہے بس اب میں نے واضح کر دیا ہے اگلی دفعہ یہ گلہ نہیں ہونا چاہیے اور میں اگلی دفعہ پھر وہی پرانی رام لیلا دہرا کر مظلومیت کی وہ پرانی داستان سنانا شروع کردیتا ہوں اور بے چارہ ہماعلی پھر وہیں سے وضاحتیں شروع کرتا ہے جہاں سے پچھلی دفعہ ختم ہوئی تھیں ۔ 
تاہم اس محفل میں چوہدری انور عزیز خلاف معمول خاموش تھے۔ 
عمران خان کی شادی کی افواہیں بھی اس محفل میں چھائی ہوئی تھیں ۔ ایک ٹی وی چینل نے جس طرح خاتون اینکر کی تصویریں مختلف زاویوں سے تین منٹ تک اپنی سکرین پر چلائی تھیں اس سے سب دکھی تھے۔ ہم سب اس حد تک چلے گئے ہیں اب ہمیں اپنی اقدار بھول گئی ہیں۔ کیا میڈیا اب ان خبروں کو بھی چسکے لے کر چلائے گا جن کی تردید خود عمران خان، ان کی بہن علیمہ خان اور سب سے بڑھ کر وہ خاتون اینکر کر چکی تھیں؟ 
چوہدری صاحب اب بھی خاموش تھے۔ 
آخر جب نیا سال شروع ہوچکا تو عامر متین سب کو اٹھا کر ڈرائنگ روم میں لے گئے اور چوہدری صاحب سے کہا گیا کہ وہ نئے سال کے شروع ہونے پر کچھ کہیں۔ 
چوہدری صاحب تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر اپنی خوبصورت انگریزی میں بولے کہ ان کے خیال میں ہم سب بہت نیگیٹو ہو چکے ہیں۔ کوئی چینل بھی دیکھ لیں۔ کسی بھی اینکر کو سن لیں۔ پورا معاشرہ نیگیٹو ہورہا ہے۔سب نیگیٹو۔ نیگیٹو سوالات اور نیگیٹو جوابات... بولے میں چوراسی برس کو ہو چکا ہوں۔ پتہ نہیں انہیں کیوں لگتا ہے پاکستان بہتر ہوجائے گا ۔ نئی نسل ہم سے بہتر ہے۔ وہ جس طرح چیزوں کو ہاتھ میں لے رہے ہیں اس سے سب کچھ بہتر ہوگا۔ 
سب نے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا۔ 
کہنے لگے ان کے خیال میں زیادہ سے زیادہ پانچ سالوں میں نئی نسل معاملات سنبھال لے گی۔ پاکستان بہتر ہوگا ۔ کم ازکم اس سے بہتر ہوگا جو اس وقت ہے۔تم سب اینکرز اور میڈیا اس وقت نیگیٹو ہو چکے ہو۔ 
ہم سب اینکرز اور صحافی چوہدری انور عزیز کے سامنے خاموش کھڑے تھے۔ایک ایسا انور عزیز جنہیں چوراسی برس کی عمر میں بھی ایک بند سرنگ کے آخر پر کہیں روشنی نظر آرہی تھی۔
چوہدری انور عزیز کو سنتے ہوئے شاید سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا! کیا ہم سب واقعی نیگیٹو ہو چکے ہیں یا پھر اس ملک میں جس طرح پچاس ہزار بے گناہوں کا لہو بہایا گیا، سیاسی حکمرانوں اور سول ملٹری بیوروکریسی نے بربادی اور لوٹ مار کی داستانیں رقم کی ہیں، اس کے بعد رپورٹ کرنے کو کچھ مثبت رہا ہی نہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved