پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے منگل 6جنوری کو یکے بعد دیگرے اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری مطلوبہ دوتہائی اکثریت سے دے دی۔ یہ ترمیم آرمی ایکٹ میں کی گئی اور اسے آئینی تحفظ دیا گیا۔ فوجی عدالتیں قائم کرنے کا اختیار دو سال کے لیے دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اقدام غیرمعمولی حالات کے تحت اٹھایا گیا ہے جسے ہم حالات کے جبر سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا گناہ قبول کرلیا تھا، لیکن ہمیں آئینی ترمیم کے مسوّدے سے بے خبر رکھا گیا، لہٰذا ان کی جماعت نے حکومت کا حلیف ہونے کے باوجود اکیسویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیا ؛ البتہ مخالفت بھی نہیں کی۔ سوشل ڈیموکریٹ کی حیثیت سے بے داغ شہرت رکھنے والے پارلیمنٹیرین جناب رضا ربانی نے اشکِ ندامت بہاتے ہوئے کہا کہ آج میں پہلی بار ضمیر کے خلاف ووٹ دے رہا ہوں، کیونکہ یہ ووٹ میرے پاس پارٹی قیادت کی امانت ہے اور ان کی ہدایت پر اسے استعمال کررہاہوں۔
ان سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اُن کا یہ عذر کچھ زیادہ متأثّر کن(Appealing) نہیںہے، کیونکہ اِس امانت سے وہ استعفیٰ دے کربھی عہدہ برا ہوسکتے تھے ، جبکہ ضمیر (Conscience)بھی ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور قادرِمطلق نے اسے سورۃ القیامہ:2 میں ''نفسِ لوّامہ‘‘ (Self Blaming) سے تعبیر فرمایا ہے، یعنی اس کاکام بدی اور برائی سے روکنا اور ٹوکنا ہے، گناہ کے ارتکاب پر ایک کَسک اور ندامت کا احساس دلانا ہے ، برائی کی طرف اٹھنے والے ہر قدم سے پہلے خبردار کرنا ہے ، یہی اس کی زندگی کی علامت ہے، علامہ اقبال نے اسی کو ''احساسِ زیاں‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ ان کے نزدیک جس طرح فرد کا ضمیر ہوتاہے،اسی طرح اُمّتوں، مِلّتوں اور اَقوام کا بھی ضمیر ہوتاہے اور ملّت کو کارواں سے تعبیرکرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اسی طرح چودھری اعتزاز احسن نے مبینہ طور پر خودکش بمبارکو روکنے کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے ہنگو کے نوعمر طالبِ علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اعتزاز حسن ایک سال پہلے مر گیا تھا اور بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن آج مرگیا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک جذباتی کیفیت کا اظہار تھا، لیکن اس بات کا بھی اقرار تھا کہ حالات کے جبر یا نظریۂ ضرورت کے تحت وہ اپنے ضمیرکی آواز پر لبیک نہ کہہ سکے۔ سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر اعتزاز احسن اپنے آپ کو آئین وقانون اور جمہوری اقدار کے اعتبار سے مثالیت پسند (Idealist)کے طور پر پیش کرتے تھے، لیکن اس موقع پر انہیں اپنی مثالیت پسندی کا خول اتار کے عملیت پسندی (Pragmatism)کی طرف آناپڑا۔ ان کے پاس دو راستے تھے : ایک یہ کہ اپنی مثالیت پسندی کی شہرت کو باقی رکھتے ہوئے وہ سینٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیتے اور دوسری یہ تھی کہ اپنے موقف پر سمجھوتہ کرکے عملیت پسندی کا ثبوت دیتے۔ ان دونوں حضرات نے دوسری صورت کو اختیار کیا اور اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کا معاملہ کرکے ایسی ہی عملیت پسندی کا مظاہرہ کرچکی ہے، لہٰذا عملیت پسندی کایہ ارتکاب پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیاست مفاہمت اور مطابقت (Adjustability) پیدا کرنے کی صلاحیت کا نام ہے، یہ بات الگ ہے کہ بہتر سودے بازی کی مہارت زیادہ کس کے پاس ہے۔
مولانا فضل الرحمن صاحب نے بھی بقولِ خود بادل نخواستہ مفاہمت ومطابقت کی خاطر اکیسویں آئینی ترمیم کے گناہ کو قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، لیکن اس کے بعض مندرجات ومشمولات (Contents)پر انہیں اعتراض ہوا اور اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے سے احتراز کیا۔ میرے نزیک اگر اکیسویں ترمیم گناہ ہے تو ایل ایف او یعنی سترہویں آئینی ترمیم گناہِ کبیرہ ہے، جس کا ارتکاب ایم ایم اے نے کیا، مگر اس وقت ان کی مٹھی میں بہت کچھ تھا، جسے بچانا مقصود تھا، یعنی اس وقت کی صوبۂ سرحد کی حکومت، صوبۂ بلوچستان کی حکومت میں غالب حصہ اور مرکزمیں قائدِ حزبِ اختلاف کے منصب کا تحفظ ؛ چنانچہ انہوں نے اُس موقع پر مکمل عملیت پسندی کا ثبوت دیا اور اِس موقع پر نیم عملیت پسندی کا۔
مولانا کا اعتراض اس پر ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے متن میں ''مذہب اور مسلک کے نام پر دہشت گردی‘‘ کو ہدف بنایا گیا ہے۔ اصولی طور پر یہ موقف غلط نہیں ہے، دہشت گردی کو مطلقاً ہدف بنانا چاہیے، خواہ مذہب کے نام پر ہو، لسانیت ، صوبائیت یا علاقائیت کے نام پر ہو۔۔۔۔ الغرض عنوان اور مُحَرِک کوئی بھی ہو اُفُقی اور عمودی ہر اعتبار سے یعنی مکمل گہرائی اور گیرائی کے ساتھ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔ ہمارے ہاں جرائم کو جڑ سے اکھاڑا تو نہیں جاتا ، لیکن اس کے لیے قانون سازی کا کریڈٹ کئی ناموں سے لیا جاتاہے، یہ محض اخباری سرخیوں میں جگہ پانے اور کریڈٹ لینے کے لیے ہوتاہے۔ مثلاً قتل صرف قتل ہے، قرآن نے''جان کے بدلے میں جان‘‘ کا تصور پیش کیااور اس میں نفس کے ساتھ مسلم کی قید بھی نہیں لگائی۔ ہمارے ہاں قسمیں بیان کی جاتی ہیں:کاروکاری کے نام پر قتل، غیرت کے نام پر قتل، مذہب ومسلک اور زبان وعلاقے کے نام پر قتل ، دولت وجائداد اور زمینوں کے تنازعات میں قتل وغیرہ وغیرہ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں نے اپنے انتہائی ظالمانہ، سفّاکانہ ، سنگدلانہ اور درندگی پر مبنی دہشت گردی کے اقدامات کا جواز بعض صورتوں میں مذہب کے عنوان سے پیش کیا ہے، لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ ''بات توسچ ہے ، مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ ۔ چونکہ دہشت گردی کے بڑے واقعات میں اس طرح کی تنظیمیں سامنے آئیں اور انہوں نے برملا اِن جرائم کا اقرار واعتراف کیا اورکریڈٹ لیا،اس لیے اصل ہدف بھی وہی ہیںاور ہوناچاہیے۔ لیکن کیا اس کے لیے دہشت گردی کو کسی خاص عنوان کے ساتھ بریکٹ کرنا یا کسی خاص زاویے سے نمایاں نشاندہی (High Light)کرنا ضروری تھا، کیا اس کا کوئی درمیانی راستہ نہیں نکالاجاسکتا تھا،کیا اس کے لیے مناسب کوشش کی گئی؟ یہ سوال بہرحال جواب طلب ہے۔
دراصل ہمارے ہاں ایسے مواقع پر قانون سازی نہایت عُجلت میں کی جاتی ہے اور یہ بات عیاں ہے کہ عُجلت اور حکمت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ عجلت کا ایک سبب یہ ہوتاہے کہ چیزیں منظرعام پر آنے سے میڈیا پر مخالفانہ نقطۂ نظر پیش کیا جاتاہے، مخالفت میں شدت آتی ہے۔ لہٰذاحکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ بڑی مشکل سے جو اِجماع یا اتفاقِ رائے (Consensus) پیدا کیا گیا ہے،کہیں وہ بیرونی دبائوکے نتیجے میں ہاتھ سے نکل نہ جائے اور پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو جو بڑی مشکل سے ایک موقف پر جمع کیا گیاہے، بیرونی دبائوکے نتیجے میں اُن کے قدم کہیں ڈگمگا نہ جائیں اور عزائم متزلزل نہ ہوجائیں۔ لہٰذا یہ ان کی مجبوری ہوتی ہے اور اندرونی وبیرونی دبائو بیک وقت اثرانداز ہونے اورگوہرِ مقصود کے ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ بھی لاحق رہتا ہے۔ پس سچ یہ ہے کہ ہم ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہماری پارلیمانی سیاسی قیادت کی اجتماعی دانش نتیجہ خیز ثابت ہواور امن کی فاختہ جو ہم سے روٹھ کر بہت دور جا چکی ہے، دوبارہ ہمارے دامنِ تزویر میں آجائے۔ خدانخواستہ اگر یہ اقدام بھی خاکم بدہن نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا تو پھر خسارہ ہی خسارہ ہے۔
اب آئینی ترمیم کو بدلنا یا اس میں سے کسی جملے یا بعض الفاظ کا حذف (Delete)کرنا یا بعض الفاظ کا اضافہ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اب جو کچھ ہوسکتا ہے، وہ عملد رآمدکے حوالے سے یقین دہانیاں اوراعتماد سازی کے اقدامات ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ من حیث ُ القوم ہمیں نہ ایک دوسرے پر اعتماد ہے اور نہ ہی ہم ایک دوسرے پر یقین کرپاتے ہیں ، بس ہمارا سارا سرمایہ بدگمانیاں ہیں ، بے اعتمادیاں ہیں ، شکوک وشبہات ہیں اور قریب ودورکے اندیشے ہیں۔ وزیرِ داخلہ جناب چودھری نثار علی خان اب یقین دہانیوں پہ لگے ہیں، لیکن ان کے رابطے صرف ایک مذہبی طبقے کے ساتھ ہیں، دوسروں کو وہ قابلِ توجہ اور درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے اورکبھی کبھی اس طرح کے جانبدارانہ اور لاتعلقی کے رویے کے نتائج بھی بھگتنا پڑتے ہیں ، سو انہیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمارے اقتدارکا جوکلچریا شِعار ہے، اس کی رُو سے اہلِ اقتدارکی نظروں میں وہی قابلِ توجہ ہے، جس کے پاس صلاحیتِ انتشار وفساد ہے یا کم ازکم اس طبقے کے ساتھ کوئی رابطہ ہے، امن پسندی ان کے نزدیک پسندیدہ قدر نہیں ہے بلکہ کمزوری کی علامت ہے۔