دھوپ بالآخر نکل آئی ہے، لیکن یہ نہ سمجھا جائے کہ جاڑا ختم ہوگیا ہے کیونکہ ابھی تو یہ سلسلہ فروری تک کھچے گا۔ اس لیے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلم شیخ کا بیٹا ایک دن صبح سویرے اٹھ بیٹھا تو اس کی ماں نے کہا ، ماشاء اللہ آج تو میرا بیٹا صبح صبح ہی اٹھ بیٹھا ہے، تو بیٹے نے کہا کہ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، میں حوائج ضروریہ کے بعد پھر سونے لگا ہوں !
قائداعظم جب ایک بار لندن گئے تو خلاف معمول اس دن دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ جہاز سے اترتے ہی انہیں صحافیوں نے گھیر لیا تو وہ بولے، لندن کے شہریو! میں تمہارے لیے دھوپ لایا ہوں، اسی طرح کسی درویش کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک بار بادشاہ نے جاکر اسے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو وہ بولا، '' براہ کرم دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہوں ‘‘!۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
میں اتنا بدمعاش نہیں، یعنی کھل کے بیٹھ
چبھنے لگی ہے دھوپ‘ سویٹر اتار دے
کشور ناہید کو یہ شعر بہت پسند ہے اور اس کا حوالہ بھی دیتی رہتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کسی شریف آدمی نے کبھی ان سے کبھی کوئی فرمائش کی ہو۔ دھوپ کے بارے میں ایک مطلع ملاحظہ ہو ؎
کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں
آ دیکھ چل کے مجھ کو دسمبر کی دھوپ میں
بہرحال ۔ دھوپ کا فی دنوں کے انتظار کے بعد نکلی ہے کہ دھند نے مت مار رکھی تھی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ برفیلی ہوا بھی۔ کینوئوں اور موسمیوں نے رنگ بھی خوب نکال رکھا ہے اور سائز بھی پورا کرلیا ہے، لیکن مٹھاس ان میں تبھی آئے گی جب ایک آدھ بارش ہولے گی۔ دھوپ بہت واجبی اور کمزور سی ہی ہوتی ہے، ساتھ ہوا تیز ہو تو واک نہیں کی جاسکتی، چنانچہ یہ فریضہ دوپہر کے وقت سرانجام دیتا ہوں جب دھوپ زیادہ ہوتی ہے اور ہوا کم ۔ ورنہ باہر بیٹھ کر تنفس کی ورزش پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ پرندوں کا بھی آنا جانا کم ہوگیا ہے۔ کچھ آفتاب کی سکیٹنگ سے بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ کالم سے آج پھر چھٹی کرنے کا ارادہ ہے۔'' آب رواں ‘‘ کا ایک شعر یاد آرہا ہے ؎
دھوپ ہے، سایہ نہیں آنکھ کے صحرا میں کہیں
دید کا قافلہ آیا تو کہاں ٹھہرے گا
اکثر لوگ '' آب رواں‘‘ کو اب بھی میرے کمالات میں سے ایک سمجھتے ہیں، کشور نے بھی آج اپنے کالم میں یہی کہا ہے۔ بلکہ ہمارے دوست ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے ایک جریدے میں مضمون لکھتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ظفر اقبال کی حالیہ شاعری زوال کا شکار ہے۔ خوشی اس لیے ہوئی کہ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ میری شاعری کو کبھی کمال بھی حاصل تھا۔ پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ لوگ اکثر اوقات میری شاعری کی تعریف کے پل باندھتے ہوئے تان میری تجرباتی شاعری پر توڑتے ہیں اور حتمی نتیجہ اسی سے اخذ کرتے ہیں۔ چنانچہ میری اس طرح کی شاعری کو نہ ماننے والے اس شاعری سے بھی صرف نظر کرجاتے ہیں جو بقول خود ان کے،قابل صد تعریف ہے۔ میں اس پر کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا، تاہم یہ بات پہلے بھی کہیں کہہ چکا ہوں کہ ہر طرح کی شاعری ہر قسم کی قارئین کے لیے نہیں ہوتی۔ دوسرے یہ کہ میں نے شاعری کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں کی اور میری مختلف آوازیں ہیں جو ظاہر ہے کہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، چنانچہ ان لوگوں کے لیے یہ بات مایوسی کا باعث بنتی ہے جو کسی شاعر کے شعری سفر کو ایک طرح کی یکسانیت اور یک رنگی میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ شاعری کا کوئی حصہ مستقبل کے قاری اور نقاد کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں شاعری کو پرکھنے اور پسند کرنے کا ہر قاری کا اپنا اپنا معیار بھی ہوتا ہے۔
بہرحال، کسی شاعری کا اختلافی ہونا بجائے خود ایک مثبت چیز ہے بلکہ میں نے اپنے نثری کلیات '' لاتنقید‘‘ کے شروع میں شیکسپیئر کا یہ قول نقل کررکھا ہے کہ اگر سبھی آپ سے متفق ہیں اور کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا تو آپ ایک بے ایمان آدمی ہیں!
بات دھوپ سے شروع ہوئی تھی، اسی پر ختم بھی کرتے ہیں ؎
گوری، کالی دھوپ ہے
دیکھی بھالی دھوپ ہے
کبھی تو اصلی ہے یہاں
کبھی خیالی دھوپ ہے
پیڑ ہے خاصا بھرا پڑا
نیچے خالی دھوپ ہے
پتہ پتہ ہے روشن
ڈالی ڈالی دھوپ ہے
گھر سے باہر نکلیے
ڈھلنے والی دھوپ ہے
لاڈ پیار ہے اُسی کے ساتھ
اپنی سالی دھوپ ہے
کہیں کڑکتی ہے یہی
کہیں سیالی دھوپ ہے
دھوپ تو لگتی ہی نہیں
کوئی نرالی دھوپ ہے
سائے کے اندر سے، ظفرؔ
آج نکالی دھوپ ہے
آج کا مطلع
پریوں ایسا روپ ہے جس کا لڑکوں ایسا نائو
سارے دھندے چھوڑ چھاڑ کے چلیے اس کے گائوں