تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-01-2015

ملاقاتیں‘ نثری غزل اور ناآسودہ خواہش

بڑی پوتی عائشہ ماس کمیونیکیشن میں اپنی تعلیم مکمل کر کے لندن سے واپس آ گئی ہے اور ہر چیز جو ادھوری ادھوری اور نامکمل لگتی تھی‘ گویا مکمل ہو گئی ہے۔ خاندان میں پہلے بچے کی حیثیت سے اس نے پیار بھی سب سے زیادہ لیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یا صفت یہ ہے کہ یہ بڑی بوڑھیوں کی طرح سب کا خیال بہت رکھتی ہے۔ پچھلے چار پانچ دن جنید کے بچوں کے ساتھ گزار کر آیا ہوں کیونکہ اب جتنے دن آفتاب اپنے شو کی تیاری میں باہر رہتا ہے‘ میں ماڈل ٹائون چلا جاتا ہوں کہ وہاں پر دوستوں کا آنا جانا بھی نسبتاً آسان رہتا ہے جس کا دورانیہ تقریباً جمعرات کی شام سے لے کر اتوار تک ہوتا ہے۔ چنانچہ اس دورے پر حضرات ڈاکٹر ابرار احمد‘ ڈاکٹر تبسم کاشمیری‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیر‘ اقتدار جاوید اور محیط اسماعیل نے مہربانی کی اور تشریف لائے جبکہ عباس تابش وعدے کے باوجود نہ آ سکے۔ یہ صحبت کس قدر ثمر آور رہی ہوگی‘ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ابرار کا کہنا تھا کہ وہ مجھے ایک مراسلہ بھیجیں گے جس پر انہیں مجھ سے معلوم کرنا تھا کہ نثری نظم کو نثری نظم کیوں کہتے ہیں جبکہ یہ نظم ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کا مکتوب موصول ہوگا تو اس پر بات ہوگی‘ ویسے میں نے ان کی رائے سے اتفاق ہی کیا تھا‘ ماسوائے اس کے کہ اگر اس پر نثری نظم نہ لکھا ہوا ہو تو قاری اسے حسب معمول موزوں نظم ہی کی طرح پڑھنا شروع کرے گا اور پریشان ہوگا اور کہیں بعد میں جا کر اسے احساس ہوگا کہ یہ تو نثری نظم تھی! ویسے استاد ریاض مجید کے خیال میں اسے نثری نظم کی بجائے نثم کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ 
نئی دہلی سے زمرد ملک صاحب کے فون کا ذکر کر چکا ہوں جو مجھے ویب سائٹ ''ریختہ‘‘ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دے رہے تھے اور میری معذرت پر کہہ رہے تھے کہ سارا بھارت آپ کا منتظر ہے۔ میں نے سوچا کہ جب میں ہٹا کٹا تھا تو کسی نے مجھے گھاس نہیں ڈالی اور اب بلاوے پر بلاوے آ رہے ہیں جب میں تقریباً معذوری کے عالم میں ہوں‘ پچھلے سال سری نگر مشاعرے کے لیے لیاقت جعفری بہت زور لگاتے رہے جبکہ اس سے پہلے ڈاکٹر شہریار اسی سلسلے میں مدعو کر رہے تھے۔ انہوں نے ''بکھرنے کے نام پر‘‘ کے عنوان سے میری شاعری کا انتخاب بھی شائع کروایا تھا اور بتایا تھا کہ اس کی رائلٹی بھی پبلشر آپ کو بھجوا دے گا۔ اسی دوران شہریار انتقال کر گئے اور یہ رائلٹی بھی کہیں بیچ میں ہی رہ گئی۔ کتاب انہوں نے مجھے بھجوائی تھی جو ہندی رسم الخط میں تھی۔ 
انٹرویو کرنے والے یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ آپ کی کوئی ایسی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہو۔ یہ مجھ سے تو کسی نے نہیں پوچھا کہ اب میں انٹرویو سے معذرت ہی کر دیتا ہوں کہ ہر آدمی کم و بیش ایک ہی جیسے سوال پوچھتا ہے جس سے میں تنگ آ چکا ہوں‘ حتیٰ کہ ''انٹرویو سے معذرت‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھ چکا ہوں‘ بہرحال‘ خود ہی بتا دیتا ہوں کہ میری یہ سب سے بڑی خواہش تھی جو پوری نہیں ہوئی کہ سارا خاندان ہم ایک ہی جگہ رہیں۔ چنانچہ بڑا اور چھوٹا بیٹا اور میں لاہور میں ہوں اور منجھلا اوکاڑہ میں‘ جہاں وہ بینک میں جاب کرتا ہے اور فارغ وقت میں کھیتی باڑی‘ جبکہ گائوں میں ایک کنٹرولڈ پولٹری فارم بھی قائم کر رکھا ہے۔ چنانچہ لاہور میں اس کی سکونت یوں سمجھیے کہ ناممکنات میں سے ہے جبکہ اس کی ایک صورت تو یہ نکالی گئی ہے کہ آفتاب مہینے میں کم از کم ایک بار سب کو فارم ہائوس پر مدعو کرتا ہے جس میں اوکاڑہ سے اویس اور پتوکی سے عطیہ اپنے بال بچوں کے ہمراہ آ جاتے ہیں اور ایک رات بھی یہیں بسر کرتے ہیں‘ حتیٰ کہ اس کی رشوت کے طور پر اس نے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے ایک ایک لاکھ روپے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کر رکھا ہے جس پر جنید نے اگلے روز سب کو آگاہ کرتے ہوئے فقرہ چُست کیا کہ یہ موجی آدمی ہے‘ کوئی پتہ نہیں کہ کسی دن اسے خیال آ جائے کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں‘ اور ہو سکتا ہے کہ ادا کردہ رقم کی واپسی کا بھی مطالبہ کردے! 
ابھی ایک صاحب نے فون پر دریافت کیا کہ نثری غزلیں آپ نے کتنی کہہ رکھی ہیں جبکہ ساہیوال سے افتخار شفیع کا دعویٰ ہے کہ آپ ہی نے نثری غزل کا آغاز کیا تھا اور آپ اس کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ میں نے کہا‘ کچھ خدا کا خوف کریں‘ یہ تو بہت پہلے لکھی جا رہی تھی اور جس سلسلے میں مظہر امام اور دیگران شامل تھے جبکہ میں نے تو ایک ہی ایسی غزل کہی جو دراصل نثری غزل کی پیروڈی تھی اور جو میرے تیسرے مجموعہ کلام ''رطب و یابس‘‘ میں شامل ہے جو سب سے پہلے برادرم شمس الرحمن فاروقی نے الٰہ آباد سے شائع کیا تھا اور بعد میں ''جنگ‘‘ والوں نے اس کا پاکستانی ایڈیشن شائع کیا جس کا سرورق حنیف رامے نے بنایا تھا۔ اور‘ اب آخر میں منتظر بھارتی دوستوں کے لیے یہ تازہ غزل کہ میری بجائے اسی پر گزارہ کریں! 
ہے حسنِ نظر شاید‘ جیسا نظر آتا ہوں 
اُتنا بھی نہیں میں تو جتنا نظر آتا ہوں 
پورا نہیں اترا ہوں دنیا کی توقع پر 
دریا نظر آنا تھا‘ صحرا نظر آتا ہوں 
کچھ کاٹ کے لے گئے ہیں احباب مرا حصہ 
میں اس لیے بھی سب کو آدھا نظر آتا ہوں 
اک جھوٹ کا پردہ سا تانا ہوا ہے‘ ورنہ 
میں آخری تھا سب سے‘ پہلا نظر آتا ہوں 
ہونا بھی نہ ہونا تھا دربارِ محبت میں 
صد شکر کہ اب میں بھی بیٹھا نظر آتا ہوں 
اُس بزم کی اب مجھ پر قدغن تو نہیں کوئی 
جاتا نظر آتا ہوں‘ آتا نظر آتا ہوں 
کچھ فیصلہ اس کا ہم خود تو نہیں کر سکتے 
تم کیا نظر آتے ہو‘ میں کیا نظر آتا ہوں 
یہ دیکھنے والے خود بھینگے ہی نہ ہوں‘ جن کو 
ٹیڑھا نظر آتا ہوں‘ ترچھا نظر آتا ہوں 
اس کا بھی حساب آخر ہونا ہے‘ ظفرؔ اک دن 
پوشیدہ ہوں میں کتنا‘ کتنا نظر آتا ہوں 
آج کا مطلع 
محبت تو چوری کا گُڑ ہے‘ ظفرؔ 
یہ میٹھا زیادہ تو ہونا ہی تھا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved