تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-01-2015

دُھندلا آسمان اور کشور ناہید کی زمین

دھند نے آسمان اور فضا کا جو حشر کر رکھا ہے‘ اس کی وضاحت غیر ضروری ہے کہ سب کے سامنے ہے؛ البتہ یہ نہ سمجھا جائے کہ کشور ناہید کوئی جاگیردارنی یا زمیندارنی ہے بلکہ یہ زمین اُس کی غزل کی ہے جس میں‘ میں نے بھی غزل لکھ ماری ہے۔ ہوا یوں کہ پچھلے دنوں اُس نے فون پر اپنی تازہ غزل سنائی۔ اگرچہ کم و بیش اس زمین میں‘ میں نے بھی غزل کہہ رکھی تھی جس کا مطلع ہے ؎ 
اگر اتنی بھی رعایت نہیں کی جا سکتی 
صاف کہہ دو کہ محبت نہیں کی جا سکتی 
البتہ کشور کے ہاں قافیہ بدلا ہوا ہے اور جو واقعتاً ایک مشکل قافیہ ہے۔ چنانچہ میں نے فرمائش کر کے وہ غزل اور کچھ اور چیزیں اُس سے منگوا لیں جس کی داستان پہلے کہیں بیان کر چکا ہوں۔ سو‘ پہلے یہ ہم زمین غزلیں دیکھیے کہ اصل غزل تو کشور کی ہے‘ میں تو خانہ پُری ہی کیا کرتا ہوں: 
انتظاماً کوئی خواہش نہیں کی جا سکتی 
خانقاہوں میں تو پُرسش نہیں کی جا سکتی 
اب اجازت ہی کہاں ہم کو سخن کرنے کی 
بولنے کے لیے کوشش نہیں کی جا سکتی 
تُو نے دریائوں کو صحرائوں سے بدلا ہے بہت 
آسماں تجھ سے سفارش نہیں کی جا سکتی 
یا خدا خواب بنا دے مجھے ہلکا کر دے 
یہ نہ کہنا کہ یہ بندش نہیں کی جا سکتی 
وہ جو شیطاں کی طرح زخم بناتے جائیں 
ان خدائوں کی پرستش نہیں کی جا سکتی 
مانگتا کیا ہے فلک چشم فراموشی سے 
زخم اتنے ہیں کہ جُنبش نہیں کی جا سکتی 
ڈھونڈتے کیا ہو گلستاں میں رہا کچھ بھی نہیں 
اس خرابے میں تو شورش نہیں کی جا سکتی 
روز اس دل کی سفارش نہیں کی جا سکتی 
آپ سے اور گزارش نہیں کی جا سکتی 
یہ ادب گاہِ محبت ہے‘ خبردار اے دل 
بے اجازت یہاں جُنبش نہیں کی جا سکتی 
آپ کے خواب تو ہم دیکھتے رہتے ہیں بہت 
اک ذرا آپ کی خواہش نہیں کی جا سکتی 
آتے جاتے تو ہیں اس دل کے مکاں میں اکثر
کہیے کیا اس میں رہائش نہیں کی جا سکتی 
آپ کے باب میں کچھ سوچ کے خود ہی چُپ ہیں 
یہ نہیں ہے کوئی کاوش نہیں کی جا سکتی 
عشق انصاف طلب ہے‘ کوئی سنتا ہی نہیں 
اور‘ عدالت میں بھی نالش نہیں کی جا سکتی 
یاد کرنے کا بھی موقع ذرا کم ملتا ہے 
بھول جانے کی بھی کوشش نہیں کی جا سکتی 
کہتے ہیں کام تو اچھا ہے تمہارا‘ لیکن 
جانے کیوں اس کی ستائش نہیں کی جا سکتی 
لا تو سکتے ہیں‘ ظفرؔ، گھیر کے اُن کو کسی دن 
مگر اس ابر سے بارش نہیں کی جا سکتی 
اور‘ اب کشور ناہید کی ایک اور غزل اور نظم: 
ہم نے غم کھینچا تھا‘ ایذا طلبی کم نہ ہوئی 
دل میں طوفاں نہ رُکا‘ دربدری کم نہ ہوئی 
ہم نے رسوائی بھی پہنی‘ تجھے رسوا نہ کیا 
اے مرے شہر تری بے خبری کم نہ ہوئی 
دل کی دہلیز مٹی‘ در نہ رہا‘ گھر نہ رہا 
فتنہ سامانوں کی پر فتنہ گری کم نہ ہوئی 
قصہ خوانی کہیں کی اور کہیں ڈھونڈا اُس کو 
جل بجھے داغ‘ پہ آنکھوں میں نمی کم نہ ہوئی 
ہم تو طوفان بہ دل رُکتے رہے‘ چلتے رہے 
پیاس بجھتی رہی پر تشنہ لبی کم نہ ہوئی 
فاصلے کم نہ ہوئے‘ شوقِ سفر کم نہ ہوا 
اُس سے ملتے رہے‘ بیگانہ روی کم نہ ہوئی 
نوحہ پشاور کے بچوں کا 
اس خزاں کے موسم میں/ پھول جیسے بچوں کو کیوں مسل دیا تم نے/ کیوں تمہاری آنکھوں میں خون ایسا اُترا تھا/ چھوٹے چھوٹے بستوں کو تم نے چھید ڈالا تھا/ تم لعین دشمن تھے/ ہر کتاب سے نفرت/ یہ تمہاری عادت تھی/ صبح ساری مائوں نے/ علم کی دعا دے کر/ گھر سے اُن کو بھیجا تھا/ اس لعین دشمن نے/ ہر کلاس میں گھس کر/ زندگی کو ٹوکا تھا/ موت کے یہ کارندے/ خوں بہا کے یوں خوش تھے/ جیسے جیت اُن کی ہے/ کیا خبر تھی اُن کو بھی/ زندگی کی مہلت بھی چند ساعتوں تک ہے/ دُکھ سمیٹ کر مائیں/ آج گیلی مٹی کو چوم کر سمجھتی ہیں/ اُن کا لاڈلا بیٹا/ پھر سے جاگ جائے گا/ پھر انہیں ہنسائے گا! 
آج کا مقطع 
عاقبت جب ہوئی درپیش تو دیکھیں گے، ظفرؔ 
آخری عمر میں کافی ہے یہ دنیا فی الحال 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved