کیرن آرمسٹرانگ کو شہرت تو اپنی کتاب ''خدا کے لیے جنگ‘‘ سے ملی مگر اس کی کتاب "Prophet of our Time" بھی خاصے کی چیز ہے۔ اس کتاب میں کیرن نے لکھا ''میں سلمان رشدی کے خلاف آیت اللہ خمینی کے فتوے کو لاحاصل سمجھتی تھی مگر رشدی کے کچھ لبرل ساتھیوں کے خیالات سن کر بہت پریشان ہوئی جو فتوے پر تنقید کے بہانے مذہب اسلام کی تردید میں مصروف تھے۔ لگتا تھا کہ ہم نے 1930ء کی دہائی سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘ جب اس قسم کی تنگ نظری نے ہٹلر کو 60 لاکھ یہودی قتل کرنے کے قابل بنایا‘‘۔
مسلمانوں‘ کیتھولک مسیحیوں اور یہودیوں کے خلاف بار بار دلآزار اور قابلِ اعتراض مواد شائع کرنے والے فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو (Charlie Hebdo)کے دفتر پر حملہ اور حضور اکرمﷺ کے گستاخانہ خاکے تیار کرنے والے صحافیوں کی ہلاکت اس ملک کی پچاس سالہ تاریخ کا ہولناک واقعہ ہے اور عالم اسلام سمیت پوری دنیا میں اس حملے کی مذمت کی جا رہی ہے۔ اسلام انسانی جانوں کی حرمت پر زور دیتا ہے اور قتل و غارت گری کو انسانیت کے خلاف جرم سے تعبیر کرتا ہے۔
چارلی ہیبڈو نہ صرف مسلمانوں کے خلاف دلآزار مضامین اور پیغمبر اسلام محسنِ انسانیتﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کر چکا ہے بلکہ دیگر مذاہب کی تضحیک میں بھی انتہائی بیہودہ مواد دھڑلے سے چھاپتا رہا مگر فرانسیسی حکومت نے کبھی اسے روکنے اور سمجھانے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ دلآزاری اور اشتعال انگیزی کا یہ کھیل خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کی دلآزاری کے واقعات 9/11 کے بعد بڑھے اور 2005ء سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہالینڈ کے ایک اخبار نے ابتدا کی پھر ناروے‘ سپین اور دیگر ممالک کے اخبارات نے مسلمانوں کے پُرامن احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بار بار ان خاکوں کو شائع کیا اور ان ممالک میں موجود مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلے ڈیڑھ ارب کلمہ گو انسانوں کو اشتعال دلایا۔
1980ء کی دہائی میں جب سلمان رشدی نے شیطانی خرافات کا آغاز کیا اور ایران کے رہبر انقلاب نے اس کے خلاف فتویٰ جاری کیا تو اسے مسلمانوں کی انتہا پسندی اور عدم برداشت سے تعبیر کیا گیا مگر جب تیسرے درجے کے اس قلمکار کی پزیرائی عالمی سطح پر ہوئی، امریکی صدر اور ملکہ برطانیہ نے اسے وائٹ ہائوس اور شاہی محل میں بلا کر شاہانہ استقبال کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ یہ ایک مجہول مصنف کا ذاتی و انفرادی فعل و پزیرائی نہیں مسلمانوں کے عقیدے اور ذات مصطفیﷺ سے عشق پر ڈاکہ ڈالنے کی سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی ہے۔
ٹیری جونز نے Innocence of Muslims نامی توہین آمیز فلم بنائی تو امریکی حکمرانوں نے اسے ''ایک شخص کا ذاتی فعل‘‘ قرار دیا مگر جونہی امریکی سفارت خانہ اور سفیر زد میں آیا تو آرمی چیف ڈیمپسی نے ٹیری جونز کو فون کیا اور کہا ''بندہ پرور اپنی زبان اور سرگرمیاں بند رکھو، مسلم ممالک بالخصوص افغانستان میں ہمارے فوجیوں کی جانیں خطرے میں ہیں‘‘۔ اوباما اور کسی دوسرے امریکی عہدیدار کو یاد نہ رہا کہ یہ اظہارِ رائے کی شخصی آزادی کا مسئلہ ہے، حکومت کو دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ ذات رسالت مآبﷺ سے مسلمانوں کی وابستگی و وارفتگی آج تک ہر اس شخص اور قوم کے لیے سوہان روح ہے جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور عقیدہ و نظریہ کے درپے ہے۔ اُسے یقین ہے کہ جب تک مسلمان اپنے اس مرکز سے جڑے ہیں‘ ان کا ایمان اور جذبۂ عشقِ رسولؐ سلامت ہے اور یہ اپنی جان سے زیادہ حضورؐ کی حرمت و ناموس کو عزیز سمجھتے ہیں‘ انہیں مغلوب کرنا آسان نہیں۔ بدترین حالات میں بھی ان کی تہذیبی شاخت کا خاتمہ ممکن ہے، نہ انہیں سیاسی انفرادیت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ آتش نمرود میں ڈال دو تو کندن بن کر نکلیں گے۔
سپین میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی تو یورپی مورخین بھی مانتے ہیں کہ شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ یہ کہاوت مشہور تھی کہ اچھی‘ معیاری اور جدید علمی و فنی کتاب خریدنی ہو تو قرطبہ میں دستیاب ہے اور تیز دھار تلوار حاصل کرنے کے لیے مسیحیوں کے دارالحکومت اشبیلیہ میں جانا پڑے گا۔ اس موقع پر مسلمانوں کی حمیت کا امتحان لینے اور انہیں مشتعل کر کے دیگر اقوام سے لڑانے بھڑانے کے لیے اہانتِ رسولؐ کے فتنے کو ہوا دی گئی۔ پادری یولو جنٹس نے ایک منصوبہ بنایا۔ اپنی محبوبہ فلورا کی برین واشنگ کی اور وہ بدنصیب نامناسب لباس میں سڑکوں پر کھڑے ہو کر اہانت رسولؐ کا ارتکاب کرنے لگی۔
غلام ہندوستان میں یہ کام راجپال جیسے دریدہ دہنوں نے انجام دیا اور موجودہ زمانے میں ہالینڈ‘ ناروے‘ فرانس‘ ڈنمارک‘ سویڈن اور امریکہ کے جنونی اور مذہب دشمن افراد اس زعم میں کر رہے ہیں کہ طاقتور اقوام اور ریاستیں ان کی پشت پر ہیں جن کے نزدیک جانوروں کے تو حقوق ہیں مگر مسلمانوں کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق ہے نہ اپنے عقیدہ و نظریہ پر کاربند رہنے کی آزادی۔ مسلمانوں کی دلآزاری اور محسنِ انسانیتؐ کی اہانت بھی امریکی‘ یورپی‘ اسرائیلی باشندوں کا پیدائشی حق ہے جس کا احترام مسلمانوں کو کرنا چاہیے۔
مسلمانوں کے مزاج‘ عقیدے‘ نظریے اور جذبات کے منافی اشتعال انگیز واقعات رونما ہوں تو عام طور پر یہ تلقین کی جاتی ہے کہ مسلمان جذباتی ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں اور دلیل سے جواب دیں۔ بجا، مگر دوسری اقوام اس اصول سے مبرا کیوں ہیں؟ یہ تاثر قطعی غلط اور گمراہ کن ہے کہ مغرب کو اسلام‘ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کا حقیقی چہرہ دکھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی‘ ان موضوعات پر دنیا بھر میں کروڑوں صفحات لکھے گئے اور ہر دور میں مدلل انداز میں بات ہوئی، تبھی اسلام دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ہے۔ فرانس کے بارے میں تو طنزاً یہ کہا جاتا ہے کہ پچاس سال بعد اسلامک ری پبلک فرانس ہو گا، ہالینڈ کی بنیاد پرست فریڈم پارٹی کے رکن آرنوڈوین ڈرو نے حضور اکرمﷺ کے بارے میں گستاخانہ فلم بنائی، مسلمانوں کو دیس نکالا دینے کی مہم چلائی اور پھر مسلمان ہو گیا‘ دو سال قبل حج بھی کر آیا۔ ظاہر ہے کسی مسلمان کو دیکھ کر نہیں حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہؐ پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوا۔
برطانوی جریدہ اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں ہر سال 52 ہزار افراد کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام لاتے ہیں۔ دو سال پہلے تک ایک لاکھ برطانوی مسلمان ہو چکے تھے۔ امریکہ‘ سپین‘ جرمنی‘ ہالینڈ‘ فرانس اور دیگر ممالک میں ہزاروں فلمسٹار‘ سائنس دان‘ کھلاڑی‘ ڈاکٹر‘ انجینئر اور سیاستدان اسلام قبول کر کے دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ ترقی یافتہ تہذیب و تمدن‘ خیرہ کن سائنسی و سماجی ترقی اور عہدِ حاضر کی قیادت کے علمبردار امریکہ و یورپ کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مذہبی تعصب‘ نسلی امتیاز اور اقتصادی و معاشی مفادات کا آئینہ دار ہے اور تیزی سے پھیلتے ہوئے اس مذہب سے خوف کا مظہر ؎
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے
سو طرح کی خامیوں کے باوجود مسلمانوں سے تعلیم و تہذیب یافتہ معاشرے کے لوگ متاثر ہو کر بے رنگ و ذائقہ زندگی بسر کرنے کے خواہش مند ہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ مسلمان دلیل سے بات نہیں کرتے یا ان کی تہذیب و ثقافت اور انداز فکر میں کوئی کشش باقی نہیں رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے خلاف مہم اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا لاعلمی کے سبب نہیں‘ ایک مائنڈ سیٹ ہے، فاقہ کش مسلمانوں کے بدن سے روح محمدؐ نکالنے کی سازش اور ان کی حمیت و غیرت پر بار بار تازیانے برسا کر اغیار کی فکری‘ تہذیبی اور ثقافتی بالادستی کو قابل قبول بنانے کی تدبیر تاکہ ان کی قوت مزاحمت دم توڑ دے اور بے خدا‘ بے حیا تہذیب شرق سے غرب تک مکمل غلبہ حاصل کر سکے۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم لکھتے ہیں:
مجھے 1935ء سے 1938ء تک علامہ اقبال کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ جب بھی سرکار دو عالمﷺ کا نام نامی اسم گرامی زبان پر آتا آنکھیں پرنم ہو جاتیں۔ ایک دن غازی علم الدین شہید کا ذکر ہوا تو فرط عقیدت سے اٹھ کر بیٹھ گئے‘ آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہنے لگے ''اسی گلاں کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا‘‘ کسی نے پوچھا علم الدین کی موت شہادت ہے یا نہیں؟ فرمایا: حضورؐ کی ذات پر حملہ ایمان و عقیدہ کا قتل ہے۔ اس اقدام کی مزاحمت و مدافعت صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہوتی ہے‘ وہی اس کا ٹھیک اجر دینے والا ہے۔ میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میرے سامنے کہے کہ تمہارے پیغمبرؐ نے میلے کپڑے پہنے تھے۔
ایک اشتراکیت زدہ طالب علم نے حضورؐ کا نام محمد صاحب کہہ کر لیا۔ علامہ (اقبالؒ) غصے سے کانپنے لگے‘ چہرہ سرخ ہو گیا‘ کہا ، نکال دو میرے سامنے سے‘ اس نابکار کو۔ میرے آقا و مولا کا نام لینے کی تمیز نہیں۔ اختر شیرانی مرحوم نے دوران مے نوشی سرور کائناتﷺ کا نام لینے پر ایک ادیب کو گلاس دے مارا کہ بدتمیز اس حالت میں آقائے جہاںؐ کا نام لیتے ہو جو میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔