تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     04-01-2015

اندھا قتل

جنوری 1996ء کی بات ہے‘ میں اپنے شہر گجرانوالہ سے روزانہ لاہور آیا کرتا اوررات گئے واپس چلاجاتا ۔ان دنوں میں روزنامہ پاکستان کے فلم ایڈیشن کا انچارج تھا اور فلم والوں سے میرے قریبی مراسم تھے۔پسنجر ٹرین لگ بھگ گیارہ بجے لاہو ر سے چلی اور میں رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے گجرانوالہ کے ریلوے سٹیشن پر پہنچ گیا۔سات سال تک میرا شیڈول تھاکہ میں ہرروز گجرانوالہ سے لاہور آیاکرتاتھا جس کے باعث گجرانوالہ اور لاہور کے ریلوے سٹیشنز کے عملے کے اہلکاروں سے شناسائی ہوگئی تھی۔ جنوری کی یخ ٹھنڈی رات تھی جب میں گجرانوالہ ریلوے سٹیشن پر اترا تو ایک پولیس اہلکار نے مجھے کہا کہ ''بائوجی! ابھی ابھی وائر لیس چلی ہے کہ کھیالی بائی پاس پر ایک شخص قتل کردیاگیاہے جو بہت مہنگی گاڑی پر سوار تھا‘‘۔کیونکہ پولیس اہلکار کے پاس اس کے سوا کوئی اورمعلومات نہیں تھیں لہٰذا میں پیدل گھر پہنچنے تک یہ بھول گیاتھاکہ اس سیاہ ٹھنڈی رات میں کون راہی راہ میں مارا گیاہے ؟
دن بھر کا تھکا ہارا بستر پر دراز ہوا تو نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے مجھے میرے بڑے بھائی ڈاکٹر طیب سرورمیر کے ٹیلی فون پرجگایاگیا ۔بھائی نے مجھے بتایاکہ اداکار سلطان راہی کو گزشتہ رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب گجرانوالہ کے کھیالی بائی پاس پرقتل کردیاگیاہے۔یہ خبر مجھ پر بجلی بن کرگری۔ مجھے یقین نہیں آرہاتھاکہ فلم انڈسٹری کے میگاسٹار سلطان راہی کو یوں اندھیری رات میں قتل کردیاگیا ہے ۔میں نے اپنے بھائی سے کئی ایک سوال پوچھے‘ یہ سب کیسے ہوا ،سلطان راہی گجرانوالہ کیاکرنے آئے تھے ،انہیں کس نے قتل کیاہے؟میری سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ یہ سب کیسے ہوگیا۔میں سلطان راہی کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ سنیماسکرین پر بیسیوں مسلح بدمعاشوں کے چھکے چھڑا دینے والا سلطان راہی حقیقت میں کس قدر حلیم، نرم اور ملنسار انسان تھا۔ نگارخانوں میں مشہور تھاکہ سلطان راہی سے کوئی زیادتی بھی کردیتا تو یہ بھلامانس انسان درگزر اورمعاف کردیتا۔میرے بھائی نے بتایاکہ سلطان راہی کی لاش ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں پڑی ہے‘ تھوڑی دیر میں ان کا پوسٹ مارٹم کیاجائے گا۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں جب ہسپتال پہنچا تو سلطان راہی کی لاش سٹریچر پر پڑی تھی اور ان کا مینجر حاجی احسن جو ان کا ڈرائیور بھی تھا‘ ان کے قدموں کی جانب بیٹھا تھاجس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔سلطان راہی کے قتل کے سانحہ کو 18سال گزر گئے لیکن مجھے سب یاد ہے۔ حاجی احسن نے مجھے دیکھا تو مجھ سے لپٹ کر رونے لگا۔ اس کے منہ سے صرف یہ جملہ ادا ہوا '' آغاجان نئیں رہے ‘‘سلطان راہی مرحوم کو فلم والے آغاجان بھی کہتے تھے۔ چیختا، چنگھاڑتا، للکارتا، بڑھک کا بادشاہ ،فن کا سلطان سٹریچر پر بے سُدھ پڑاتھا۔سلطان راہی نے اس رات برائون رنگ کا ٹویڈ کا کوٹ اور اسی رنگ کی پینٹ پہنی ہوئی تھی ،ان کی جرابوں کا رنگ برائون تھا اور وہ پیروں میں اسی رنگ کا مکیشن پہنے ہوئے تھے ،ان کا ہیٹ میز پر پڑا تھا۔ سلطان راہی کے سراورٹھوڑی کو باندھ دیاگیاتھاتاکہ منہ بند رہے ۔ان کے ہونٹ کٹے ہوئے تھے جن پر خون جم گیاتھا۔یوں لگ رہاتھاکہ سنگدل قاتل نے ان کے منہ پر موذر رکھ کر فائر کیاتھا جس سے کارتوس منہ کے رستے ان کے دماغ کو چیرتے ہوئے سر کے پچھلی جانب سے باہر نکل گیاتھا۔
سلطان راہی کے قتل کا اکلوتا چشم دید گواہ ان کا معتمد ِخاص حاجی احسن تھا۔ قتل کے اسباب جاننے کیلئے حاجی احسن کا بیان بہت اہم تھا لیکن اس نے ایک نامکمل اور مبہم بیان دیا جس کے بعد چشم دیدگواہ کاکھاتہ بند ہوگیا۔حاجی احسن کا تعلق فنکار گھرانے سے تھا‘ لہٰذااس سے منسوب روایتی بزدلی نے سلطان راہی جیسے میگاسٹار کے قتل کی واردات کو اندھی گلی میں دھکیل دیا ۔ حاجی احسن کے بیان کے مطابق وہ سلطان راہی کے ساتھ اسلام آباد سے لاہور آ رہا تھا کہ گجرانوالہ کھیالی بائی پاس کے قریب ان کی گاڑی پنکچر ہوگئی۔ جس جگہ گاڑی پنکچر ہوئی وہاں بہت اندھیر تھا لیکن ٹائر کے پھٹنے کے باعث ٹائر بدلنا ضروری ہوگیاتھا چنانچہ گاڑی وہیں روک لی گئی۔ حاجی احسن نے بیان دیاکہ وہ گاڑی کا ٹائر بدلنے میں مصروف تھا کہ گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے سلطان راہی بھی باہر آکے کھڑے ہوگئے۔ اسی اثناء میں کھیتوں میں چھپے دو مسلح افراد نے سلطان راہی کو ہاتھ اٹھانے کی وارننگ دی اور پھر بہت قریب سے فائر کر دیا۔ حاجی احسن نے بیان میں مزید کہاکہ موقعہ واردات پر چونکہ بہت اندھیراتھا اور میرادھیان بھی نیچے تھا‘ اس لیے میں قاتلوں کو دیکھ نہ سکا۔یہ وہ نکتہ تھاجس سے سلطان راہی کے قاتلوں کے خلاف گواہی یا شہادت ،عدالت سے پہلے ایف آئی آر میں ہی ختم ہوگئی۔ 
یہ وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی کا تھرڈ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا سیکنڈ رائونڈ جاری تھا۔ ان دنوں پاکستانی سیاست میں رواج تھاکہ چھوٹی موٹی ڈکیتیوں ،پلاٹوں کے قبضوں، جبکہ ہر قسم کی ڈیل میں کمیشن اور سلطان راہی کے قتل کی ''زبانی ایف آئی آر‘‘ ایک ہی شخصیت پر کاٹی جارہی تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک لولے لنگڑے اقتدار کے ساتھ وزیر اعظم تھیں جبکہ انہیں اس اپوزیشن کا سامنا تھا جس کے بارے میں منیر نیازی نے کہاتھاکہ ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا مُنیر مجھ کو 
میں ایک دریاکے پار اُترا تو میں نے دیکھا 
محترمہ کی اپوزیشن کے روح و رواں میاں محمد نوازشریف اور میاں محمدشہباز شریف تھے جنہیں چوہدری برادران کا ساتھ بھی میسر تھا۔ سونے پہ سہاگہ شیخ رشید بھی اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ ہوا کرتے تھے۔یہ سب وہی پرانے کھلاڑی ہیں اور قوم کے ساتھ سیاست کی وہی پرانی دائمی ہاکی کھیلی جارہی ہے،ان کی سیاست تو نہیں بدلی صرف وردیاں بدل کراِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر ہوگئے ہیں۔ بعض سیاستدانوں اور ''ذہین کمپنیوں‘‘ نے سلطان راہی کے قتل سے سیاسی فائدہ بھی اٹھانا چاہا۔ سلطان راہی کی لاش ایک ہفتہ تک Mortuary(ہسپتال کے سرد خانے )پڑی رہی ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطان راہی کے اہل خانہ امریکہ میں مقیم تھے جہاں سے پاکستان پہنچتے ہوئے انہیں وقت لگا ۔ انسان کی موت کے بعد اسے دفن کردیاجائے تودوست احباب سمیت لواحقین کو بھی قدرے صبر آجاتاہے لیکن سلطان راہی کی لاش چونکہ سرد خانے میں پڑی تھی‘ اس لیے اخبارات میں بھی اس کا تذکرہ صفحہ اول پر ہی ہوتا رہا۔ اردو 
اخبارات کے صفحہ اول کے چار کالم سلطان راہی قتل کیس کے لئے مختص ہوگئے تھے۔ کرائم اور کلچرل رپورٹرز نت نئی کہانیاں گھڑ رہے تھے ۔ایک ہفتے کے بعد سلطان راہی مرحوم کو باغ جناح کے قریب واقع چنبہ ہائوس قبرستان میں دفنایاگیا۔میں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا جنازہ نہیںدیکھا۔ان کے جنازے کو گھر سے باہر لایاگیاتو جنازہ عزیز واقارب اور لواحقین کے کندھوں سے مداحین کے کندھوں پر پہنچ گیا۔ان دنوں پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود درجنوں کیمروں نے سلطان راہی کے آخری سفر کو فلمبند کیا۔سلطان راہی اپنے قریبی دوستوں کو کہاکرتے تھے کہ جب وہ دنیاسے رخصت ہوںگے تب بھی کیمرے کے سامنے ہوں گے ۔ ان کا کہا یوں سچ ثابت ہوا کہ کئی کیمروں نے سلطان راہی کو قبر میں اتارنے کا آخری منظر بھی فلم بند کیا۔ سلطان راہی کی فلموں نے ڈائمنڈ، پلاٹینم، گولڈن اور سلورجوبلیاں منائیں۔فلم نگر میں وہ جوبلیوں کے سلطان تھے،انہیں ''فن کا سلطان ‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ وہ پاکستان میں پسے ہوئے محکوم طبقات کی آواز تھے۔وہ جب سینما سکرین پر اشرافیہ کو ''اوئے جاگیر دارا‘‘ کہہ کر للکارتے تھے تو ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے کروڑوں غریب عوام کا کتھارسس ہوجاتاتھا۔وہ اپنے سٹائل کے واحد آرٹسٹ تھے۔ یوں تو بیسیوں اداکاروں نے ان کی نقالی کی لیکن وہ اپنا انداز قبر میں اپنے ساتھ لے گئے۔سلطان راہی المعروف آغا جانی میرے ساتھ بڑی شفقت کرتے تھے ،میرے ناسٹل جیامیں ان کی بہت سی خوشگوار یادیں محفوظ ہیں جو کبھی شیئر ضرور کروں گا ۔جب بھی جنوری آتا ہے میں اداس ہوجاتاہوں ،سلطان راہی کے قتل کو ایک اندھا قتل قرار دے کر فائل بند کردی گئی تھی مگر فن کا سلطان سیلولائیڈ اور چاہنے والوں کے دلوں میں زندۂ جاوید ہے!!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved