سیاستدان اپنی دانست میں جو بات کرتے ہیں انتہائی ذہانت سے کرتے ہیں مگر قدرت کا نظام ایسا ہے کہ انسان کتنا بھی محتاط رہے اس کے دل کی بات چھپی نہیں رہتی۔
کچھ عرصہ پہلے جب سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ایک دوسرے سابق صدر کو دھوکے سے دودھ پی جانے والے بلے سے تشبیہ دی تو اس کو مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے بھی دل ہی دل میں بہت سراہا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ حکمران جماعت کے کرتا دھرتا بھی یہی سمجھتے تھے کہ جس انداز میں ان سابق صدر صاحب نے میاں نوازشریف سے حکومت چھینی اور برسوں اقتدار کے مزے لیتے رہے تو ان پر یہی مثال صادق آتی ہے ۔
پاکستان کی ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ایسی سوچ کا اظہار کرتے وقت یہ خیال نہیں رہتا کہ آخر دودھ پر حق کس کا ہے۔ ان کی طرف سے تو دکھ کا اظہار محض اس بات پر ہوتا ہے کہ دودھ ہم نے پینا تھا مگر پی گیا بلا۔
پاکستان کے عوام سیاستدانوں کی اس سوچ پر حیرت میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ پاکستان سے فائدہ اٹھانے کا‘ جس کو دودھ پینا کہا گیا ہے‘ پہلا اور آخری حق ان لوگوں کا ہے جو اس ملک میں رہتے ہیں‘ اس ملک میں دن رات کام کرتے ہیں‘ کھیتوں میں ہل چلاتے ہیں‘ کارخانوں میں مصنوعات بناتے ہیں‘ دفتروں میں کام کرتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ سیاسی جماعتیں اور دودھ پینے والے تو ان کے خادم ہیں لہٰذا سیاسی جماعتیں ہوں یا دودھ پینے والے ،ان دونوں کا پاکستان سے حاصل ہونے والے مفادات پر کلی حق جتانا بالکل ناجائز بات ہے۔ اگر ہمارے سیاستدانوں کو یہ احساس نہیں ہو گا کہ دودھ کے اصلی حقدار کون ہیں اور خود اپنے آپ کو ہی اس دودھ کے وارث سمجھتے رہیں گے تو پھر بِلّوں کو بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔
دنیا بھر میں آپ کسی بھی ایسے ترقی یافتہ ملک کی مثال لے لیں جو گر کر سنبھلا ہو‘ آپ کو دکھائی دے گا کہ بدترین حالات میں بھی وہاں سیاستدانوں نے کبھی اس رجحان کا مظاہرہ نہیں کیا کہ ملکی مفادات پر کلی حق ان کا ہے بلکہ آپ کو دکھائی دے گا کہ ان کے لیڈروں نے تو اپنے ذاتی مفادات بھی اپنے ملک پر قربان کیے رکھے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ملکوں کی معیشت پر ایک نظر ڈال لیں۔ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ پاکستان تک نے اس کی تھوڑی بہت امداد کی تھی۔ اتنی بُری حالت میں اگر وہاں سیاستدان دودھ پر اپنا حق جتانے لگ جاتے تو آج ان کی داستاں تک بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ان ملکوں کی قیادت نے بے مثال کردار ادا کر کے دوبارہ سب کچھ سنبھال لیا۔ امریکہ بہادر نے مارشل پلان کے تحت مدد ضرور کی مگر اصلی کامیابی ان ملکوں کے قائدین کے بے مثال کام کی وجہ سے ہوئی۔
پاکستان میں ہم لوگ یہ بات آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ کسی پلان کے تحت کوئی بھی امداد ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں کر سکتی۔ اگر ایسا ہو سکتا تو کم از کم ہم اب تک ایک ترقی یافتہ ملک بن چکے ہوتے۔ جتنی غیر ملکی امداد ہم لے چکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی جتنا قرض ہم لے چکے ہیں اس سے کون واقف نہیں۔
تو بات ہو رہی تھی ملکی قائدین کے بے مثال کام کی۔ آج ہمارے ملک کو اس کی بہت ہی ضرورت ہے۔ ضرورت تو عرصہ دراز سے ہے لیکن آج جو حالات ہیں ان میں دکھائی یہی دیتا ہے کہ ہم Now or Never والے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور کو ہم نے بہت بڑا کر لیا ہے۔ ایک پنجابی محاورہ ہے جس کا ترجمہ ہے '' پھوڑا اور گھوڑا سہلانے سے بڑھتا ہے‘‘۔ ہم عرصہ دراز سے دہشتگردی کے ناسور کو سہلا رہے ہیں اور ہماری اپنی کوششوں ہی سے یہ ناسور اب ہماری جان لینے پر تلا ہوا ہے۔ اس کو کاٹے بغیر اب گزارا نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر کوئی یہ بات سمجھتا ہے۔ سمجھتے ہمارے لیڈر بھی ہیں مگر اس کا کیا کیجیے کہ جب بھی کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کی بات ہوتی ہے تو وہ آئین کی شقوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔
تیزی سے فیصلہ کرنے والی ایسی عدالتوں کے قیام کے ضمن میں ،جن کے سربراہ فوجی افسر ہوں گے ،یہی طرز عمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یعنی مقصد یہ ہے کہ دہشت گردوں کو پکڑ کر پھر سنبھال کے نہ رکھا جائے بلکہ ان کو فوری انجام تک پہنچا دیا جائے تاکہ خودکش حملہ آور بھیجنے والے بھی سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ اگر دھر لیے گئے تو پھر بچیں گے نہیں۔
اس پر ہمارے سابق صدر آصف زرداری نے،جو پہلے ''بلا دودھ پی جاتا ہے‘‘ والا بیان دے چکے ہیں،اب اس خدشے کا اظہار کردیا ہے کہ کہیں یہ مخصوص عدالتیں ان کو اور نوازشریف کو کسی آئندہ دور میں سزا دینے کے لیے تو نہیں بنائی جا رہیں۔ اس بیان کے بعد سیاستدانوں میں ہلچل دکھائی دی کہ واقعتاً کہیں بلا پھر دودھ پینے کی تیاری تو نہیں کر رہا۔ سیاستدانوں کا یہ خوف محض اس وقت ختم ہو سکتا ہے جب دودھ‘ اس کے اصلی حق داروں یعنی پاکستان کے عوام تک پہنچنے لگے۔ فی الحال تو حکومت کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے جو کچھ ریلیف پاکستانی عوام کو ملا ہے، اس کو حکومت کی پالیسی میں تبدیلی باور نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی ''دودھ‘‘ پر قبضہ جمانے کی پالیسیاں اسی طرح جاری ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں نے چار ماہ بدمزگی پیدا کیے رکھی مگر اب پھر پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔
اس وقت حکومتِ وقت کے طرزعمل سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سر نیچا کر کے یہ وقت اس انداز میں گزار دینا چاہتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرتی دکھائی دے کیونکہ سانحہ پشاور کے بعد اور کوئی راستہ رہ نہیں گیا ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ افواج پاکستان کو منہ زبانی Support مہیا کرنے کے بجائے عملی طور پر اس ادارے کے ہاتھ اتنے مضبوط کیے جائیں کہ دہشت گردوں کی چیخیں نکل جائیں۔ سیاستدان اس طرف بڑھتے نظر تو نہیں آ رہے،ہاں البتہ تُلے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف اس قدر حصہ ہی لیں گے ،جس سے ''دودھ‘‘ پر ان کا قبضہ قائم رہے اور مستقبل کے لیے ایسا انتظام ہو جائے کہ ہمیشہ کے لیے ''دودھ‘‘ پر سیاستدانوں کا حق تسلیم کر لیا جائے۔ اب اگر بات اٹک گئی تو پھر کیا ہوگا؟پھر وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔ دہشت گردی کے ناسور کو تو کاٹ پھینکنا ہی ہے بھلے بعد میں طعنے ملیں کہ بلا آتا ہے اور دودھ پی جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے عوام سخت دکھ میں مبتلا ہیں۔ برسوں سے دہشت گردی نے لوگوں کی نفسیات بدل کے رکھ دی ہے۔ اس وقت جو بھی طریقہ اختیار کر کے دہشت گردی کو ختم کیا گیا ،عوام اس کو قبول کریں گے۔ ہماری نام نہاد جمہوری حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کیونکہ سچی بات ہے کہ گزشتہ سات برسوں کی جمہوریت نے پاکستانی عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ وہ دہشت گردی سے بھی تنگ ہیں اور اس طرزِ حکمرانی سے بھی۔