تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     04-01-2015

جس کے تلوئوں کا دھوون ہے آبِ حیات

مرغزار کالونی کے قبرستان میں دیرینہ دوست اور سماجی کارکن ملک نذیر احمد میرے بھائی صاحبزادہ خورشید گیلانی کی مرقد کے قریب لحد میں اُتر گئے۔ ملک نذیر احمد بھلے انسان تھے۔ حد درجہ ملنسار اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار جبکہ خورشید گیلانی منفرد خطابت‘ مرصع طرز تحریر اور اُجلی شخصیت کی بنا پر اپنے حلقے میں ممتاز رہے۔ 
تدفین کے دوران میں جون 2001ء کی اس بارہ ربیع الاوّل کو یاد کرتا رہا جس کی دوپہر میں ہم سب نے خورشید گیلانی کو سپردِ خدا کیا۔ کینسر کے تیسرے آپریشن کی ناکامی کے بعد گنگارام کے سرجیکل وارڈ میں مرض کی شدت‘ روز افزوں نقاہت‘ جگر‘ پھیپھڑوں اور گردوں میں جنم لینے والے عوارض اور معالجوں کی بے بسی سے انجام عیاں تھا اور نتیجہ معلوم۔ مگر زبان پر کلمہ شکر اور آنکھوں میں امید کی چمک ہر عیادت کرنے والے کو حیران کرتی۔ تاب سخن نہ رہی تو مجھے کاغذ پر لکھ کر دیا ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
ایک روز پوچھنے لگے‘ بارہ ربیع الاوّل کس روز ہے۔ مجھے خیال گزرا کہ دوائوں کے زیر اثر ذہن منتشر ہے، دماغ مضطرب اور راہوار خیال مائل بہ آوارگی، شاید میلادالنبی ؐ کے کسی اجتماع میں شرکت کی خواہش ہے اس لیے پوچھ رہے ہیں۔ میں نے دن بتادیا۔ خاموش ہوگئے اور بارہ ربیع الاوّل کی درمیانی شب ڈیڑھ بجے روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی تو بھید کھلا کہ اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہونے کے لیے اس یوم اور ان بابرکت ساعتوں کا انتظار تھا‘ پندرہ سو سال قبل جب رسول اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ باب نبوت بند ہوا، انسانیت اپنے کمال کو پہنچی اور حضوراکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ و کاملہ ہمارے لیے حجت، مثال اور نمونہ ٹھہرا ؎
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
''اقبال ؒ کے حضور ‘‘ میں سید نذیر نیازی نے مقام نبوت کے حوالے سے حضرت علامہ اقبال ؒ کی گفتگو نقل کی ہے فرمایا: ''جہاں تک فرد کی ذات اور معاشرے کی تہذیب و ترقی یا دوسرے الفاظ میں معراج انسانیت کا تعلق ہے یہ مقصد حضور اکرم ﷺ کے اتباع سے ہی حاصل ہوگا؛ البتہ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی نصب العین ہو اس کے لیے یقین کامل شرط ہے۔ یقین نہیں تو عمل بھی نہیں، آرزو، نہ ولولہ، نہ جدوجہد‘‘۔ 
مزید کہا : '' جس علم کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے اس میں یقین ہی یقین ہوگا۔ اس کے برعکس عقل اور فکر کی دنیا ہے کہ اس میں ہم قدم قدم آگے بڑھتے ہیں۔ اس میں اثبات کے ساتھ نفی اور یقین کے ساتھ ظن کا پہلو قائم رہتا ہے۔ فکر میں یقین، علم الیقین، حق الیقین اور عین الیقین کا رنگ صرف وحی الٰہی کی بدولت پیدا ہوگا کہ اس کی رہنمائی میں آگے بڑھے‘‘۔ 
ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور علم الیقین ، حق الیقین ، عین الیقین میں سے یقین کی کس منزل کے قریب ہیں کچھ کہنا دشوارہے اور یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ عمل، آرزو، ولولہ ، جدوجہد کی کرنیں اس یقین سے پھوٹتی ہیں جو اسوۂ رسولﷺ پر عمل کے طفیل انسان میں پیدا ہوتا ہے۔ اپنی موجودہ حالت دیکھ کر حضرت حفیظ تائب یاد آتے ہیں جو بارگاہ رسالتﷺ میں یوں فریاد کناں ہوئے ؎
دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ
ایک شیریں جھلک‘ ایک نوریں ڈلک ‘ تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبیؐ
اے نوید مسیحا‘ تیری قوم کا حال عیسیٰ ؑ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا بنیؐ
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے‘ تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کس کو بھلا ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبیؐ
سچ مرے دور میں‘ ظلم ہے عیب ہے‘ جھوٹ فن عظیم ایک لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے راہ روی‘ ایک آزار ہے آگہی یا نبیؐ
یانبیؐ اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دیے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری‘ بنتی جاتی ہے نوحہ گری یانبیؐ
یہ فریاد اور نوحہ گری بھی احساس زیاں کی آئینہ دار ہے لہٰذا اطمینان بخش اور غنیمت کہ مسلمان ظن اور نفی کے علاوہ عمل کے میدان میں کوتاہ دستی کے باوجود دامن مصطفی ﷺ سے وابستہ ہے اور حب رسول ﷺ اب بھی اس کا سرمایہ حیات اور توشۂ آخرت ہے۔ حب رسول ﷺ کے اس جذبے سے شاعری میں نعت کی پاکیزہ اور دلگداز صنف نے جنم لیا اور ایسی لافانی شاعری وجود میں آئی کہ باید و شاید۔
حضرت حسان بن ثابت ؓ نے جب بارگاہ رسالتؐ میں اپنا ہدیہ عقیدت پیش کیا تو آپ ؐ نے تحسین فرمائی ؎
و احسن منک لم تر قط عینی
و اجمل منک لم تَلِدِ النساء
خقلت مبرا‘ من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
(ترجمہ: تجھ سا حسین آنکھوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ اور تجھ سا جمیل کسی ماں نے پیدا ہی نہیں کیا۔ آپؐ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے۔ گویا آپؐ اس طرح پیدا ہوئے جس طرح آپؐ چاہتے تھے) 
حسان بن ثابت ؓ کی پیروی میں مصلح الدین سعدی ؒ نے لازوال رباعی کہی ؎
بلغ العلیٰ بکمالہ‘ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ‘ صلوا علیہ وآلہٖ
اور اسد اللہ خان غالب نے نعت گوئی میں حضور اکرم ﷺ کی عظمت و رفعت اور اپنے عجزِ بیاں اور کوتاہ فکری کا اعتراف یوں کیا ؎
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
مدحت مصطفی ؐ میں اقبال ؒ نے جو کہا الگ رنگ، الگ ڈھنگ سے کہا ؎
لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ، تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب وجستجو ‘ عشق حضور و اضطراب
آیۂ کائنات کا معنیِ دیریاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ وبو
سرائیکی زبان کے امرا القیس خواجہ غلام فریدؒ نے اپنی میٹھی اور رسیلی سرائیکی زباں میں عجز و نیاز اور ادب کے تمام قرینے بروئے لاکر عرض مدعا کیا ؎
توڑیں دھکڑے دھوڑے کھاندی ہاں
تیڈے نام تے مفت وکاندی ہاں 
تیڈی باندیاں دی میں باندی ہاں
ہِم در دے کُتیاں نال ادب
اختر شیرانی کو موقع ملا تو یوں گویا ہوئے ؎
تم کیا ملے کہ دولت ایماں ملی ہمیں
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایماں تمہیں تو ہو
جبکہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے کہا ؎
چمکی تھی کبھی جو ترے نقش کف پا سے
اب تک وہ زمیں چاند ستاروں کی زمیں ہے
چمکا ہے تری ذات سے انساں کا مقدر
تو خاتم دوراں کا درخشندہ نگیں ہے
احمد ندیم قاسمی کا انداز یکسر مختلف ہے ؎
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرؐا ہے کرم 
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرؐا
اور اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں تو ہیں ہی داعی عشقِ رسولؐ ؎ 
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحاؐ تیرؐا
''نہیں‘‘ سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرؐا
تیرے ٹکڑوں پہ پلے، غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں‘ کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرؐا
جس کے تلوئوں کا دھوون ہے آب حیات
ہے وہ جان مسیحا ہمارا نبیؐ
احسان دانش کی شہرت شاعر مزدور کی ہے مگر بارگاہ رسالت پاک ﷺ میں وہ یوں گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں ؎
جس نے دیکھا پھر نہ دیکھا اور کچھ ان کے سوا
اک نظر میں سینکڑوں حسن نظر پیدا ہوئے
اب نہ اتریں گے صحیفے، اب نہ اتریں گے رسولؐ
لے کے قرآں آخری پیغام بر پیدا ہوئے
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر رسول ﷺ مومن کا وظیفہ حیات اور قلمکار کے لیے آبروئے فکر، سرمایہ حیات ہے۔ لذیذ بود حکایت دراز ترگفتم، مرغزار کے قبرستان میں مدفون خورشید گیلانی نے نعت کے بارے میں کہا تھا '' نعت سے دماغ روشنی، قلم پاکیزگی، افکار تازگی، حالات توانائی ، الفاظ رنگینی اور لہجے رعنائی پاتے ہیں‘‘
'' نعت مضمون کو عزت، عنوان کو شہرت، اسلوب کو قدرت، بیان کو وسعت، اور کلام کو قوت عطا کرتی ہے۔ نعت تخیل کے نازک آبگینے ، عشق کے بے بہا خزینے ، حرف و لفظ کے رواں دواں سفینے اور اظہار و بیان کے خوبصورت قرینے کا نام ہے‘‘۔ 
خورشید گیلانی کی سایہ دار اشجار میں ڈھکی مرقد پر نصب کتبہ فارسی کے اس شعر سے مزّین ہے ؎
بعداز وفات تربتِ ما در زمیں مجو
در سینہ ہائے مردمِ عارف مزار ما
ہم خوش قسمت ہیں کہ ابھی سانس کی ڈوری کٹی نہیں اور عشق رسول ﷺ کے دعوئوں کے ساتھ اسوۂ رسولﷺ کے اتباع کی مہلت میسر ہے۔ یقین البتہ شرط اول ہے، یقین نہیں تو عمل بھی نہیں، آرزو، ولولہ اور جدوجہد بھی نہیں ؎
ناز کر اپنی قسمت پہ نوع بشر
مل گئے مصطفیؐ اور کیا چاہیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved