تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     06-01-2015

لیڈر

کیسی کیسی دلیلیں تھیں اور کیسے کیسے بہانے۔ حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کا وقت آیا تو ہر دلیل بودی اور ہر بیانہ بے کار، اور تو اور کوئی پیالی میں طوفان بھی نہ اٹھا سکا۔
چند مفروضے ہیں جو ہماری بزدل حکمران اشرافیہ نے اپنی نااہلی ، نالائقی، ناکردہ کاری پر پردہ ڈالنے کے لیے گھڑے۔ بعض دانشوروں نے اپنی افتاد طبع اور کچھ نے خدا وندان یورپ سے مرعوبیت کی بنا پر تنکے کو شہتیر، پر کو پرندہ بتلایا مگر گزشتہ دو ہفتوں کے واقعات نے ہر دلیل کو محض دسیسہ کاری اور ہر بہانے کو خوئے بد را بہانہ بسیار ثابت کیا۔
مثلاً پاکستان میں دہشت گردوں ، قاتلوں ، اغوا کاروں اور نسلی، لسانی ، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر ہتھیار اٹھا کر ریاست کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو سزائے موت نہ دینے کے لیے یہ بہانہ کہ عدالتی اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد کسی سزا یافتہ شخص کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو عالمی برادری ہمارا حقہ پانی بند کردے گی، یورپی یونین نے جی ایس پی پلس کا جو سٹیٹس گزشتہ سال پاکستان کو دیا منسوخ کردیاجائے گا اور ہم دنیا کے سامنے نکوّ بن کر رہ جائیں گے۔
پاکستانی عوام بخوبی جانتے تھے کہ یہ محض بہانہ ہے۔ بنگلہ دیش میں مسلمہ قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرکے حکومت کے مقرر کردہ ٹربیونلز کے ذریعے کئی سیاسی مخالفین کو سزائے موت دی گئی اور دھڑلے سے عملدرآمد بھی ہوا۔ حسینہ واجد حکومت نے عالمی سطح پر اٹھنے والے اعتراضات پر توجہ دی نہ کسی یورپی ملک نے امداد یا سرمایہ کاری روکی۔ پاکستان میں سزائے موت کے مخالفین میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بنگلہ دیشی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکے۔
یہ بھی طرفہ تماشہ ہے کہ بعض سزا یافتگان کے بارے میںپاکستان کی فوجی قیادت نے جب فیصلہ کیا اورانہیں فی الفور کیفرکردار تک پہنچایا گیا تو سب اپنی چوکڑی بھول گئے اور ان سزائوں کو بروقت ، برمحل اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق قرار دینے لگے۔ اس سوال کا جواب بھی کسی نے نہیں دیا کہ ایک فوجی اور دو سول جمہوری حکومتوں نے مصلحتوں اور بزدلی کی چادر کیوں اوڑھے رکھی اور اب اچانک ان پر کیسے منکشف ہوا کہ سخت سزائیں مجرموں کے حوصلے پست کرسکتی ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی آسکتی ہے ۔
قائداعظم نے ایک موقع پر قوم کو تلقین کی تھی کہ '' لیڈروں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کریں ،آدھی جنگ تو صحیح لیڈر کے انتخاب سے جیتی جاتی ہے‘‘۔ اقبال ؒ نے لیڈر کی تعریف یوں کی ہے ؎
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رخت سفر، میر کارواں کے لیے
مگر گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے پلے کیسے لیڈر پڑے ؟ الامان والحفیظ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ تیرہ سال سے لڑی جارہی ہے۔ اس جنگ کا بیانیہ طے ہوسکا نہ لڑنے کا ڈھنگ اور نہ کسی نے قوم میں امنگ پیدا کی۔ امریکہ اور اس کے وظیفہ خواروں نے جو کہا وہ ہمارا بیانیہ قرار پایا، اور ایک بڑی جنگ سلیقے سے لڑنے کی کوئی حکمت عملی 16دسمبر تک طے نہ پاسکی۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر فوجی قیادت یکسو نہ ہوتی، وہ تین کل جماعتی کانفرنسوں میں بیٹھ کر قومی سیاسی قیادت کو ہلّہ شیری نہ دیتی اور Never Now Or کا اصول سامنے نہ رکھتی تو کیا آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ردوبدل کا امکان تھا؟ آپریشن ضرب عضب 15جون کو شروع ہوا۔ اگست اور ستمبر میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس پندرہ دن تک جاری رہا ۔کسی کو بیس نکاتی قومی ایکشن پلان مرتب کرنے کا خیال آیا ، نہ آئین میں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں تبدیلی کی توفیق ہوئی ۔ البتہ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف تقریریں خوب ہوئیں۔انہیں لانگ مارچ اور دھرنوں کا آرکیٹیکٹ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا،مگر دہشت گردی کے سدباب کے لیے کوئی اقدام تجویز کیا نہ حکمت عملی بنائی ۔آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ پارلیمنٹ میں آکر لٹک گیا ہے۔ پیرکا اجلاس اس بہانے ملتوی کیاگیا کہ بھٹو صاحب کا یوم پیدائش ہے۔پھر اجلاس بلانے کا تکلف کیوں کیاگیا؟
دنیا بھرمیں قیادت کا معیار تھوڑے بہت فرق کے تحت طے ہے۔ شہ دماغ، بلند نگاہ ، عالی ظرف ، غنی مزاج، راست باز، امین، جرأت مند اور قوت فیصلہ سے سرشار افراد ہی قوموں کی قیادت کرکے انہیں بام عروج تک پہنچاتے ہیں۔ کوتاہ نظر، تُھڑدلے ، لالچی، بدعنوان، خوشامد پسند ،مصلحت کیش اور بزدل لیڈر اچھی خاصی جاندار قوم کا ستیاناس کردیتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت لیڈر کے بہتر انتخاب نے مسلم قوم کے لیے پاکستان کی صورت میں ایک وسیع وعریض ریاست کا قیام ممکن بنایا۔ جبکہ بعدازاں ہم نے بار بار ٹھوکر کھائی اور اپنا مستقبل تباہ کیا۔ اقتدار پرست، خائن، نعرہ باز اور دھن ، دھونس، دھاندلی کی پیداوار لیڈر اپنا بھلا تو کرسکتا ہے قوم کا نہیں اور یہی ہماری بدقسمتی ہے۔ ایک دلیر اور راست باز لیڈر قوم میں دیانت، امانت، قناعت، کفایت شعاری، فرض شناسی کے اوصاف پیدا کرتا اور جوش ولولہ ابھارتا ہے اور جس طرح پانی ڈھلوان کی طرف رواں ہوتا ہے اس طرح لیڈر کے ذاتی اوصاف قوم کے دل و دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔
فتح مصر کے موقع پر مقامی کمانڈر نے حضرت عمرؓ کو مال غنیمت کے ساتھ ایک رقعہ بھیجا جس میں درج تھا ''میرے سپاہی اس قدر دیانتدار ہیں کہ اگر کسی کو سونے کی اینٹ بھی ملی تو اس نے اپنے پاس رکھنے کے بجائے میرے سپرد کی۔ خط پڑھ کر حضرت عمر ؓ اشکبار ہوگئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ساتھ بیٹھے تھے۔ مضطرب ہوکر پوچھا،محاذ جنگ سے کوئی بُری خبر آئی ہے کیا ؟ عمر ؓ نے فرمایا ،یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ ساری بات سن کر حضرت علی ؓ نے تاریخ ساز جملہ کہا'' یہ سپاہیوں کی دیانت کا مسئلہ نہیں آپ کی دیانت کا کرشمہ ہے، آپ ؓ اگر دیانتدار نہ ہوتے تو سپاہیوں میں یہ وصف کبھی پیدا نہ ہوتا۔
انہی عمر ؓ کے دور میں مصر کے گورنر عیاض بن غنم کے بیٹے نے گھڑ دوڑ میں حصہ لیا اور اپنے غلام کے بیٹے کو آگے نکلنے پر چھڑی رسید کردی۔ بارگاہ فاروقی ؓمیں شکایت پہنچی تو گورنر کو بیٹے سمیت طلب کیا اور گورنر عیاض سے پوچھا، تمہارے والد کا نام کیا تھا۔ عرض کیا غنم ! پوچھا غنم کے معنی جانتے ہو؟ بولے کیوں نہیں غنم بکریوں کے ریوڑ کو کہتے ہیں، میرے باپ نے زندگی بھربکریاں چرائیں۔ آپ ؓ نے فرمایا،یہ لو ڈنڈا اور کھردرا کرتا اور جاکر بیت المال کی بکریاں چرائو،ابھی تم حکومت کرنے کے قابل نہیں۔ اسی موقع پر حضرت عمر ؓ نے وہ تاریخی جملہ کہا جو عمرانیات کے باوا آدم اور دی سوشل کنٹریکٹ (معاہدہ عمرانی) کے مصنف روسو کی کتاب کا ابتدائیہ ہے '' تم نے انسانوں کو کب سے غلام سمجھنا شروع کیا ہے ،جبکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا ہے‘‘۔
حضرت عمر ؓ تو خیر معلم کائنات ہادی اعظم رسول اکرم ﷺ کے فیض یافتہ تھے،پاکستان کے عوام ایسے لیڈروں کا نظارہ کرچکے ہیں جن کی امانت و دیانت اور مستقبل شناسی ضرب المثل تھی اور کردار اس قدر اُجلا کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں مگر پھر ہم لیڈروں کے اس قبیلے کے پلے پڑ گئے جن کا دین کذب وریا اور طرز سیاست مکرو دغا تھا۔
شیخ سعدی ؒ نے صدیوں قبل پتے کی بات کہی تھی '' سب سے پہلا سوراخ ایک سوئی سے بھی بند ہوسکتا ہے مگر جب بڑھ جائے تو چٹانیں بھی اس کے سامنے لاکھڑی کی جائیں تو بند نہیں کرپاتیں‘‘۔ہمارے کوتاہ نظرلیڈروںنے بھی آج تک یہی کیا ہے ۔کسی بھی جرم کی بیخ کنی کا آغاز اس وقت کرتے ہیں جب کینچوا سانپ بن کر مہیب خطرہ نظر آتا ہے۔ سانپ ہم مارتے نہیں ، لکیر پیٹنے کا ہنر خوب جانتے ہیں ۔ دہشت گردی ایک دن میں عفریت بنی نہ اس کے اسباب و عوامل چند برسوں میں پیدا ہوئے۔ اب جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عمل جاری ہے تو اس میں بھی حکمت و دانائی کے بجائے جذباتی اندازِفکر عیاں ہے۔ حتیٰ کہ اس بیانیے کے مقابلے میں کوئی دلنشین، موثر اور قابل قبول بیانیہ بھی ترتیب نہیں پایاجو کنفیوژن کو ختم کرسکے۔
پاکستانی نژاد امریکی سکالر معید یوسف کی رائے ہے کہ اگر موجودہ عسکریت پسندی کا توڑلبرل اور سیکولر بیانیے کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘‘کے مترادف ہوگا۔ اقدامات میں بھی قوم کے مزاج، ریاست کی کمزوریوں اور ریاستی ادارے کی بے عملی و ناقص کارگزاری کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ معاملات سنبھلنے اور سنورنے کی بجائے بگڑ سکتے ہیں۔ فوجی قیادت کب تک سیاسی قائدین کو آمنے سامنے بٹھا کر متفقہ فیصلے کرائے گی اور ہر اقدام کے نتائج و عواقب سے آگاہ کرے گی، کچھ قیادت کے دعویداروں کو خود بھی کرکے دکھانا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved