تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     11-01-2015

اندازِ بیاں اور

اسد اللہ غالب کا قصور سے وہ تعلق تو نہیں ہے جو بابا بلھے شاہ یا میتھی کا قصور سے ہے لیکن وہ بہرحال ہے جو مادام نور جہاں اور خورشید قصوری کا ہے۔ بابا بلھے شاہ ہمیشہ کے لیے قصور کے ہو چکے اور میتھی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ یہاں کی نہ ہو تو کسی کام کی نہیں ہوتی جبکہ مادام نور جہاں‘ خورشید قصوری اور اسد اللہ غالب قصور کے رہتے تو کسی کام کے نہ رہتے۔ یہاں کے نہ بنے تو کسی کام کے بنے۔ اب ان سب کے لیے قصور ایک بھولی بسری کہانی ہے۔ مادام نور جہاں کسی اخبار کو انٹرویو دیتیں‘ ان کے ماضی کو کریدنے کی کوشش کی جاتی تو انہیں قصور یاد آتا تھا۔ خورشید کو الیکشن لڑنا ہو تو اپنے جدّی پشتی قصوری ہونے کا پتا چلتا ہے۔ غالب کے اعزاز میں تقریب کا مرحلہ درپیش ہو تو ان کے قصوری ہونے کی خبر ہوتی ہے۔ 
اسد اللہ غالب نے ابتدائی سولہ سترہ سال بلاشرکت غیرے قصوریوں کی نذر کیے۔ اس کے بعد لاہوریوں کے ہاتھ لگے۔ اب لاہوریوں کو ان کے ہاتھ لگ رہے ہیں۔ انہیں قصوری سے کہیں زیادہ لاہوری سمجھا جاتا ہے۔ لاہور نے انہیں وہ سب کچھ دے دیا ہے جس کی تلاش میں وہ قصور سے نکل کر یہاں پہنچے تھے۔ تعلیم‘ عزت‘ شہرت‘ روزگار‘ ان سے محبت کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔ اور ان سے محبت وصول کرنے والے بھی بہت ہیں۔ اس کے باوجود ان کا دل قصور میں اٹکا رہتا ہے۔ جس طرح جناب الطاف حسین اور ان کے رفقاء کو کراچی میں پروان چڑھنے کے باوجود مہاجر کہلانے پر اصرار ہے اسی طرح جناب غالب قصوری کہلا کر خوش ہوتے ہیں۔ وہ قصور سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک سرحدی گائوں فتوحی والہ میں پیدا ہوئے تھے اس لیے سرحدوں کی حفاظت کا جذبہ ان کے خون میں ہے۔ جغرافیائی سرحدوں سے دور ہو گئے تو نظریاتی سرحدوں کو نرغے میں لے لیا۔ 
لاہور پہنچنے کے کچھ ہی عرصہ بعد اردو ڈائجسٹ کے لشکر میں بھرتی ہو گئے۔ آئے رنگروٹ کے طور پر تھے لیکن جلد ہی باقاعدہ کمیشن حاصل کر لیا۔ فیلڈ مارشل الطاف حسن قریشی کے اے ڈی سی بنے اور زینے چڑھتے گئے۔ 
اِدھر اُدھر سے ہوتے ہوئے جناب مجید نظامی کا الطاف حسن قریشی بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ ان کے ا خبار کے اداریہ نویس بنے۔ اداریہ سمجھیے کہ آرٹلری بریگیڈ کی کمان ان کے سپرد تھی۔ اداریہ لکھتے وقت انہیں اس کرسی پر بیٹھنا پڑتا جس پر کبھی حبیب اللہ اوج اور بشیر احمد ارشد بیٹھا کرتے تھے۔ وہ ان صاحبان کی طرح چادر اور چار دیواری کے قائل نہیں ہیں۔ ان کی چادر ان کے پائوں کے مطابق دراز ہوتی رہتی ہے اور چار دیواری تو ہوتی ہی دوسروں کے لیے ہے۔ 
غالب توپ خانے کے انچارج ہیں اور حسینی والا میں کھڑے ہوئے بریگیڈیئر اختر عبدالرحمن کی طرح دور کی کوڑی لا سکتے ہیں اور دور تک دیکھ سکتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بریگیڈیئر اختر نے 1972ء میں سوویت یونین سے دو دو ہاتھ کرنے اور اسے بھارت کی سرپرستی کا مزہ چکھانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ 
اسد اللہ غالب کے اس بریگیڈیئر اختر کو آج دنیا جنرل اختر عبدالرحمن کے نام سے جانتی ہے اور ان کا لوہا مانتی ہے۔ لیکن بریگیڈیئر اسد اللہ غالب کا سفر جاری ہے‘ کیا معلوم ان کے قلم نے کس محاذ پر‘ کس وقت‘ کس طرح داد شجاعت اور کس کو‘ کس وقت‘ کس طرح مار گرانا ہے... کس سے خراج حاصل کرنا ہے اور کس سے مال غنیمت وصول کر لینا ہے۔ 
غالب توپ خانے کے انچارج ہی نہیں‘ خود ایک دور مار توپ ہیں‘ انہیں جنگی حکمت عملی پر عبور ہے‘ وہ چومکھی لڑ سکتے ہیں‘ جارحانہ پیچھے ہٹ سکتے اور دفاعیانہ آگے بڑھ سکتے ہیں‘ فضائوں اور سمندروں کو چیر سکتے ہیں‘ پیدل پیش قدمی کر سکتے ہیں اور سادہ لباس میں سپاہی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ صحافتی زبان میں سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مکمل اخبار نویس ہیں۔ رپورٹنگ میں مہارت رکھتے ہیں‘ تحقیقی بلکہ مہماتی رپورٹنگ میں بھی جوہر دکھا سکتے ہیں۔ ترجمے کے دھنی اور الفاظ کے غنی ہیں۔ کالم نگاری ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے تو اداریہ نویسی دائیں ہاتھ کا۔ صحافت کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کا ان کو ادراک نہ ہو۔ 
ان کی تحریروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کا قلم کیمرہ بھی بن سکتا ہے اور تلوار بھی۔ ریشم بھی بن سکتا ہے اور فولاد بھی۔ اس سے نشتر کا کام بھی لیا جا سکتا ہے اور خنجر کا بھی۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ کہاں اسے کیا بنانا اور کیا کام لینا ہے۔ 
وہ ایک وقائع نگار کی طرح واقعات کا تانا بانا جوڑتے‘ ایک ناول نویس کی طرح کرداروں کو اچھالتے‘ ایک ماہر نفسیات کی طرح جذبات کو مٹھی میں لیتے‘ ایک سراغ رساں کی طرح غوطہ زن ہوتے اور تہ میں اتر جاتے ہیں۔ انہیں پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ فلم دیکھی جا رہی ہے اور تمام واقعات آنکھوں کے سامنے پیش آ رہے ہیں۔ وہ بجا طور پر اس میدان کے اسد اللہ خان غالب ہیں۔ 
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے!! 
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور 
(سینئر صحافی و کالم نگار اسد اللہ غالب کی تازہ تصنیف ''ضربِ عضب‘‘ کا دیباچہ)۔
یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved