تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     07-01-2015

کچھ بھارت کے بارے میں

انگریز مصنفین نے ہندوستان پر درجنوں ناول لکھے لیکن آج بھی سب سے اچھا ناول E.M Foster کے A Passage To India کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان صرف چھ ماہ کے لگ بھگ رہے۔ سرسید احمد خان کے بیٹے سید محمود کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم ہو گیا ؛چنانچہ زیادہ وقت اُس کے ساتھ گزارا۔ فاسٹر کی ذہانت اور تخلیقی اہلیت کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہوگی کہ اُنہوں نے اتنے مختصر عرصہ میں حاکم اور محکوم کے درمیان تعلقات کی باریکیوں کو اتنا اچھی طرح سمجھ لیا کہ ایک شاہکار ناول لکھ کر عالمی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا۔ تین چوتھائی صدی گزر گئی۔ فاسٹر جیسا اچھا ناول (مذکورہ بالا موضوع پر) لکھا نہیں جا سکا۔ اگر آپ فاسٹر کے ناول کے بارے میں مزید پڑھناچاہیں تو شاہکار تصنیف مختار مسعود کی ''آواز دوست‘‘ دیکھیں۔ سکاٹ لینڈ کے رہنے والے ایک ڈاکٹر صاحب (میں اپنے مرحوم والد کے احترام میںہر ڈاکٹر کو صاحب کہتا اور لکھتا ہوں) ملازمت کے سلسلہ میں جنوبی افریقہ کے ایک ملکBotswana گئے۔ وہاں صرف تین سال رہے (ہندوستان میں فاسٹر کے قیام سے چھ گنا زیادہ) مگر افریقی ذہن کی گہرائیوں میںاُتر کر مقامی لوگوں کی اُمیدوں، وہم، خوف، جذبات اور خواب اور خیالات سب کو اپنی گرفت میں لے لیا اور یکے بعد دیگرے بے حد دلچسپ ناول لکھے۔ فاسٹر کا موضوع دو بڑی جنگوں کے درمیان بیسویں صدی کا ہندوستان تھا۔ سکاٹشی ڈاکٹرDr. Mc Call Smithکا ناول Bostwanaمیں دیسی افریقی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ ناول نگاری میں فاسٹر کے ہم پلہ تو نہیں مگر اُن کی تصانیف کی وجہ سے ہر سال میرے لمبی مسافت کے ہوائی سفر بڑے آسان ہو گئے۔ صرف میرے ہی نہیں، اُن کے ان گنت قارئین اور مداحوں کے بھی۔ اُن کی پہلی کتاب No.1 Ladies Detective Agency کے نام سے شائع ہوئی تو دُھوم مچ گئی اور وہ اپنی اشاعت کے پہلے سال ہی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں اوّل آئی۔ اب بھی پہلے کی طرح اُن کے لکھے ہوئے دُوسرے دلچسپ ناول دھڑا دھڑ فروخت ہوتے ہیں اور میری طرح اپنے دُوسرے قارئین کی معمول کی نیند کے آٹھ گھنٹوں کو کم کر دیتے ہیں۔
اب میں آپ کو ایک سچی خبر بتانا چاہتا ہوں کہ سکاٹشی ڈاکٹر نے اپنے ناول کا موضوع ایک فرضی جاسوسی خاتون کو بنایا تھا مگر لندن کے روزنامہ گارڈین کے مطابق دہلی میں غیر سرکاری (یعنی نجی)پرائیویٹ جاسوس ایجنسیوں کی تعداد ساڑھے تین ہزار ہے اور سب کی سب مصروف ہیں۔ یقینا آپ کے ذہن میں سوال اُٹھے گا کہ آخر یہ سب جاسوس کر کیا رہے ہیں؟ جواب سیدھا سادا ہے، جو آپ کو حیران کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ شادی شدہ جوڑوں میں جو فریق بے وفائی کر رہا ہو یا اُس پر اس جرم کے ارتکاب کا شک ہو۔ (اور شک بھی مضبوط) تو وہ اس شک کو دُور کرنے یا اس کی تصدیق کروانے کے لئے پیشہ ور جاسوسوں کا (جن میں اکثریت نوجوان، تعلیم یافتہ، انگریزی بولنے والی، تیز طرار لڑکیوں کی ہے) سہارا لیا جاتا ہے۔ کئی والدین اپنی بیٹی کے رشتہ کی تجویز کو منظور کرنے کے لئے مصدقہ ذرائع سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اِن کا مجوزہ داماد شراب تو نہیں پیتا؟ جواری تو نہیں؟ دُوسری لڑکیوں سے دوستی کر کے اُنہیں شادی کا چکمہ تو نہیں دے رہا؟ یہ کام مذکورہ بالا جیمز بانڈ ٹائپ لڑکیوں سے بہتر کون سرانجام دے سکتا ہے۔ فیس؟ ظاہر ہے کہ اتنا مشکل اور نازک کام چند سو روپوں میں تو نہیں ہو سکتا۔ کم از کم فیس پچاس ہزار روپے لی جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ روپے۔ اگر تفتیش کا دائرہ ملک سے باہر تک پھیلا ہو تو فیس کروڑ روپے تک بھی جا سکتی ہے۔ دُوسرا سوال یہ ہے کہ بھارتی شہروں میں رہنے والے متمول اور متوسط طبقہ کے افراد کی خانگی زندگی میں بحران کیوں آیا ہوا ہے؟ سماجی علوم کے ماہرین کی رائے میں بھارت کے بڑے شہروں میں متوسط طبقہ اور امیر طبقہ میں انسانی تعلقات حد درجہ منافقانہ ہو گئے ہیں۔ چار سُو بے ایمانی، دھوکہ، فراڈ اور ایک دُوسرے کی آنکھوں میں گردو غُبار کی گہری تہہ جمانے اور بہکانے اور جھونکنے کا کلچر۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پہلے صرف شوہر اپنی بیوی سے بے وفائی کے جرم کے مرتکب ہوتے تھے۔ اب اس میں خواتین (یعنی بیویاں) بھی جوش و خروش اور تند ہی (جان بوجھ کر یہ ذُومعنی لفظ نہیں لکھا گیا) سے شامل ہو گئی ہیں۔ دُوسرے الفاظ میں پہلے صرف نہلا تھا۔ اب نہلے پر دہلے کا دور ہے۔ جاسُوس خواتین صرف سیاہ چشمے نہیں لگاتیں بلکہ وُہ تمام جدید آلات جاسوسی سے پوری طرح مسلح ہو کر اپنے شکاری کا تعاقب کرتی ہیں اور اہم معاملات کا کھوج لگا کر فیس دینے والوں کی معلومات میں قیمتی اضافہ کرتی ہیں جو انہیںایک اہم ذمہ داری سونپتے ہیں اور مناسب معاوضہ دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے برعکس بھارت کا متوسط طبقہ دولت کمانے میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا ہے،مگر کئی بار خوشحالی آنے کا یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ خوشی، قناعت پسندی، ذہنی سکون، اطمینان قلب، رشتوں کا لحاظ، آنکھ کی شرم اور بے شمار اخلاقی قدریں سونے چاندی کے بنے ہوئے بچھڑے کے پتھریلے پائوں کے بے رحم سُموں کے نیچے آکر کچلی جاتی ہیں۔
ہفت روزہ اکانومسٹ نہ صرف برطانیہ بلکہ غالباً دُنیا کا سب سے معلومات افزا جریدہ ہے۔ کرسمس کے خصوصی شمارہ میں اس نے بھارت کی تاریخ کے ایک ایسے پہلوسے پردہ اُٹھایا ہے ،جس کے بارے میں ہمارے مورخین کی واقفیت زیادہ نہیں۔ یہ مضمون اُس شخص کے بارے میں جومہاتما گاندھی کو کمزور نسوانی کردار (عامیانہ انگریزی میںSissy ) سمجھتا اور برسر عام کہتا تھا۔ اس کا پورا نام تھاVinayak Damodar Savarkar ۔1906 ء میں لندن میں قانون پڑھانے والے صدیوں پُرانے مکتب میں وہ گاندھی کا ہم جماعت تھا۔ ایک دن گاندھی اُسے ملنے گئے تو اس کا میزبان باورچی خانہ میں جھینگا مچھلی (Prawns) پکا رہا تھا۔ کھانا پک گیا تو مہمان کو پیش کیا گیا جس نے اس بنیاد پر کھانے سے انکار کر دیا کہ وہ سبزی خور ہے۔ میزبان نے برا منایا اور کہا کہ کھاتے دال سبزی ہو اورخواب دیکھتے ہو برٹش راج کو ہندوستان سے مار بھگانے کا ۔ غذائیت سے محروم غذا کھانے کے بعد تمہیں کوئی سیاسی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔آنے والے دنوں نے ثابت کر دیا کہ میزبان کا اندازہ غلط نکلا۔1906 ء میں گاندھی کے میزبان نے ہندوستان آکر دائیں بازو کی فرقہ پرست، فسطائی ذہن رکھنے والی جماعت ہندئو مہاسبھا کی بنیاد رکھی، جس نے آگے چل کر راشٹریہ سیوک سنگ کو جنم دیا۔ لاکھوں ہندوئوں کی رُکنیت کے باوجود ہندو مہاسبھا کانگریس پر غالب نہ آسکی۔ اس سال بھارت میں ہونے والے نام نہاد انتخابات یں ہندو مہاسبھا نے نریندر مودی کی بھارتی جنتا پارٹی کی کامیابی میں نمایاں اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ لگتا ہے کہ کانگریس 1947 ء میں کامیاب رہی اور 67 سالوں بعد ہندو مہاسبھا۔ یہ نہ سمجھئے کہ ساورکر نے اپنی زندگی صرف کتابیں پڑھنے اور تقریریں کرنے میں گزاری۔ وہ برطانوی راج کے خلاف جدوجہد میں تشدد کے استعمال کا حامی تھا ۔ اُس کی سرگرمیاں پولیس سے پوشیدہ نہ رہ سکیں۔ وہ گرفتار کر لیاگیا۔ مقدمہ چلایا گیا اور اُسے بہ عبور دریائے شور (عرف عام میں کالا پانی) کی سزا دی گئی۔ اُس نے جزائر انڈیمان کی عقوبت گاہ میں دس سال قید اور ناقابل بیان صعوبتوں کی سزا بھگتی ۔1921 ء میں رہا ہو کر ہندوستان آیا تو زیر زمین رہ کر اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ جیل میں قید تنہائی کے دوران اُسے نہ قلم دیا گیا نہ کاغذ تو اُس نے لکڑی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ جیل کی دیواروں پر اپنے خیالات لکھ لکھ کر دس سال گزار دیئے۔ وہ اس حد تک روایت شکن تھا کہ اُس نے گائے کی پوجا اور ذات پات کے نظام اور نچلی ذات کے ہندوئوں کو اُچھوت سمجھنے کی کھلم کھلا مخالفت کی۔ ساورکر غیر رواجی نظریات کی وجہ سے نہ صرف ہندو متوسط طبقہ (جو اعتدال پسند اور کافی حد تک سیکولر ذہن کا مالک تھا) بلکہ ہندو دھرم کے پنڈتوں اور مذہبی راہنمائوں کی بھرپور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ساورکر کا نصب العین یہ تھا کہ دُکاندار پیشہ ہندوئوں کو ایک جنگجو قوم میں تبدیل کر دیا جائے۔اُسے اپنے مشن میں کامیابی تو ابھی تک حاصل نہیں ہوئی مگر اب مورخین نے ثابت کر دیا ہے کہ کانگریس کا صف اوّل کا راہنما دسبھ بھائی پٹیل تھا۔ اُس کی مسلمان دُشمنی ،کٹڑ پن، تنگ نظری اور فرقہ پرستی گاندھی اور نہرو کی اعتدال پسندی پر غالب آئی۔ نامور بھارتی سیاست دان جسونت سنگھ کی شہرئہ آفاق کتاب کے مطابق پاکستان بن جانے کا سہرا پٹیل کی ہٹ دھرمی اور قائداعظم کے سو فیصد جائز مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کے سر باندھا جا سکتا ہے۔ 1948 ء میں گاندھی قتل کر دیئے گئے تو ملزموں میں سا ورکر بھی شامل تھا۔ یہ الزام اس لئے لگا کہ گاندھی کے قاتل کا تعلق راشٹریہ سیوک سنگھ سے تھا۔ ناکافی شہادت کی وجہ سے ساورکر بری کر دیا گیا۔ ہفت روزہ اکانومسٹ کی رائے میں ہندوستان کے کلچر میں مہاسبھائی ذہنیت نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved