تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-01-2015

عفریت کے پشت پناہ

افسوس کہ اللہ کا فرمان انہیں یاد نہیں: ''کسی گروہ کی دشمنی ناانصافی پر تمہیں آمادہ نہ کرے‘ عدل کرو کہ یہی تقویٰ ہے‘‘۔ ناانصاف نکلے‘ وہ بڑے ہی ناانصاف۔ پَون صدی پہلے اقبالؒ نے ان کے اجداد کے بارے میں یہ کہا تھا ؎ 
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں 
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق 
دہشت گردی کے عفریت سے مکمل نجات کے لیے کیا درکار ہے؟ یہ سوال صرف اس لیے اہم نہیں کہ پشاور کے معصوم شہدا سمیت‘ اب تک پچاس ہزار جیتے جاگتے پاکستانی ہم نے کھو دیے۔ صرف اس لیے بھی نہیں کہ ہماری معیشت کو ایک سو بلین ڈالر کا صدمہ پہنچا۔ سب سے بڑھ کر اس لیے کہ بیس کروڑ انسانوں اور ہماری آنے والی تمام نسلوں کا اسی پر انحصار ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ پاکستان بچ نہیں سکتا‘ اگر دہشت گرد آزاد ہوں۔ 
اب ایک اور سوال پھوٹتا ہے۔ جو لوگ بہیمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں‘ ان کے بارے میں قوم کا موقف کیا ہونا چاہیے۔ پھر یہ بھی کہ جو لوگ نظریاتی خلجان پیدا کرنے یا حکمت عملی کی تشکیل میں رکاوٹ کے مرتکب ہیں‘ وہ کس کے مددگار ہیں؟ 
یہ تحریکِ پاکستان سے چھوٹا معرکہ نہیں۔ قیام پاکستان سے اختلاف کرنے والوں میں ایسے بھی تھے‘ جو کچھ ساکھ اور اعتبار رکھتے تھے۔ شک کا فائدہ انہیں دیا جا سکتا ہے کہ کانگرس سے ان کا اتحاد یا تحریک کی قیادت پر ان کے اعتراضات نیک نیتی سے خالی نہیں تھے۔ ابوالکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور عطاء اللہ شاہ بخاری ایسے لوگ۔ انہوں نے ہتھیار اٹھائے اور نہ کسی کو قتل کیا۔ جلسوں کے جواب میں وہ جلسے منعقد کرتے‘ اخبار نویسوں سے خطاب کرتے‘ مضامین یا پمفلٹ لکھا کرتے۔ تاریخ کے میزان میں تجزیہ ان کا ناقص نکلا۔ پاکستان اگر تشکیل نہ پاتا تو ہماری حالت کشمیری مسلمانوں سے مختلف نہ ہوتی۔ الہ آباد کے مسلمانوں کی طرح ہم بے دردی سے قتل کیے جاتے اور داد رسی کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ مگرمچھ کے آنسو اور اشک شوئی ہمیں نصیب ہوتی۔ 
ایک اور زاویے سے بھی اس تصویر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارتی فوج اور سول سروس میں مسلمانوں کا حصہ کتنا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ بیشتر عرصے تک برسر اقتدار رہنے والی آل انڈیا کانگرس اقلیت کے لیے مساوی مواقع کی ضمانت دیتی۔ انصاف انہیں میسر ہوتا اور معاشی تگ و دو کے میدان میں‘ کم از کم سرکاری طور پر کوئی مشکل ان کی راہ میں حائل نہ ہوتی۔ اگر یہ کارنامہ انجام دے دیا جاتا تو مسلم لیگ کے خلاف کانگرس اور قوم پرست مسلمان لیڈروں کا موقف بہت وزنی ہوتا۔ ایسا نہ ہو سکا۔ مستقبل میں بھی ایسا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔ سول یا فوجی‘ بھارت کی سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا حصہ ایک فیصد سے کم ہے۔ غیر سرکاری اداروں میں بھی۔ بیس فیصد آبادی کے لیے زیادہ سے زیادہ صرف ایک فیصد نوکریاں۔ آخر کیوں؟ اس کے باوجود کہ انہوں نے خود کو مرکزی دھارے سے وابستہ کرنے کی کوشش کی‘ انصاف کے سزاوار وہ کیوں نہیں۔ اس لیے کہ ہندو تعصب بہت گہرا بلکہ ناقابل عبور ہے۔ یہ بھارتی لیڈروں کا کیا دھرا ہے۔ شیوا جی کے زمانے میں ہندو قوم پرستی کا بھوت غاروں سے برآمد ہوا اور تین سو برس سے برسرِ بازار ناچ رہا ہے۔ عثمان ہارونی کا شعر یہ ہے ؎ 
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خونِ من ریزی 
من آں بسمل کہ زیرِ خنجر خونخوار می رقصم 
تو وہ قاتل کہ صرف اپنے ذوق خوں ریزی کے لیے مجھے قتل کرتا ہے۔ میں وہ زخمی کہ خنجر خوں خوار تلے رقص کرتا ہوں۔ بھارتی قیادت آج بھی صدیوں پہلے کی ذہنی فضا میں زندہ ہے۔ نریندر مودی‘ ہٹلر اور مسولینی سے مختلف نہیں۔ آسٹریلیا میں قتل کیے گئے قدیم ابرجین کی تعداد حافظے میں نہیں‘ امریکہ میں پانچ کروڑ سے زیادہ ریڈ انڈین بے دردی سے مار ڈالے گئے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کی کوکھ سے پیدا ہونے والی بھارتیہ جنتا پارٹی بھی یہی چاہتی ہے۔ ''ہندوتوا‘‘ اسی کا نام ہے‘ مگر اس کا بس نہیں چلتا۔ اگر کبھی اپنے عزائم وہ پورے کر سکے تو بھارت کا انجام بھی ہٹلر کے جرمنی اور مسولینی کے اٹلی سے مختلف نہ ہو گا۔ الٰہ آباد کے قتل عام کے بارے میں وزیر اعظم مودی سے سوال کیا گیا‘ اس کی یاد آپ کے لیے صدمہ انگیز ہے؟ ان کا جواب یہ تھا: اگر کتے کا پِلّا آپ کی کار تلے کچلا جائے تو ظاہر ہے کہ آپ کو صدمہ ہو گا۔ الفاظ کا یہ انتخاب کس جذبے کا مظہر ہے۔ اس لہجے کا مفہوم کیا ہے۔ کچھ خدا بیزار لوگ‘ کہ یہ ملک اللہ کے نام پر بنا‘ اور کچھ مُلّا کہ ان کے مقدس اساتذہ کو شکست فاش ہوئی تھی‘ اپنے موقف کی شدت میں متعصب ہو کر اندھے ہو جائیں تو دوسری بات ہے۔ عام پاکستانی بھارتی عزائم کو خوب سمجھتا ہے۔ 
دہشت گردوں کی منزل مقصود بھی اس پر آشکار ہے۔ ایک سروے کے مطابق 86 فیصد پاکستانی فوجی عدالتوں کے حامی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں دہشت گردی کو نیست و نابود کرنے کے۔ صدر آصف علی زرداری کی نیک کمائی پر کبھی صدمے کا شکار نہ ہونے والے رضا ربانی کی بات دوسری ہے۔ اجتماعی زندگی اور اس کے تمام عوامل و عناصر پر ذاتی مفاد کے نقطہ نظر سے غور کرنے والے اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر سے کیا شکایت۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک یوٹوپیا میں جی رہے ہیں‘ خیال و خواب کی ایک جنت میں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے گوانتانامو بے ایسے جیل خانے تعمیر کیے۔ 24/7 کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کے خلاف پانچ نئے سخت قوانین کی منظوری دی گئی۔ ظاہر ہے کہ عام حالات میں امریکی اور برطانوی معاشرہ کبھی یہ گوارا نہ کرتا۔ حالت جنگ میں ترجیحات بدل جاتی ہیں؛ چنانچہ قوانین بھی۔ قرآن کریم قرار دیتا ہے کہ میدانِ جنگ میں فتنہ بردار دشمن سے واسطہ پڑے تو خون بہانے میں تامل سے کام نہ لیا جائے۔ قیدی بنانے کا عمل اس کے بعد شروع ہونا چاہیے۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ پورے عزم سے مفسدوں کا اگر سدباب نہ ہو گا تو عبادت گاہیں تک باقی نہ رہیں گی۔ زندگی سر پیٹتی رہ جائے گی۔ 
عجیب و غریب اعتراض یہ ہے کہ نئی قومی پالیسی کا نشانہ مدارس ہیں۔ سبحان اللہ‘ اگر ایسا ہی تھا تو آپ نے اتفاق کیوں فرمایا تھا؟ اگر ایسا ہی تھا تو اس کے بعد بھی آپ نے یہ کیوں کہا کہ ہم تو اس گناہ میں شریک ہونے کے لیے تیار تھے مگر ہمیں اعتماد میں نہ لیا گیا۔ کیا آپ ہر اس گناہ میں شرکت پہ آمادہ رہتے ہیں جس کا نفع نقصان آپ کے ساتھ طے کر لیا جائے۔ کہنا ان کا یہ ہے کہ لسانی‘ علاقائی اور نسلی دہشت گردوں کے خلاف ایسے قوانین اگر نہیں بنائے جاتے تو مدارس کو بھی معاف کر دیا جائے۔ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ جیسا اِغماض ایک طرح کے قاتلوں سے‘ ویسا ہی دوسروں سے۔ یہ ان کے موقف کا خلاصہ ہے۔ پہلی بات یہ کہ گم کردہ راہ مدارس کی زیادہ سے زیادہ تعداد دس فیصد بتائی گئی۔ میرا خیال ہے کہ اس سے بھی بہت کم۔ شاید ایک فیصد۔ ظاہر ہے کہ ان میں سب لوگ دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کی مدد کے مرتکب نہیں۔ اگر کوئی ہے اور شواہد اس کے خلاف موجود ہوں تو کیفر کردار کو کیوں نہیں پہنچایا جائے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا: مساجد خانہ کعبہ کی بیٹیاں ہیں۔ اگر کوئی درندہ عبادت گاہ میں پناہ گزین ہو جائے تو کیا اسے معاف کر دیا جائے گا؟ ایک حصہ ان کے موقف کا درست ہے کہ لسانی اور نسلی دہشت گردوں کے باب میں بھی یہی طرز عمل روا رکھا جائے۔ وہ تو مگر اپنے لوگوں کو بچانے پر تلے ہیں۔ قوم اور ملک کے بارے میں نہیں‘ وہ اپنے مکتب فکر اور اپنی جماعتوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ بخدا وہ 1947ء سے زیادہ بڑی غلطی کے مرتکب ہیں۔ خود کو انہوں نے قوم سے الگ کر لیا اور ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ 
افسوس کہ اللہ کا فرمان انہیں یاد نہیں: ''کسی گروہ کی دشمنی ناانصافی پر تمہیں آمادہ نہ کرے‘ عدل کرو کہ یہی تقویٰ ہے‘‘۔ ناانصاف نکلے‘ وہ بڑے ہی ناانصاف۔ پَون صدی پہلے اقبالؒ نے ان کے اجداد کے بارے میں یہ کہا تھا ؎ 
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں 
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved