تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     10-01-2015

ایک حملہ‘ اظہار کی آزادی پر

امریکی مسلمانوں نے پیرس میں ایک صحافتی ادارے پر یلغارمیں بارہ آدمیوں کی ہلاکت کی مذمت کی ہے ۔واشنگٹن میں شہری حقوق کی سب سے بڑی تنظیم‘ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز(CAIR) نے ایک بیان میں کہا کہ ہم اس ظالمانہ اور بزدلانہ حملے کی سختی سے مذمت کرتے ہیں اور آزادی اظہار پر ایسی کسی یلغار کی مخالفت کو دہراتے ہیں‘ خواہ وہ کسی عقیدے اور کسی مذہبی شخصیت پر طنز ہی کیوں نہ ہو ۔ سب کو عزیز آزادیوں پر ایسی کسی یلغار کا بہترین جواب یہ نہیں کہ کسی عقیدے کو بُرا کہاجائے‘ اس کی بجائے ہر پس منظر کے انتہا پسندوں کوجو آزادی کا گلا گھونٹنے اور معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں الگ تھلگ کر دیا جائے ۔
فرانسیسی مسلمانوں کے رہنما بھی اس دہشت گردی کو ''بربریت‘‘ قرار دے رہے ہیں اور توجہ دلا رہے ہیں کہ Charlie Hebdo (شارلی ایبڈو) تو ایک مزاحیہ رسالہ ہے جو ہر مذہب کی رسومات پر چوٹ کرتا ہے ۔اس نے فرانس کے ہیرو چارلس ڈیگال کے نام سے اپنا نام بنایا اور بہت سے فرانسیسیوں کو ناراض کیا ۔فرانس میں طنازی ایک روایت ہے جو انقلاب کے وقت سے چلی آ رہی ہے اور جو فرانسیسی جمہوریہ کی بنیاد ہے ۔2006ء میں ڈنمارک کے ایک جریدے نے ایسے کارٹون چھاپے جو دنیا کے بہت سے مسلمانوں کی نگاہ میں توہین آمیز تھے اور انہوں نے تقریباً ہر ملک میں احتجاج کیا تھا ۔شارلی نے یہ کارٹون دوبارہ چھاپے تھے ۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ کو براہ راست کو ئی خطرہ نہیں مگر حفاظتی انتظامات سخت تر کر دیئے گئے ہیں‘ بالخصوص ضرب پذیر مقامات پر جہاں ''سکیورٹی‘‘ نرم ہوتی ہے ۔ فرانس کے علاوہ یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی سکیورٹی سخت تر ہے۔ یہ حملہ پشاور کے سانحہ سے بائیس دن بعد رونما ہوا ہے جس میں کم و بیش ایک سو تیس طلبا شہید ہو گئے تھے ۔ اس واردات میں ملوث سب دہشت گروں نے خود کشی کر لی تھی مگر پیرس کے حملہ آور خود کشی نہیں دوسروں کو قتل کر کے فرار ہونے کی نیت سے آئے تھے ۔ وہ تینوں روانی سے فرنچ بولتے تھے‘ کالی وردیوں میں ملبوس تھے اور جنگ کی تربیت پا چکے تھے۔ مردوں کو عورتوں سے الگ کیا اور صحافیوں کے نام لے کر انہیں گولی کا نشانہ بنایا ۔انہوں نے آٹو میٹک گن استعمال کی اور ایک چھوٹی سی کار میں بیٹھ کر بھاگ نکلے ۔ جریدے کے مدیر کو دھمکا یا جا رہا تھا اور پولیس نے ان کو محا فظ بھی مہیا کئے تھے جس میں سے ایک مردہ پایا گیا اور دوسرا مزاحمت کرنے پر مارا گیا ۔اس حملے میں کوئی بیس لوگ زخمی بھی ہوئے ۔ دہشت گردوں کے فرار کا منظر سی سی کیمرے نے ریکارڈ کیا جس کی فٹ ایج سے حملہ آوروں کی شناخت ممکن ہوئی۔ ان میں دو سگے بھائی ہیں جو فرانسیسی شہری ہیں ۔تیسرے کی شہریت ابھی نہیں بتائی گئی ۔دو بھا ئیوں کا آبائی وطن الجزائر بتایا گیا ہے جس پر 1962ء تک فرانس کا قبضہ تھا ۔نو آبادیاتی دور ختم ہونے پر الجزائر اور کئی دوسرے افریقی ملکوں کے مسلمان فرانس میں منتقل ہوئے اور ان کی اولاد میں سے کچھ اب فرانس‘ برطانیہ‘ بلجیم‘ ناروے‘ سپین اور دوسرے یورپی ملکوں کی اساسی اقدار کو چیلنج کر رہے ہیں ۔ فرانسیسی حکام مانتے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار فرانسیسی ازسر نو دنیا کا نقشہ کھینچنے کی لڑائی میں حصہ لینے کے لئے مشرق وسطیٰ جا چکے ہیں ۔
فرا نس پر پہلے بھی دہشت گردانہ حملے ہو چکے ہیں۔1995ء میں پیرس میں ایک سب وے سٹیشن پر بم چلا‘ جس میں آٹھ افراد ہلاک اور تقریباً ڈیڑھ سو زخمی ہوئے ۔ایک مسلح الجزائری گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ 2011ء میں جب شارلی ایبدو نے دوسرے یورپی رسالوں کی طرح توہین آمیز خاکے نقل کئے اور ان جرائد نے سیلف سنسر شپ کے اندیشے کو دور کرنے کی کوشش کی تو اس کی عمارت کو بم سے اڑایا گیا مگر کسی کو گزند نہیں پہنچا۔ اگلے سال ایک مسلح شخص نے جو القاعدہ سے اپنا رشتہ جوڑتا تھا جنوبی فرانس میں تین یہودی بچوں ' ایک ربی اور تین پولیس والوں کو مار ڈالا۔
دشواری یہ ہے کہ دائیں اور بائیں بازو کی اس لڑائی میں جسے بعض لوگ کفر و اسلام کی جنگ بھی کہتے ہیں مسلمانوں میں اتحاد اور یک جہتی مفقود ہے ۔پاکستان میں دہشت کاروں کو سزا دینے کے لئے عارضی طور پرفوجی عدالتیں قائم کرنے کی غرض سے آئین میں ترمیم کی گئی تو مذہبی جماعتوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ ان میں سے ایک جماعت کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کی جگہ لفظ مدرسے استعمال کرکے سکیولرازم کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان کی نوے فیصد آبادی جو مسلمان ہے‘ کیوں اس کی اجازت دے گی ؟ دراصل وہ ضرب عضب کو جو قبائلی علاقوں کے دہشت گروں کے خلاف ہے اور اب پشاور اور ملک کے دوسرے شہروں تک پھیلنے والی ہے‘ کمزور کرنا چاہتے ہیں۔وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ملک ایک جنگ کی حالت میں ہے‘ جہاں غیر معمولی اقدامات نا گزیر ہیں ۔ 
''ہم نے شارلی ایبدو کو ختم کر دیا‘‘ فرانسیسی اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے ''اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا۔یہاں وزیر خارجہ جان کیری بولے۔ ''وہ غلط ہیں ۔ آج اور کل پیرس‘ فرانس اور باقی دنیا میں اظہار کی آزادی کو جس کا یہ رسالہ علمبردار ہے اس قسم کی دہشت گردی سے مارا نہیں جا سکتا‘‘۔ اور صدر اوباما نے فرانس کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسے یقین دلایا کہ دہشت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے جو بھی تعاون درکار ہوگا امریکہ مہیا کر ے گا۔ فرانس کے صدر فرانسواہولینڈ نے اس کارروائی کو دہشت گردی سے تعبیر کیا اور فرانسیسیوں کو مرنے والوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کو کہا۔ ان کی مقبولیت نہایت زیریں سطح پر ہے اور وہ رائے عامہ کا سامنا کرنے والے ہیں۔ دنیا کو اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان اور مصر کے منتخب لیڈروں کی دو ٹوک مذمت کا انتظار ہے۔ امریکی مبصروں کا خیال ہے کہ دنیائے اسلام کے رہنما بوجوہ کھل کر ان واقعات کی مخالفت نہیں کر رہے۔ 
فوری طور پر اس یلغار کی ذمہ داری کا دعویٰ کسی نے نہیں کیا لیکن واشنگٹن میں انتہا پسندانہ اندراجات پر نظر رکھنے والے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی تعریف کے کلمات وب سائٹس اور انٹر نیٹ کے دوسرے فورم پر دکھائی دے رہے ہیں ۔فرانسیسی حکام نے ایک حملہ آور کوشریف کوشی کے نام سے شناخت کیا ہے ۔اس کی عمر بتیس سال ہے‘ 2008ء میں اسے ایک دہشت پسند گروہ کے ساتھ تعلق رکھنے اور امریکی قا بض فوجوں سے لڑائی کے لئے عراق جانے کا عزم باندھنے کی بنا پر تین سال قید کی سزا ہوئی تھی ۔بدھ کے حملہ آوروں میں اس کا بھائی سعید بھی شنا خت ہوا جس کی عمر چونتیس سال بتائی جاتی ہے ۔تیسرا ملزم حامد مراد ہے جو اٹھارہویں سال میں ہے اور اطلا عات کے مطابق جس نے پیرس سے کو ئی سو میل شمال میں ایک شہر میں ہتھیار ڈال دئے ہیں ۔امریکی ماہرین کو اندیشہ ہے کہ اس گروہ کا تعلق القاعدہ یا ابو بکر بغدادی کی تحریک خلافت سے ہو سکتا ہے جو شام اور عراق کی تقسیم کا خاتمہ چاہتی ہے ۔
اموی خلافت سے الجزائر کا رشتہ رہا ہے ۔ 711عیسوی تک سارا شمالی افریقہ دمشق کے ماتحت تھا ۔کئی اسلامی سلطنتیں ابھریں اور ان کی قلمرو یورپ میں ہسپانیہ تک چلی گئی ۔بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کے درمیان بر بر قبائل کا راج تھا جو ڈاکو کہلاتے تھے۔ فرانس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور 1830ء میں الجزائر میں داخل ہو گیا۔ عوامی تحریکوں نے سر اٹھایا اور وہ خونریز الجزائری جنگ (1954-62) پر منتج ہوئیں۔ آخر میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے الجزائریوں کو آ زادی نصیب ہوئی۔ سن نوے کے عشرے میں فوج کے مخالف اساس پرستوں نے ایک بار پھر ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں ڈال دیا ۔الجزائر کی آبادی چار کروڑ تک جاتی ہے اور اسلام اس کا سرکاری مذہب ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved