تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-01-2015

پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے؟

یہ کس ذہنیت اور کس سطح کے لوگ ہیں؟ یہ بھی نہیں جانتے کہ بعض موضوعات اور مواقع پر مہذب آدمی خاموش رہتا ہے۔ 
شیخ رشید اور پرویز رشید ایسے لوگ اگر خاموش رہنے کی عادت ڈالیں؟ ازراہ کرم کبھی اگر وہ اس مظلوم قوم کو سکھ اور سکون کا سانس لینے کی مہلت دیا کریں؟ اب کی بار تو مگر جناب جاوید ہاشمی بھی بولے اور بالکل بے تکی بات کی‘ شیخ رشید کی طرح۔ حد یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے‘ جو بولنے سے پہلے تولنے کے قائل ہیں‘ پرویز رشید ایسا ایک بیان داغ دیا۔ قطعاً بے سروپا۔ ایک ممتاز مزاحیہ اداکار کی طرح جو ہمیشہ سب کی اور خاص طور پر اپنی بیگم صاحبہ کی مذمت کرتے رہتے ہیں‘ درآں حالیکہ خاندان اور دوستوں کے مطابق وہ نہایت شائستہ خاتون ہیں۔ برادرم جاوید ہاشمی نے فرمایا: 62 سال کے ایک بوڑھے آدمی نے شادی کر لی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ کہ ہماری بیویاں‘ اب ہماری زیادہ خدمت گزار ہو گئیں۔ جاوید صاحب ہی کا سنایا ہوا ایک واقعہ یاد آیا۔ مدتوں پہلے لاہور سے ملتان کے سفر میں‘ سرِ راہ ایک ریستوران میں وہ رُکے۔ ایک صاحب ان کے پاس آئے اور بتایا کہ جو کار ان کے استعمال میں ہے‘ کبھی وہ ان کی مِلک تھی۔ انہوں نے بیچ دی تھی‘ جس سے جاوید صاحب نے خریدی۔ انہوں نے رنج کا اظہار کیا کہ گاڑی کے ساتھ بہت برا سلوک انہوں نے کیا ہے۔ موصوف نے اس پر ایک قہقہہ برسایا اور کہا: ہم تو بیوی کے ساتھ بھی ایسے ہی حسن سلوک کے عادی ہیں‘ کھری اپنائیت کے۔ وہ کیا جواب دیتے۔ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔ 
جاوید صاحب سے پوچھنے کو جی چاہا کہ خاتونِ محترم نے کب آپ کی خدمت میں کوتاہی کی۔ اس کے باوجود کہ... خیر چھوڑیے۔ تین برس پہلے فالج کا حملہ ہوا تو جناب مجیب الرحمن شامی کی معیت میں ان کی تیمارداری کرنے گیا۔ خوشی ہوئی کہ روبہ صحت 
ہیں۔ ملال بھی ہوا کہ کمرے میں مایوسی اور اداسی کا غلبہ ہے۔ ان کے کان میں کہا: تم یہاں کیوں پڑے ہو۔ غم پالنے کا مشورہ کس نے دیا؟ جلدی سے چنگے ہو جائو اور اس آدمی سے حساب برابر کرو‘ جس نے اس حال میں تمہیں پہنچایا ہے۔ تمہارے بجائے‘ اس شخص کو اس بستر پر ہونا چاہیے۔ وہ ہنس دیئے۔ میرا خیال ہے کہ علالت میں مبتلا ہونے کے بعد پہلی بار۔ اسیری کے چار برسوں میں قومی اسمبلی اور رائے عامہ میں ان کی نمائندگی کرنے والی نیک طینت اور سادہ اطوار صاحبزادی سے کہا: آپ کے گرامی قدر والد کو‘ میں خوب جانتا ہوں۔ بلڈپریشر سے جو خرابی پیدا ہوئی‘ وہ قطعاً عارضی ہے۔ انشاء اللہ جلد وہ اچھے ہو جائیں گے۔ اس بیماری سے مرنے والے بالکل نہیں۔ بہت سے ضروری کام ابھی انہیں انجام دینے ہیں۔ اس بے تکلفی نے بیٹی کو حیران سا کر دیا‘ صحت یاب ہونے پر جاوید نے مجھ سے گلہ کیا: میری پیاری بیٹی کو تم نے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ میں نے کہا: اللہ کے بندے‘ علالت زندگی کا حصہ ہے۔ اچھے بھلے ہو‘ ہٹے کٹے۔ تمہارے کمرے میں ایسا اذیت ناک ماحول تھا‘ گویا تیمارداری کی بجائے‘ خدانخواستہ وہ تعزیت کرنے آئے ہوں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ جاوید ہاشمی کی صحت بہتر ہوتی گئی۔ پہاڑ سی سیاسی غلطی اپنی جگہ‘ جس نے ان کے سیاسی کردار کا تقریباً مکمل طور پر خاتمہ کردیا‘ فعال وہ بہت رہے۔ پیہم مصروفِ عمل‘ مسلسل مسافرت۔ یہ الگ بات کہ اول درجے کے شعبدہ باز اور انتقام کے جذبے کو مستقل سینچنے والے شاہ محمود بالآخر بدلہ چکانے میں کامیاب رہے۔ ملتان کا وہ مشہور الیکشن ہو چکا تو ان سے میں نے کہا‘ ہوا کیا؟ بولے: عمران خان 
کی خوشامد تو حسب توفیق میں نے بھی کی‘ لیکن شاہ محمود بازی لے گئے۔ جاوید ہاشمی کی اطلاع کے لیے‘ کوئی دن میں اس قریشی کی باری بھی آنے والی ہے۔ صرف خوشامد سے کیا ہوتا ہے۔ کچھ کر دکھانا ہوتا ہے۔ کچھ خلوص درکار ہوتا ہے۔ 
مولانا فضل الرحمن نے فرمایا: تحریک انجام کے بجائے ریحام تک پہنچ گئی۔ بدذوقی کا مکروہ مظاہرہ۔ سیاست ایک چیز ہے اور ذاتی زندگی بالکل دوسری۔ عمران خان کا تو ایک دھرنا ہی ناکام ہوا‘ سیاسی کامیابی ان کی ایسی ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں مثال کم ہوگی۔ 42 سال کی عمر میں ایک آدمی سیاست میں آیا اور تن تنہا‘ اتنی بڑی پارٹی تعمیر کردی۔ نوے سال میں جمعیت علماء اسلام نے کون سا کارنامہ انجام دیا ہے۔ کتنی نیک نامی اس نے کمائی ہے۔ جیسا کہ خورشید ندیم اور خلیل ملک مرحوم کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے اعتراف کیا تھا: دیوبند اصل میں ایک سیاسی تحریک ہے۔ تب سے شمار کیجیے تو ایک سو چالیس برس ہونے کو آئے۔ تبلیغی جماعت اور سپاہ صحابہ الگ سے ان کی مددگار۔ دس ہزار مدارس کی براہ راست اور طالبان کی بالواسطہ پشت پناہی۔ صدر صدام حسین‘ کرنل قذافی مرحومین‘ اردن اور سعودی عرب کی نیک خواہشات کو بھی شامل کر لیجیے۔ حاصل وصول؟ 
ایک سے زیادہ اخبار نویس اس طنز پر تبصرہ کر چکے کہ عمران خان نے بڑھاپے میں شادی کی ہے۔ یہی کارِخیر مفتی محمود مرحوم و مغفور نے 75 سال کی عمر میں انجام دیا تھا۔ ایک کمسن دوشیزہ سے شادی کی۔ کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ تب یہ سمجھایا گیا کہ نکاح سنتِ رسولؐ ہے۔ عمران خان اول تو بوڑھے نہیں۔ معاملہ ان کا مختلف ہے۔ بزرگانِ عالی مقام کے برعکس جو شوگر کے مرض میں پیٹ بھر کے انگور کھایا کرتے‘ کپتان 90 منٹ روزانہ ورزش کرتا ہے اور وہ بھی نہایت ہی سخت ورزش۔ حضرت مولانا فضل الرحمن تو 9 منٹ بھی تاب نہ لا سکیں۔ کھانا البتہ وہ عمران خان اتنا ہی کھاتے ہیں‘ جناب وزیراعظم کی طرح۔ ڈٹ کر کھانا اور کھاتے رہنا ہی غالباً ان دونوں سیاسی حلیفوں کی واحد قدرِ مشترک ہے۔ 
عزم عالی مرتبت کا یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کو ازسرِ نو زندہ کیا جائے۔ جماعت اسلامی والے اگر اول درجے کے احمق ہیں تو یقینا ان کا سپنا سبز ہو جائے گا۔ رفاقت کے ان ایام کو کیا وہ بھول گئے‘ جب وزارتِ اعلیٰ جمعیت کے حصے میں آئی۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف کا منصب بھی۔ بلدیاتی الیکشن ہوا تو وزیراعلیٰ اکرم درانی نے الزام لگایا کہ جماعت اسلامی نے ڈٹ کر دھاندلی کی ہے‘ خاص طور پر پروفیسر ابراہیم نے ؎
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے؟ 
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے 
جماعت اسلامی کے وزراء پر کرپشن کا ایک بھی الزام نہ لگا۔ جمعیت علماء اسلام کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ پھر خدمتِ خلق کے میدان میں جماعت اسلامی کے کارنامے روشنی سے لکھے جائیں گے۔ خاص طور پر اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں۔ مولانا فضل الرحمن نے تب اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت دس ہزار عارضی گھر تعمیر کرے گی۔ ایک بھی نہ کیا۔ عمران خان نے دس ہزار بنائے۔ وہ میڈیا گروپ بھلائی کے اس کام میں شریک تھا‘ جو اب عمران خان کی ہر غلطی کو دس گنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور ہر بات میں کیڑے ڈالتا ہے۔ 
2013ء کے الیکشن سے قبل میاں شہباز شریف کے اس اعلان سے کہ وہ صدر زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے‘ طعنہ زنی کا ایک مقابلہ برپا ہوا۔ پیپلز پارٹی کی بعض خاتون رہنمائوں نے کمال بدذوقی دکھائی۔ وزیراعظم کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کی شادی کے حوالے سے بدزبانی کی انتہا کردی۔ حمزہ شہباز بھی زد میں آئے۔ جب کبھی کسی ٹی وی مذاکرے میں ناچیز سے سوال کیا گیا تو عرض کیا: لوگوں کی ذاتی اور خاندانی زندگیوں کے بارے میں ہم بات نہیں کیا کرتے۔ ابھی نون لیگ نے یہی کارنامہ عمران خان کے باب میں انجام دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے انہیں یہودیوں کا ایجنٹ کہا تو نون لیگ ہر طرح سے کردار کشی پر تلی رہی۔ اب کی بار ان کا رویہ معقول ہے۔ شاید اس لیے کہ ماضی کی حماقت پر بہت بھاری قیمت انہیں چکانا پڑی۔ پرویز رشید البتہ بولے۔ ہمیشہ کی طرح بے معنی اور بے سُرے۔ کہا: نئی شادی پر کپتان کو ہم عدالتی کمیشن کا تحفہ دیں گے۔ تحفہ؟ سبحان اللہ۔ گرہ سے کچھ مال خرچ کیا ہوتا۔ 1990ء کا قصہ ہے۔ ایک ذاتی دوست کے ہاں شادی کی تقریب میں شرکت سے پہلے وزیراعظم نماز پڑھ رہے تھے۔ ملٹری سیکرٹری سے کوئی پوچھنے آیا کہ تحفہ ذاتی ہوگا یا سرکاری؟ اس نے کہا: ظاہر ہے کہ ذاتی۔ وزیراعظم نے سلام پھیرا اور بولے: ذاتی کیسے؟ ظاہر ہے کہ ہمیشہ سرکاری۔ 
یہ کس ذہنیت اور کس سطح کے لوگ ہیں؟ یہ بھی نہیں جانتے کہ بعض موضوعات اور مواقع پر مہذب آدمی خاموش رہتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved