ویسے تو کرۂ ارض پر موجود بہت سے ملکوں کی سیر کر چکا ہوں لیکن کچھ ممالک میں تو میرا اس قدر آنا جا نا لگا رہتا ہے کہ وہاں کے ایئرپورٹس پر تعینات عملے کے ارکان بھی مجھے اپنے ہی ملک کا شہری سمجھنے لگے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پتہ نہیں میں کون ہوں؟ تو سب سے پہلے اپنا تعارف کروا دوں۔ مجھے اپنے '' کاروبار‘‘ کیلئے یا'' باہمی تجارت‘‘ کیلئے دنیا کی ہر مارکیٹ میں اپنا سامان بیچنے کیلئے جانا ہوتا ہے اور میری ایک خاص خوبی جسے میرے غیر ملکی خریدار بہت ہی سراہتے ہیں وہ یہ ہے کہ میں ہمیشہ اپنے ملک کا مال جسے خود ہی تیار کرتا ہوں، بیرونی مارکیٹوں میں بیچنے کیلئے جاتا ہوں۔ میں نے کبھی بھی کسی دوسرے ملک کا مال نہیں بیچا بلکہ اگر ان کے کسی مال یا تیار کردہ شے میں کوئی نقص بھی ہو تو اسے چھپانے کی بھر پور کوشش کرتا ہوں ۔ہاں اپنے ملک کی تیار کردہ ہر شے کا ایک ایک نقص ڈھونڈ کر سب کو دکھاتا اور سناتا ہوں اور یہ میں اس لیے کرتا ہوں کہ کسی کو دھوکے کا شک نہ رہے۔ اپنا مال تجارت ساتھ لئے جدھر کا بھی رخ کرتا ہوں،وہ ہاتھوں ہاتھوں بک جاتا ہے بلکہ میرے ان تمام گاہکوں کی جانب سے بھر پور فرمائشیںشروع ہوجاتی ہیں کہ مال ہمیں ہی بیچیں بلکہ یہ تاجر تو اس قسم کے ہیں کہ اگر کبھی انہیں بتایا جائے کہ آپ کے معیار یا پسند کے مطابق مال ابھی تیار نہیں ہو ا تو وہ ایک سال کا ایڈوانس تک دے دیتے ہیں بلکہ فوری طور پر سٹاک میں موجود کچرا بھی مجھ سے خریدنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ بس ان کی ایک شرط ہوتی ہے کہ میرے بھیجے جانے والے مال پر'' میڈ ان پاکستان ‘‘ کی مہر ضرور ہونی چاہئے۔ کئی بار میں انہیں پاکستان سے بھی کئی گنا بہتر مال دکھاتا ہوں جسے وہ خرید تو لیتے ہیں لیکن اس میں کوئی زیا دہ گرم جوشی نہیں دکھاتے اور اس کی قیمت بھی بر وقت ادا کرنے سے معذوری ظاہر کر دیتے ہیں۔ میرے پوچھنے پر ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ابھی اس کی ڈیمانڈ نہیں ہے اور یہ ہمارے گودام میں کئی ماہ پڑے رہنے کے بعد بہت ہی تھوڑی قیمت پر بک سکے گا۔
اپنے گاہکوں کی اس بات پر مجھے کبھی کبھی حیرانگی ہوتی ہے کہ آخر انہیں میرا فراہم کردہ مال ہی سب سے زیا دہ کیوں پسند آتا ہے جبکہ مارکیٹ میں میرے علاوہ اور بھی بہت سے پاکستانی ڈیلر موجود ہیں اور کئی تو میرے ساتھ ہی بڑے بڑے اشتہارات میں شور مچاتے ہوئے اپنا مال بیچنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں جس پر ان کا مال بک تو جاتا ہے لیکن ان کی قیمت وہ نہیں دی جاتی جو میرے حصے میں آتی ہے ۔کہنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ وراثت میں ملنے والی وہ صلاحیتیں اور قابلیت ہے جس سے میری مینو فیکچرنگ کی دھوم کچھ زیادہ ہی ہے۔ بہت سے لوگ جو میری اس قدر و منزلت اور ترقی سے جلتے ہیں، وہ میرے تیار کردہ مال میں بے تحاشا نقص بھی نکالتے رہتے ہیں لیکن قربان جائوں اپنے ان سب گاہکوں پر، جو اس کے با وجود مجھے اور میری ایڈور ٹائزنگ کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور اس پر سر دھنتے ہیں ۔
چند سال ہوئے،میرے ہم خیال بہت سے ساتھیوں نے مل کر ایک مشترکہ ٹریڈنگ کمپنی کی بنیاد رکھی جسے شروع میں تو بہت ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کیونکہ اس میں بہت ہی نامی گرامی کمپنیوں کے ہنر مند شامل تھے لیکن یہ زیا دہ عرصہ اپنا معیار برقرار نہ رکھ سکنے کی وجہ سے اپنی پہلے والی قدر و منزلت سے جلد ہی محروم ہو گئیں لیکن چونکہ ہماری اس ٹریڈنگ کمپنی کا نام اور اس کے ڈائریکٹرز بہت ہی مشہور ہیں اور بہت سے ممالک میں تو انہیں خاصی اہمیت بھی دی جاتی ہے ا س لیے میں نے ان سے علیحدگی تو نہیں کی لیکن اپنے خریداروں کے بے حد اصرار پر اپنی ذاتی کمپنی کا مال تیار کرنے پر دوبارہ توجہ دینی شروع کر دی ہے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دو سال قبل میرے مستقل گاہکوں نے مجھے خصوصی طور پر ٹریڈنگ کی ایک انٹرنیشنل تقریب میں شرکت کی دعوت دی جہاں مجھے دنیا بھر کے بڑے بڑے نمائندوں کی موجود گی میں خصوصی ٹرافی اور ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس ٹرافی اور ایوارڈ کی دنیا بھر میں دھوم مچ گئی لیکن اپنے ہی کچھ حاسد اس پر ناک بھوں چڑھاتے رہے کہ اپنے ملک کے مال کے بارے میں غلط بیانی کی وجہ سے مجھے یہ ایوارڈ ملا ہے ۔
گزشتہ سال نومبر 2014ء کی تیرہ سے سولہ تاریخ کے دوران مجھے برادر ملک بنگلہ دیش کے ایک بہت بڑے صنعت کار نے اپنے ادارے کی سولہویں سالگرہ پر مدعو کیا۔ میرے اعزاز میں دیئے جانے والے عشائیہ میں وہاں مدعو کیے جانے والے بڑے بڑے صنعت کار، حکومتی اعلیٰ شخصیات اور دوسرے ملک سے آئی ہوئی شخصیات بھی موجود تھیں ۔اسی محفل میں مدعو کچھ موسیقاروں نے میرے لکھے جانے والے گیتوں کو اس قدر سراہا کہ انہوں نے ان کی کمپوزنگ کرتے ہوئے اس طرح نغمہ سرائی کی کہ سننے والے تو وجد میں آ گئے۔ اس عشایئے کی خبریں عام ہوئیں تو بنگلہ دیش کے ہی ایک اور ادارے کے مالک بھی مجھ سے ملنے کیلئے بے تاب ہو گئے۔ انہوں نے مجھے ایک خصوصی دعوت میںمدعو کیا جہاں کچھ اور لوگ بھی بلائے گئے تھے ۔ ان سب کے بارے میں مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک اور ملک کی سرکاری چیمبر آف کامرس کے انتہائی اہم عہدیدار تھے ۔اگلی صبح جب اپنے میزبان سے اس کا ذکر کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے جناب آپ کی مارکیٹنگ ہی اتنی ہے کہ لوگ ملنے کو ترستے رہتے ہیں۔ میرے میزبان کو میری اس حسرت کا علم ہوا تو اس نے کہا جناب اس میں افسوس کی کیا بات ہے ہم آج ہی انہیں رات کو پھر مدعو کر لیتے ہیں۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ میرے میزبان کا ان لوگوں کے ساتھ بہت ہی گہرا رشتہ اور تعلق ہے۔ میرے تیار کردہ مال کی چونکہ وہاں بہت ہی مانگ ہے اس لیے میرے ڈیلروں نے اپنے مشہور ٹی وی چینلزپر میرے طویل انٹرویو کرائے جہاں میں نے اپنی پروڈکٹس کے بارے میں دل کھول کر اظہار خیال کیا۔
اگلی شام کو ہی میرا میزبان مجھے لینے کیلئے میرے ہوٹل آ پہنچا اور کوئی آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم ایک بہت بڑے سجے سجائے ڈرائنگ روم میں موجود تھے جہاں میرے کل والے مہمانوں کے علا وہ کچھ نئے چہرے بھی تھے جو دیکھنے میں ہی ''کاروباری‘‘ لگتے تھے۔ میرے ان سب مہمانوں کی کل تعداد دس تھی یعنی مزاح کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ دس نمبری تھے ۔ وہاں بہت سی باتیں ہوئیں اور خوب دل کھول کر ہوئیں۔ کچھ انہوں نے سنایا کچھ میں نے سنایا بلکہ سمجھ لیں کہ وہ تو کم ہی بولے ، مجھے ہی سنتے رہے ۔محفل سے اٹھتے ہوئے سب نے ایک بات سے اتفاق کیا کہ اس محفل خاص کا ذکر کسی بھی میڈیا پر نہیں آنا چاہئے کیونکہ ہمارے یہ باہمی اور تجارتی مفادات باہر نہیں جانے چاہئیں۔ اس محفل میں ان دس دوستوں کو خصوصی طور پر لائے ہوئے تحفوں سے بھی نوازا گیاجن پر میں نے خاص طور پر1971 ء میں تیار کردہ مال کے بہت سے نقش کندہ کرائے ہوئے تھے ۔۔۔ آپ ابھی تک سوچ رہے ہوں گے میں کون ہوں؟