کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ بہت عجیب واقع ہوئے ہیں یعنی سب کی توجہ کا مرکز تو بنے ہوئے ہیں۔ مانا کہ ہم میں کوئی ہُنر نہیں، کوئی کمال نہیں مگر صاحب ؎
عجب جہاں میں ہماری مثال ہے صاحب
کسی ہُنر کا نہ ہونا کمال ہے صاحب!
دنیا ہمیں دیکھ کر حیران ہے۔ مگر دُنیا کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ ہم کِسے دیکھ کر حیران ہیں۔ اہلِ جہاں کی نظر ہم تک پہنچ کر ٹھہر جاتی ہے، دم توڑنے لگتی ہے۔ کیا اُنہیں معلوم نہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایک ایسا ملک آباد ہے جس نے بیشتر معاملات میں صرف ہمسایوں کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو حیرت زدہ کرتے رہنے کی قسم کھا رکھی ہے؟
جو لائن کھینچی ہی اِس لیے گئی ہے کہ اُسے دیکھ کر خود پر کنٹرول کیا جائے اُس لائن کو دیکھ کر بھارتی فورسز آؤٹ آف کنٹرول ہو جانے کی عادی ہیں۔ اور بین الاقوامی قوانین اور سفارتی و عسکری آداب کو نظر انداز کرنے کے بعد واویلا مچانا بھی بھارتی قیادت کی فطرت و خصلت کا حصہ ہے۔ یعنی ع
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا
بھارت سے آنے والی عجیب و غریب خبروں میں تازہ ترین اضافہ یہ ہے کہ ریاست چَھتّیس گڑھ کے شہر رائے گڑھ کے باشندوں نے اپنی رائے کا عجیب و غریب انداز سے اظہار کیا ہے۔ خبر پڑھ کر پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ شاید مذاق فرمانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ لوگ سیریس تھے۔ اور ہمیں اُن کا سیریس ہونا تسلیم کرنا ہی پڑا۔
ہوا یہ کہ رائے گڑھ میں میئر کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو منہ کی کھانا پڑی۔ ایک خواجہ سَرا نے مقبولیت کا ایسا کمال دکھایا کہ بی جے پی کے مہا ویر گرو کی مقبولیت کا سِرا گم ہوگیا اور پھر ہاتھ نہ آیا!
آپ سوچیں گے کہ رائے گڑھ کے لوگوں نے تو ووٹ کاسٹنگ میں بغاوت ہی کردی۔ ایک خواجہ سَرا کو میئر کی حیثیت سے منتخب کرنا بغاوت کے مترادف ہی سمجھا جائے گا۔
مَدھو بائی کِنّڑ نے اپنے حریف کو 4500 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ ٹرین میں ناچ گاکر دو وقت کی روٹی کمانے والی (یا کمانے والے!) مَدھو نے ایسا انتخابی ٹُھمکا لگایا کہ مہا ویر گرو اپنا سارا سیاسی نرت بھول گئے اور ٹرین میں ناچنے گانے والی (یا گانے والے) کے ہاتھوں اُن کی ٹرین پٹڑی سے یُوں اُتری کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
مہا ویر گرو کے لیے شکست سے بڑھ کر ایک عذاب اور بھی ہے۔ وہ مرتے دم تک طے نہ کرپائیں گے کہ بس ایک موتی سی چَھب دکھاکر، بس ایک میٹھی سی دُھن سُناکر جس نے سب کچھ لُوٹ لیا وہ انتخابی بازی ہرانے والا تھا یا ہرانے والی! کسی جواں مرد سے ہارتے تو کچھ بات بھی تھی۔ جو ''بائی برتھ‘‘ زمانے سے ہارے ہوئے ہیں اُن کے ہاتھوں اپنا تیا پانچا بھلا کس مَرد کو گوارا ہوسکتا ہے! رائے گڑھ کے لوگوں نے ملک کی حکمراں جماعت کے امیدوار پر ایک خواجہ سَرا کو ترجیح دے کر ثابت کردیا کہ وہ مردُم شناس ہوں نہ ہوں، مردُم کی دُم کو بخوبی شناخت کرنے کی منزل تک تو پہنچ ہی گئے ہیں! اُنہوں نے بی جے پی کے انتخابی جانور کو دُم سے پکڑ کر ایسا جَھٹکا دیا ہے کہ بقولِ غالبؔ ع
کوئی پُوچھے کہ یہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے!
مہا ویر گرو اب زندگی بھر ''بُھول جا میرے دِل، شُعلوں پہ آشیانہ، کوئی بنا سکا نا، بہتر ہے بھول جانا‘‘ گا گاکر اپنے دِل کی چوٹیں سَہلاتے رہیں گے!
ویسے ایک خواجہ سَرا کو میئر منتخب کرکے صرف رائے گڑھ کے لوگوں ہی نے باغیانہ روش پر چہل قدمی نہیں کی بلکہ خود مَدھو بائی نے بھی باغیانہ رُجحان کا مظاہرہ کیا ہے۔ کسی بھی خواجہ سَرا کی زندگی میں سب سے اہم شخصیت ہوتی ہے اُس کے ''گرو‘‘ کی۔ خواجہ سَراؤں کی دُنیا کا نظام کچھ ایسا ہے کہ گرو کی مرضی کے بغیر وہ کھانسنے اور چھینکنے کی بھی ہمت اپنے میں نہیں پاتے۔ مگر یہ کیا؟ مَدھو بائی نے ''گرو‘‘ ہی کو خاک چَٹا دی! مہا ویر گرو شاید یہ سوچ کر انتخابی اکھاڑے میں اُترے تھے کہ مَدھو بائی کو اُن کے نام میں لفظ ''گرو‘‘ دیکھ کر کچھ تو شرم آئے گی، دِل میں کچھ تو مُروّت جاگے گی۔ مگر مہا ویر گرو شاید یہ بھول گئے تھے راج نیتی میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ بیٹا باپ کو دھوکا دیتا ہے اور ماں بیٹے کو راستے سے ہٹانے کے لیے دُنیا سے رُخصت کردیتی ہے! پھر اگر مَدھو بائی نے ''گرو‘‘ نام کی بھی لاج نہ رکھی اور انتخابی معرکے میں مہا ویر گرو کو مِٹّی پھانکنے پر مجبور کردیا تو حیرت کیسی؟
رائے گڑھ کے لوگوں نے اِتنا ضرور ثابت کردیا کہ ہندو قوم پرستی کی باتیں کرنے والوں اور بھارت کو مہا شکتی بنانے کی دعویدار بی جے پی پر وہ پیدائشی ناچنے گانے والوں کو ترجیح دیتے ہیں! عقل مند کے لیے اِشارا کافی ہوتا ہے مگر بی جے پی وہ بُھوت ہے جو اِشارے وِشارے نہیں سمجھتا، محض باتوں سے نہیں مانتا یعنی صرف لاتوں کی زبان سمجھتا ہے۔
ویسے تو خیر بھارت کی قیادت کئی بار خاصے ''خواجہ سَرائی‘‘ ہاتھوں میں رہی ہے مگر اب کے وہ ہوا ہے جو پُوری سَند کے ساتھ ہے۔ رائے گڑھ کے لوگوں نے اہلِ وطن کو نئی راہ دکھائی ہے۔ یہ کہ جو لوگ وطن پرستی اور قوم پرستی کے نام پر اندھی عقیدت کا پرچار کرتے اور ملک کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارتے ہیں اُنہیں مُسترد کرکے اُنہیں قبول کیا جائے جو صِنفی اعتبار سے بھلے ہی کمزور ہوں مگر قول و فعل کی ہم آہنگی تو رکھتے ہیں۔ یعنی دِل ناچ رہا ہو تو جسم کو تِھرکنے دیتے ہیں!
بات کچھ یُوں بھی ہے کہ بھارتی قیادت کو اب پڑوسیوں سے کھیلنے سے فُرصت نہیں۔ سرحدوں پر آنکھ مچولی سے فارغ ہوں تو جنتا کی سَمسیاؤں کے سمادھان کا سوچیں! جب سیاست صرف اِس بات کا نام ہو کہ اپنے لوگوں کو، اُن کے مسائل کو نظر انداز کرکے عالمی برادری کو متاثر کرنے کی کوشش کی جائے تو دُکھ بھرے دِلوں میں کون سے خیالات اُبھریں گے؟ کیا وہ آنکھیں بند کرکے ووٹ دیتے رہیں گے؟ ریاستیں اِس طور تو نہیں چلا کرتیں۔ عوام کو بے وقوف سمجھنے والے حکمران اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں! بی جے پی نے ''ہندوتوا‘‘ کے نام پر دیش واسیوں کو ہمیشہ دھوکا دیا ہے اور اب بھی دے رہی ہے۔ عوام کی توجہ بُنیادی مسائل سے ہٹانے کے لیے بھارت، نیپال اور سری لنکا کو قُربانی کا بکرا بنایا جاتا رہا ہے۔ رائے گڑھ کے لوگوں نے بی جے پی کو آئینہ دکھایا ہے کہ ع
تُجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو
اگر مسائل حل کرنے پر توجہ نہ دی گئی تو خربوزوں کو دیکھ کر خربوزے رنگ پکڑ سکتے ہیں یعنی ریاستی (صوبائی) اور مرکزی انتخابات میں بھی لوگ سیاست کے نام پر تِگنی کا ناچ نچانے والوں پر اصل ناچنے گانے والوں کو ترجیح دے سکتے ہیں! نریندر مودی خط کو تار اور تھوڑے کو بہت سمجھیں اور اپنی پارٹی کو ''ہندوتوا‘‘ کی پٹڑی سے اُتار کر عوام کے ٹریک پر لائیں تاکہ آئندہ اُن کا کوئی بھی مہا ویر گرو انتخابی معرکے میں کسی خواجہ سَرا کے ہاتھوں خاک چاٹنے پر مجبور نہ ہو! چمکتا دمکتا بھارت یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ پہلے دِل کے شیشے سے دُھول ہٹائی جائے، زنگ دُور کیا جائے۔