تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     13-01-2015

سال کا آخری دن

جس روز مندرجہ ذیل سطور لکھی گئیں وہ گزرے ہوئے سال کا آخری دن تھا۔ کرسمس کی تعطیلات۔ لکھائی پڑھائی (اور وقفوں وقفوں میں تصورِ جاناں) کے لئے تقریباً دو ہفتے۔ نہ وقت کی پابندی اور نہ کوئی جنجال۔ رُسوم و قیود سے عارضی آزادی۔ بھورے رنگ کے بدمزاج آسمان سے روئی کے گالوں کی طرح گرتی ہوئی مدھم برفباری۔ پتوں سے محروم درختوں کی سرد ہوامیں لہراتی ہوئی شاخیں۔ دانے دنکے کی تلاش میں سرگرداں پرندے۔ گھروں کے صحن میں رزق کی تلاش میں (تارکین وطن کی طرح) مارے مارے پھرنے والے کبوتر۔ دُور دیس میں رہنے والے احباب سے فون پر رابطہ اور دوستانہ گرم جوش گفتگو۔ آتش دان میں جلتے ہوئے کوئلے اور ان سے بلند ہوتے دلفریب شعلے۔ گزرے ہوئے بارہ ماہ اور 365 دنوں کو مڑ کر دیکھنے اور آنے والے سال کا راہ تکنے کا دن۔ کچھ اُمیدیں، کچھ خواب ‘کچھ خوف‘ کچھ توقعات‘ کچھ وسوسے۔ اپنے اہل خانہ اور اہل وطن کے لئے نیک تمنائوں اور دُعائوں کے لمحات ۔ دماغ میں لگی ہوئی میزان یہ سوچنے میں مصروف کہ گزرے سال میں کیا کھویا،کیا پایا؟ کان میں ارشاد باری تعالیٰ کی صدائے بازگشت ‘تحقیق کہ انسان خسارہ میں ہے۔ عمر کا ایک اور سنگ میل آیا اور گزر گیا۔ اس سنگ میل پر لکھا ہوا نمبر پڑھا تو 78 لکھا تھا۔ 
پرانے لائل پور اور نئے فیصل آباد میں ساٹھ سال پہلے کالج میں میرے ایک ہم عصر کا نام آغا محمد سعید تھا۔ لائل پور سے سیالکوٹ جانے سے یہ رشتہ منقطع ہو گیا۔ جدائی کے تیرہ سال بعد میں بال بچوں کے ساتھ ہجرت کر کے برطانیہ آگیا۔ مانچسٹر میں پاکستان کے برعکس جون کا مہینہ (جب ہمارے ہاں گرمی عروج پر ہوتی ہے) برطانیہ میں اتنا خوشگوار ہوتا ہے کہ نیلا آسمان دیکھنے (جو یہاں نعمت شمار کیا جاتا ہے) اور کم درجہ حرارت کی چمکیلی دھوپ سینکنے کے لئے وسیع و عریض خوبصورت پارکوں کا رُخ کرتے ہیں ۔میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ وہ سیر اس لئے یادگار تھی کہ برطانیہ میں آمد کے بعد پہلی تھی۔ سب سے چھوٹا بچہ آٹھ ماہ کا تھا۔وہ اپنی ماں کی گودی میں تھا۔ ہمارے دو دُوسرے چھوٹے بچے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے، ہاتھ نہ آنے والی تتلیوں کے تعاقب میں۔ میر اکام اُن کا (تتلیوں کا نہیں بچوں کا)تعاقب کرنا تھا کہ وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائیں۔ نو واردان بساطِ برطانیہ نے پارک کی خوب سیرکی۔ جس کڑی اور جُھلسا دینے والی دھوپ سے بھاگ کر آئے تھے وہ یہاں بڑے اہتمام اور ذوق وشوق سے سینکی۔ بچوں کو تفریح(اور وہ بھی مفت) کا سارا دن مِلا۔میں نے برطانیہ میں پہلا اخبار خریدا۔ ایک بنچ پربیٹھا انہماک سے پڑھ رہا تھا کہ ایک آواز آئی کہ 'اگر آپ کا نام وہ ہے جو میں 1954 ء سے جانتا ہوں تو پھر اُٹھ کر ملیں۔ اگر میرا اندازہ غلط ہے تو پھر اخبار پڑھنا جاری رکھیں‘۔ پوچھنے والے کا اندازہ درست نکلا۔ لائل پور میں آغاسعید محض میرے واقف تھے۔ اب دوستی کا آغاز ہوا۔ مجھے اور میرے بال بچوں کو دیکھ کر وہ بصداصرار اپنے گھر لے گئے۔ اس محبت اور اپنائیت سے اتنے دن اور اتنی بار میزبانی کی کہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ سات سال مانچسٹر کے مضافات میں رہا۔ وہاں سے چلا آیا تو یہ رشتہ پھر منقطع ہو گیا۔ لندن کے مضافات میں تقریباًبیس سال رہنے کے بعد لندن منتقل ہوگیا۔ ایک دن ایک ادبی محفل (غالباً یوم اقبال تھا ) میں شریک ہوا تو میرے ساتھ والی کرسی پر آغا سعید بیٹھے تھے۔ اُنہوںنے اپنی لکھی ہوئی ایک نظم سنائی اور مجھے اپنا مجموعۂ کلام پیش کیا۔ہم دونوں نے ایک دوسرے کو جدائی کے سالوں میں بیتے ہوئے سارے اہم واقعات کا خلاصہ سنایا۔ دوستانہ مراسم کی رُ کی ہوئی گاڑی پھر چل پڑی۔ برُا ہو میری وکالت کی جان لیوا مصروفیت کا کہ میں خواہش کے باوجود انہیں بہت کم مل پاتا تھا۔ چند دن ہوئے ان کے ایک بچے کا اچانک فون آیا۔ اُس نے یہ المناک خبر سنائی کہ اُن کی والد بیمار ہوئے بغیر بالکل سکون سے دُنیا سے رخصت ہو گئے یعنی اب اس دُنیا میں اُن سے ملاقات کا امکان ختم ہو گیاہے ۔ آج میں اُن کے جنازہ میں شریک تھا۔ 2014 ء جاتے جاتے میرے ایک ہم دمِ دیرینہ کوساتھ لے گیا۔
آغا سعید اوّل درجہ کے دوست، دُوسرے درجہ کے باکسر اور تیسرے درجہ کے شاعر تھے۔ دُنیا میں شاید ہی اُن جیسا کوئی شخض ہو جو باکسنگ کرتا ہو اور ساتھ ہی ساتھ شعر بھی لکھتا ہو۔ وہ میرے اشتراکی خیالات کی صرف مذمت نہیں بلکہ پرُ زور مذمت کرتے ہوئے شعر لکھتے اور مجھے بڑے اہتمام سے سناتے تو میں اُنہیں باکسنگ پر زیادہ توجہ دینے کا مشو رہ دیتا۔ باکسنگ میں آغا سعید کا حریف اُن کے منہ پر مکے برساتا اور وہ سُوجے ہوئے چہرے کے ساتھ مجھے ملتے تو میں اُنہیں یہ بتانے سے ہر گز پرہیز نہ کرتا کہ قدرت نے اُنہیں نہ صرف میری دل آزاری بلکہ انسانی عقل کامنہ چڑانے کی بھی سزا دی ہے۔ اُنہوں نے میری اس بات کا کبھی برا نہ مانا اور ساری عمر میرے نظریات پر اپنا شاعرانہ لاٹھی چارج جاری رکھا، جو میں نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اب وہ اُس جگہ چلے گئے ہیں جو باکسنگ اور شاعری ہی نہیں، دُنیا کے تمام تفکرات ہنگاموں ،مشغلوں اور غم روزگار سے بھی بہت دُور ہے۔ 
31 دسمبر کا گارڈین اخبار پڑھنے کے لئے کھولا تو سب سے پہلے اندرونی صفحات پر نظر ڈالی ۔ دو جڑے ہوئے مضمون پر پھیلی ہوئی وہ تصویر کہ آپ دیکھ لیں تو نظر نہ ہٹا سکیں گے۔ عنوان تھا اسلام آباد اور حاشیہ میں لکھا ہوا تھا: قبائلی علاقہ کے ان لوگوں کے بچے جو اسلام آباد میں ایک مضافاتی کچی آبادی میں ہاتھ سے چلائے جانے والے چرخی نما پنگھوڑے میں پانچ روپے دے کر (جو برطانیہ کے تین پینی کے برابر ہوتے ہیں) پانچ منٹ گھومنے کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔ تصویر میں ایک طرف غیر پختہ گرد و غبار سے اٹی ہوئی گلی نظر آرہی ہے۔ گلی میں کھیلنے والے نصف درجن بچے۔ سر تا پا روایتی پردہ کئے ہوئے برقع پوش خاتون۔خستہ حال مکانوں کی قطار۔ پنگھوڑے پر بیٹھے ہوئے چار خوش و خرم بچے۔ سرجھکائے ہوئے کھڑی ہوئی مدقوق سی گائے ۔ پس منظر میں پنگھوڑا چلانے والے کے چہرہ کا ایک حصہ۔ دُکھوں کے سمندر میں خوشی کا ایک چھوٹا سا جزیرہ۔ یہ تصویر گارڈین نے اسلام آباد کے مضافات سے حاصل کی اور برطانیہ میں اپنے لاکھوں قارئین تک پہنچا دی۔ تصویر دیکھ کر خیال آتا ہے کہ غالباً ہم بطور قوم ایک پنگھوڑے پر بیٹھے ہیں۔ منیر نیازی نے لکھا تھا ع
گردش تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
گردش کا مطلب ہے ایک ہی جگہ کے چکر لگانا۔ لٹو کی طرح گھومنا۔ہم آگے بڑھنے کی بجائے ایک گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک دائرہ میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ کولہو کے بیل کی طرح۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہونے کی وجہ سے اس کا پتہ نہیں چلتا کہ ہم کتنے میل سفرکر چکے ہیں۔ ہم شام کو بھی اپنے آپ کو وہیں کھڑے پاتے ہیں جہاں ہم نے صبح کے وقت پہلا قدم اُٹھایا تھا۔ نہ خالص جمہوریت نہ خالص آمریت۔ نہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام (جہاں جاگیرداری کا نام و نشان مٹ چکا ہے) اور نہ وُہ فلاحی مملکت جس کا خواب اقبال اور قائداعظم نے دیکھا تھا۔ نہ بدترین تنگ نظری نہ بہترین روشن خیالی۔ بات بات پر اسلام کو قیام پاکستان کا جواز بنانے اور آئین کے احترام کا ذکر اور تکرار مگر قدم قدم پر اسلام اور آئین کی خلاف ورزی۔ غالب کی زبان میں ع
بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دین
نہ روشنی نہ اندھیرا۔ نہ ایمان نہ کفر۔ منافقت شیوہ بن چکی ہے، اور منزل اس لئے نہیں ملتی کہ سارا سفر ایک گول دائرہ میں ہو رہا ہے۔ ہم آگے بڑھیں تو کیونکر؟ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ نہ دُنیاوی زندگی بہتر ہوئی، نہ آخرت ہی سنوری۔ آپ یہ جملہ پڑھ کر تنگ آچکے ہوں گے۔ (ایک دفعہ ہمت کر کے پھر پڑھ لیں) 1947 ء تک ایک قوم تھی مگر ملک نہیںتھا۔ 1947 ء کے بعد اپنا ملک بن جانے کی نعمت عظمیٰ ملی تو قومی وجود اتنا برُی طرح منتشر ہوا کہ 1971 ء میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا اور جو بچ گیا اُس کا حال آپ کے سامنے ہے۔سیاست کی لُغت میں قوم کی تعریف ہے کہ افراد کا وہ مجموعہ جو یک جان و دو قالب ہوتے ہیں اور اُدھر ہم ہیں کہ ایک دُوسرے کی جان کے درپے ہیں۔ آیئے سال نو میں ہم مل کر عہد کریں کہ ہر وہ قدم اٹھائیں گے جس سے ہم پھر یک جان ہو جائیں۔ بقول اقبال ؎
مبتلائے درد کوئی عضو ہو‘ روتی ہے آنکھ 
ڈرون حملے وزیرستان پر ہوں تو کیا ہم اتنے ہی اشکبار ہوتے ہیں، جتنے پشاور میں معصوم بچوں کے قتل عام پر۔ہماری قوم کی دو بیٹیاں ہیں۔ ایک ملالہ یوسف زئی اور دُوسری عافیہ صدیقی۔ ایک کے سر پر گولی ماری گئی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بچ گئی اور نوبل امن انعام حاصل کیا۔ مگر دوسری بھی ہماری بچی ہے ۔وہ ہمیں کیوں بھول گئی؟ جسے امریکی فوجی پر گولی چلانے کا جھوٹا الزام عائد کر کے 86 سال کی قید تنہائی دی گئی۔ ہم اُسے نوبل امن انعام نہیں دلوا سکتے تو کم از کم بین الاقوامی قانون اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرف معاہدوں کے تحت پاکستان واپس تو لا سکتے ہیں۔ یہ کام اُس وقت ہوگا جب تمام سماجی تنظیمیں اور تمام سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر اس مطالبہ کی حمایت کریں گی۔ انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ہماری ایک بچی کو دُنیا کا سب سے بڑا امن انعام دیا گیا تو ہمارا سر فخر سے اونچا ہوا، مگر دوسری زیر عتاب بچی کو انصاف ملنا چاہیے۔ ایسا ہوا تو وہ زیادہ خوشی کا مقام ہوگا۔ پاکستانی قوم کوعزت و احترام اور متاع غرور کا جو انعام ملے گا وہ نوبل انعام سے کہیں زیادہ بڑا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved