اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ صائب الرائے لوگ ہی زندگی کے مطالبات کا ادراک کر سکتے ہیں۔ اقبالؔ کا شعر یہ ہے ؎
اہلِ دانش عام ہیں، کم یاب ہیں اہلِ نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ
قدرت کی ایک اور یاد دہانی کہ پاکستانی معاشرے میں برپا مستقل خرابی کا تدارک مشترکہ ، مربوط اور منضبط اجتماعی کاوش ہی سے ممکن ہے ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
انکشاف یہ ہے کہ راولپنڈی ، پشاور ، کوئٹہ اور کراچی کے سیوریج میں پولیو وائرس پایا گیا ۔ 20دسمبر کو ان شہروں سے نمونے لیے گئے ۔ 19جنوری کو بل گیٹس فائونڈیشن کا ایک وفد پاکستان آنے والا ہے تاکہ پولیو کی صورتِ حال کا جائزہ لے ۔ دنیا اب ایسی ہو گئی ۔ محروم اور پسماندہ ممالک مغرب کے محتاج ہیں ۔ صرف حکومتوں کے نہیں ، اس کے کاروباری اداروں کے بھی۔ ایک صدی ہوتی ہے ، اقبالؔ نے کہا تھا ۔
ہوائیں ان کی‘ فضائیں ان کی‘ سمندر ان کے‘ جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
اس سے نصف صدی پہلے ،ایک بات اسد اللہ خاں غالبؔ نے سر سیّد احمد خاں کو سمجھائی تھی ۔ سیّد صاحب نے "دربارِ اکبری " کا ترجمہ کیا۔ پھر ان سے دیباچے کی فرمائش کی ۔یہ ایک نظم تھی ۔ خلاصہ اس کا یہ تھا کہ بجلی سے قمقمے روشن ہیں اور بھاپ سے ریل کا انجن رواں ہوتاہے ۔ میرے بھائی ، تم کس کام میں پڑے ہو ۔ سر سیّد احمد خاں کو اوّل ناگوار ہوا مگر بعد ازاں
اس نکتے پر غور کیا تو علیگڑھ کالج کا تصور پھوٹا۔ غالبؔ کے زمانے سے تقریباً ساڑھے سات سو سال قبل امام غزالیؒ نے کہا کہ علم و فنون میں مسلمان روبہ زوال ہیں ۔ یہ بھی: اگر کوئی معاشرہ غفلت کا شکار ہوتاہے تو وہ محتاج ہو جائے گا۔ شہرہ آفاق تصنیف ''احیاء العلوم‘‘ میں امامؒ کا قول درج ہے : اگر کسی شہر میں طب کاپورا نظام غیر مسلموں کے ہاتھ میں چلا جائے تو اس کی نشاۃ ثانیہ شرعی فریضہ ہوگی۔
عوام اور علما ہی نہیں ، محمود غزنوی سمیت اس عہد کے حاکم بھی سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒکی خدمت میں حاضر ہوا کرتے ۔ غریب نواز خواجہ معین الدین چشتیؒ نے ان کی بے نظیر تصنیف کے بارے میں کہا تھا : اگر کسی کو مرشد نصیب نہ ہو تو یہ کتاب رہنمائی کے لیے کفایت کرے گی ۔ یہ انہی کا مصرعہ ہے ع
ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما
افسانہ نہیں ، یہ واقعہ ہے ۔ہمارے عصر کے عارف پروفیسر احمد رفیق اختر اسی کتاب کے اوراق سے ابھرے ہیں ۔ شیخِ ہجویر ،ؒ تاریخ نے جنہیں داتا گنج بخش کے نام سے یادر کھا ، حصولِ علم پر بہت زور دیا کرتے ۔ فرمایا : تمام علوم سے اتنا ضرورحاصل کرلو کہ خدا کو پہچان سکو۔ ریاضی، طبیعیات، الجبرا اور عمرانیات، ہر علم بالآخر آدمی کو عرفانِ الٰہی تک لے جائے گا۔بابائے اینتھروپالوجی جیمز کا کہنا یہ ہے کہ اوّلین معاشرہ مذہبی تھا ۔یہی ارشاد قرآنِ کریم میں ہے ۔ آغازِ حیات میں انسان امّتِ واحد تھے ۔ غالبؔ نے تاریخِ انسانی پر غور و فکر سے یہ نکتہ اخذ کیا ؎
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
امّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
اخباری رپورٹ یہ کہتی ہے کہ تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت نے پولیو کا انسداد کرنے کے لیے اپریل 2014ء میں ایک مہم برپا کی تھی ۔ بظاہر یہ کامیاب رہی مگر دسمبر نمودار ہوا تو خبر ملی کہ خرابی وہیں کی وہیں ہے ۔ وزارتِ صحت کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا یہ ہے کہ مہم ڈھنگ سے چلائی نہ گئی ۔ تمام بچّوں کو حفاظتی قطرے پلائے نہیں جا تے یا پھر یہ انتقالِ آبادی کا نتیجہ ہے ۔ نت نئے لوگ کراچی ، راولپنڈی ، پشاور اور کوئٹہ میں پہنچتے ہیں ۔ اپنے ساتھ وہ بیماری کے جراثیم بھی لاتے ہیں ۔ سرکاری سرگرمی احساسِ فرض کانتیجہ ہے یا عالمی دبائو کا ؟خبر یہ ہے کہ تمام کے تمام کارکن عارضی سرکاری ملازم ہیں ع
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
ضربِ عضب کے ہنگام آبادی کو ہم خود نکال کر لائے ۔ قبائلی سرزمین سے ہجرت کا سلسلہ جاری ہے ، صدیوں سے ۔اس لیے کہ زراعت برائے نام ہے اور کہیں کہیں ۔ کارخانے برائے نام بھی نہیں ۔ سرکاری ملازمت بھی شاذ۔ سمگلنگ کے سوا وہ کیا کریں ؟ طالبان اسی لیے ہزاروں افراد کو بھرتی کرنے میں کامیاب رہے ۔ گھر گھر خودکش جیکٹیں تیار ہوتی رہیں تو اس میں تعجب کیا؟چھ ہزار سال پہلے حمورابی نام کا ایک حکمران ہوگزرا ہے ۔ اس عہد کے حجری کتبے پڑھ لیے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک پر وہ عبارت لکھی ہے ، جو قرآنِ کریم کی آیتِ مبارکہ کا ترجمہ محسوس ہوتی ہے ''ولکم فی القصاص حیا ۃ یا اولی الالباب‘‘ اجتماعی حیات کی بقا اور فروغ کا انحصار قصاص پر ہے ۔ قابلِ اعتماد نظامِ عدل پر کہ امن وامان اور استحکام ہی میں زندگی فروغ پاتی ہے ۔ علوم بھی ، معیشت بھی ۔ آزادی میں ڈسپلن اور ڈسپلن میں مکمل آزادی ۔ انسانی صلاحیت کے بروئے کار آنے میں حریت سب سے اہم ہے ۔ فرانس کے عظیم دانشور فرانزز فینن نے کہا تھا : غلام اپنے آقا کے ذہن سے سوچتاہے ۔ ہٹیلا سے لے کر فاروقِ اعظمؓ اور تاتاریوں سے روس اور امریکہ بہادر تک ، لشکروں کی پیش قدمی الگ ، اقوام کی پائیدار ترقی فقط علوم کے بل پرہوتی ہے۔ بیسویں صدی کے وسط تک برطانوی سلطنت پہ سورج غروب نہ ہوتا تھا ۔یہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے ممکن ہوا ، جس کے پہلو بہ پہلو نشاۃِ ثانیہ کی تحریک اٹھی۔ حضرت دائود ؑ ایسے پیغمبرانِ عظام کے بعد ، تاریخ کے عظیم ترین حکمران عمر فاروقِ اعظمؓ نے یہ کہا تھا: جس سے نفرت کرتے ہو، اس سے ڈرتے رہو۔ ہماری کمزوری کابھارتیوں نے ادراک کیا۔ طالبان کے پشت پناہ ہو گئے ۔
صنعتی انقلاب کے عہد میں ڈارون ایسے کردار ابھرے ۔ اس بے بہا سائنس دان کوہم فقط نظریہ ء ارتقا کے حوالے سے جانتے ہیں۔ اس ایک ''انکشاف‘‘ کے سوا کہ آدم زاد اور بند رایک ہی خاندان سے تعلق اور مشترکہ جدّامجد رکھتے ہیں ، فلسفۂ ارتقا بعض اہم سائنسی حقائق پر مشتمل ہے ۔ ابنِ عربی اور ول ڈیوراں نے زیادہ قابلِ اعتماد نتائج اخذ کیے ۔ ول ڈیوراں نے کہاکہ نویں عظیم برفباری کے بعد جو آخری آدمی بچ رہا تھا، اس پر برق چمکتی رہی تا آنکہ اس کا دماغ بڑھنے لگا۔ ''فصوص الحکم‘‘ میں، شیخِ اکبر کا قول یہ ہے: آدم کو تخلیق کیا تواللہ نے پچاس ہزار سال تک اس پہ نظر کی ۔ قرآنِ کریم مطلع کرتاہے کہ حضرت آدمؑ کی شکل میں 900سی سی کی بجائے 1500سوسی سی کے دماغ کا نیا انسان ظہور میں آیا۔ جس کی حیات دائمی ہے ۔
حکمرانی بھی ایک علم ہے ۔ احمقانہ مفروضہ یہ ہے کہ قبائلی علاقے کو برقرار رکھتے ہوئے ملک میں امن و استحکام ممکن ہے ۔ ایک ملک میں کئی نظام نہیں ہو سکتے ۔ جس طرح ایک گھوڑے کی کئی لگامیں نہیں ہوتیں ۔ قبائلی علاقے کو ایک صوبے میں ڈھالنا ہوگا یا پختون خوا صوبے کا حصہ ۔ اس کے ساتھ ہی پولیس اور نظامِ عدل کو استوار کرنے کی اتنی ہی شدید ضرورت ہے ۔
وقت بیت اور بدل گیا ہے ۔ حکمران طبقے کو مگر ادراک نہیں ۔ ملک کو ایک انقلاب کی ضرورت ہے ۔ سیاسی سے زیادہ علمی تحریک کی ۔ جذبات کے غلبے میں نہیں ، زندگی حکمت سے نمو پذیر ہوتی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ صائب الرائے لوگ ہی زندگی کے مطالبات کا ادراک کر سکتے ہیں ۔ اقبالؔ کا شعر یہ ہے ؎
اہلِ دانش عام ہیں، کم یاب ہیں اہلِ نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ