ایسا لگتا ہے کہ پشاور میں طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں سکول کے بچوں کے قتل نے حکام کو جھنجھوڑ کر خواب ِ غفلت سے جگادیا اور اُنہیں یکایک احساس ہوا کہ قومی سلامتی خطرے میں ہے۔ ویسے اس سے پہلے بھی ہمیں بری طرح جھنجھوڑا جاچکا ہے، دہشت گردوںکی طرف سے دیے جانے والے صدمات نئے نہیں اور نہ ہی ہماری سلامتی کو لاحق خطرے نے نیا نیا سر اٹھایا ہے۔ اس کمزور ہوتی ہوئی ریاست اور بے جان ہوتے ہوئے معاشرے نے گزشتہ کئی عشروںسے اپنے سینے پر ہزاروں گھائو برداشت کیے لیکن پشاور سکول میں ہونے والی خونریزی نے سب پر سکتہ طاری کردیا۔ اب سب کے سامنے سوال یہ ہے کہ اس دہشت گردی سے نمٹنے کا آغاز کہاں سے کیا جائے۔
ایک گروہ کی طرف سے کیے جانے والے تشدد کی وجہ سے ہم دیگر گروہوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم یا دیگر گروہوں سے صرف ِ نظر نہیں کرسکتے۔ آج پاکستان میں درجنوں انتہا پسند تنظیمیں موجود ہیں۔ ان کی موجودگی سے انکار کرنا یا بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر ان سے اغماض برتنا ہمیں آخر کار نقصان پہنچائے گا۔چاہے کوئی بھی گروہ ہو، اس کے جیسے بھی نظریات یا عقائد ہوں، اس کی طرف سے کیے جانے والے تشدد کی تمام اقسام کی غرض وغایت سیاسی مفاد کے سوا کچھ اور نہیں۔ کیا ریاست ان تمام گروہوں کو چیلنج کرسکتی ہے یا اگر وہ ایسا کرتی ہے تو کیا معاشرہ اُس کا ساتھ دے گا؟ موجودہ سیاسی مفاہمت کا عمل کب تک جاری رہے گا؟ کیا یہ فوج کے دبائو کا نتیجہ ہے یا پھر آج سیاست دان واقعی مخلص ہوکر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے متحد ہوچکے ہیں؟ یہ ہیں وہ سوال جو آج ہر پاکستانی کے ذہن میں کلبلارہے ہیں۔
آج صرف طالبان ہی نہیں بلکہ بہت سے دیگر گروہ بھی مختلف اہداف کے لیے تشدد کا سہارا لے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک عشرے سے تشدد کی کارروائیوں میں بے تحاشا اضافہ کیوں دیکھنے میں آیا؟اس کا مختصر جواب ''ہمارے نظام کی ناکامی‘‘ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی ادارے اور حکومتیں اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ کوئی نظام بھی اُس وقت ناکامی سے دوچار ہوتاہے جب وہ ایسے امور کو اپنے ہاتھ میںلے لیتا ہے جن کے لیے وہ نہیں بنا تھا، یا وہ اُن امور سے صرف ِنظر کرتا ہے جن کی انجام دہی کے لیے اُسے بنایا گیا تھا۔ اسی طرح حکومتوں کی ناکامی اُس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب وہ بنائے گئے قوانین کا نفاذ کرنے اور عوام کو انصاف ، زندگی کی سہولیات اور سیاسی حقوق دینے میں ناکام رہتی ہیں۔ان تمام امور میں پاکستان زوال پذیر ہے۔ کسی بھی حکومت نے ملک میں قوانین کے بے لاگ نفاذ اور سیاسی نظام کو شفاف بنانے کی کوشش نہیں کی۔ کسی اچھے رہنما کی غیر موجودگی میں ان امور کی طرف پیش رفت ناممکن ہے۔ درحقیقت قحط الرجال ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اور تمام مسائل کی جڑ ہے۔ اگر ہمیں ان خرابیوں سے مستقل طور پر نمٹنا ہے تو ہمیں اپنے نظام کی فعالیت کو بہتر بنانا ہوگا۔
اس ضمن میں میری دلیل دو پہلو رکھتی ہے۔ پہلا یہ کہ نظام کی ناکامی نے بلاروک ٹوک کچھ بھی کر گزرنے کے کلچر کو فروغ دیا۔ معاشرے کے طبقے یہ جان گئے کہ قوانین کی غیر موجودگی میں ہر کام طاقت اور اختیار سے کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں طاقت صرف حکمران طبقوں تک ہی محدود نہیں رہی۔ چنانچہ معاشرے میں طاقت کے حصول کے لیے سیاست، کاروبار اور مذہب تک کو استعمال کرنے کی پالیسی دکھائی دی۔ یقینا طاقت کے استعمال کا مظاہرہ ارباب ِحکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دیکھنے میں آیا لیکن پھر معاشرے کے دیگر طبقے بھی طاقت کی اس دوڑ میں شامل ہوتے گئے۔ ہر کسی نے اپنی سکت کے مطابق اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ حکمرانوں، چاہے وہ سول تھے یا فوجی، نے جی بھر کر مال کمایا۔ اس کے نتیجے میں ملک میں بدعنوانی کا طوفان امڈ آیا۔ آج ملک کا کوئی شعبہ بھی بدعنوانی سے پاک نہیں۔ لوگوں کو سمجھ آگئی کہ جب حکمران بدعنوان ہوں تو اُنہیں بھی بدعنوانی کی کوئی سزا نہیں ملے گی۔
اغماض برتنے کی اس پالیسی کے نتیجے میں آج پاکستان کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے ، وہ موجودہ ریاستی اداروں کے بس سے باہر ہیں۔ آج ہماری سماجی روایات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ درحقیقت دنیا کے جس معاشرے نے بھی قوانین سے روگردانی کی، وہاں سماجی روایات کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد وہاں کا قابل ِ قبول مذہب بھی معاشرے کو نہ سنبھال سکا۔ اس لیے پاکستان میں موجود خرابیوں کا انبار ،جو کئی عشروں سے یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے، کسی ایک آدھ آرڈیننس یا انتظامی حکم یا ہنگامی بنیادوں پر کی گئی قانون سازی سے ختم نہیں ہوجائے گا۔کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں‘ ان مسائل کو کسی نے چھیڑنا مناسب نہ سمجھا۔ سب نے ''وقت گزارواور مٹی پائو ‘‘کی پالیسی جاری رکھی۔ اس دوران ملک میں انتخابات بھی ہوتے رہے ، لیکن کوئی صورت ِحال تبدیل نہ ہوئی کیونکہ ہماری جمہوریت کو موروثی سیاست نے گہنا دیا۔ اس کے نتیجے میں جس خاندان کی حکومت بھی قائم ہوئی اس نے جی بھر کے اپنی جیبیں بھریں۔قومی مقاصد، جیسا کہ سیاسی نظام کی اصلاح، معاشی ترقی ، آبادی پر کنٹرول اور داخلی سکیورٹی ، کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ۔
ہمارے بچوں کی حالیہ قربانی نے قوم کو فی الحال متحد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ ان مسائل کے بارے میں مل کر سوچیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس سوچ کا دائرہ ٔ کار صرف فوجی عدالتوں تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔ فوجی عدالتوں کا قیام مسئلے کا دیرپا اور مستقل حل نہیں‘ اس لیے ہمیں اپنے پورے نظام کی اصلاح کرنا ہوگی۔ ہمیںانتظامیہ، پولیس ، عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی معاشرہ اور نظام نہیں چل سکتا۔ جب تک قانون کی نگاہ میں تمام شہری یکساں حیثیت نہیں رکھتے، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور نہ ہی دہشت گردی کاخاتمہ ہوگا۔ اس کے علاوہ تمام اداروں اور افراد کا احتساب بھی کرنا ہوگا۔ اگر کسی ریاست اور حکمرانی میں معاشرے کی اصلاح کی منطقی خواہش نہیں ہوگی تو اس میںمسائل کا حل طاقت کے زور پر ہی کیا جائے گا۔