تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-01-2015

سولہ دسمبر2014ء سے بارہ جنوری 2015ء تک

پاکستان میں تعلیمی ادارے تقریباً ایک ماہ بعد کھل رہے ہیں۔ سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں تقریباً ایک ماہ صرف اس لیے بند رہیں کہ دہشت گردی کا خطرہ تھا، دوبارہ حملوں کا اندیشہ تھا اور مزید معصوموں کی جان کا خوف لاحق تھا۔ اس ایک ماہ کے دوران عملی طور پر حکومت نے صفر جمع صفر کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ حقیقی طور پر اس خطرے سے نمٹنے کے لیے زبانی جمع خرچ اور ناقابل عمل احکامات کے سوااور کچھ نہیں ہوا۔ سرکار نے سوائے اپنا ملبہ اور ذمہ داری سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر ڈالنے کے ،اور کچھ نہیں کیا۔
میں پرسوں لاہور میں تھا اور نہر سے دھرمپورہ والے انڈر پاس سے بائیں مڑ کر ڈیوس روڈ پہنچنے کے لیے میو گارڈن اور ایچی سن کالج کی درمیانی سڑک پر مڑ گیا۔ یہ سڑک سندر داس روڈ کہلاتی ہے۔ میرے دائیں ہاتھ میو گارڈن تھا اور بائیں طرف ایچی سن کالج ۔ ایچی سن کالج کی پچھلی طرف کی بیرونی دیوار نئے حکم نامے کے مطابق بلند ہورہی تھی۔ نصف سے زائد دیوار مطلوبہ بلندی تک مکمل ہوچکی تھی اور اس کے اوپر خاردار تار لگائی جاچکی تھی بقیہ حصے پر تعمیر کا کام زور و شور سے جاری تھا۔ 1864ء میں چیفس کالج کے نام سے شروع ہونے والا یہ قدیم اور نامور ادارہ اپر مال، سندر داس روڈ ، ڈیوس روڈ کے درمیان دو سو ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر 1886ء میں اسے ایچی سن کالج کا نام دیاگیا۔ برصغیر کا یہ نامور تعلیمی ادارہ امرا کے بچوں کے لیے کبھی پہلی ترجیح ہوا کرتا تھا اور ہندوستان بھر کے راجے، نواب، جاگیردار، سردار اور زمیندار خصوصاً اپنے بچوں کو اس ادارے میں پڑھنے کے لیے بھجواتے تھے۔ تب یہ مکمل طور پر رہائشی تعلیمی ادارہ یعنی بورڈنگ ہائوس سکول تھاجو جونیئر کلاس سے شروع ہوکر کالج کی
سطح تک تھا۔ اب اس کا وہ مرتبہ نہیں رہا جو کبھی تھا۔ درمیان میں تو اس کے حالات خاصے دگرگوں ہوگئے تھے۔ ایک سابق گورنر پنجاب(زیادہ دور کی بات نہیں) جو بحیثیت عہدہ بورڈ آف گورنرز کا چیئرمین تھا، نے داخلے کے لیے کالج کی سیٹیں بیچیں۔ سنا تھا کہ گورنر نے ہر داخلے کے عوض پندرہ سے اٹھارہ لاکھ وصول کیے۔ اس نیک نام ادارے کی اس بدنامی پر بعد میں آنے والے گورنر مخدوم احمد محمود نے بورڈ آف گورنرز توڑ دیا۔ پرنسپل فارغ کردیا اور سابق پرنسپل شمیم سیف اللہ خان ،جو اپنی اصول پسندی کے باعث بہت سے حکمرانوں اور افسروں کے لیے ناقابل قبول تھے، کو واپس بلالیا۔ بعدازاں شمیم خان نے داخلوں میں سفارش، زور آوری اور مداخلت ماننے سے انکار کردیا اور موجودہ دور حکومت میں احتجاجاً گھر چلے گئے۔ انہیں اس یقین دہانی کے ساتھ واپس بلایاگیا کہ کالج کے انتظامی معاملات میں، خصوصاً داخلوں کے سلسلے میں کسی قسم کا کوئی دبائو یا سفارش نہیں کی جائے گی۔ شمیم خان واپس آگئے مگر موجودہ سیاسی حالات میں پاکستان میں میرٹ کا نام لینا اور چیز ہے اور میرٹ نبھانا بالکل مختلف چیز ہے۔ شمیم خان میرٹ کا آدمی تھا لہٰذا زیادہ دیر نہ چل سکا۔ اب کوئی عارضی پرنسپل اس قدیمی ادارے کا انتظامی سربراہ ہے۔
ایچی سن کالج کی بیرونی دیوار حکومتی احکامات کے مطابق اونچی کی جارہی تھی۔ یہ کالج امرا کے بچوں کا کالج ہے اور اسی حساب سے امیر ہے، لہٰذا اس کے لیے دیوار اونچی کروانا، خار دار تار لگوانا اور دیگر سکیورٹی انتظامات کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں تاہم دیگر تعلیمی اداروں کا عموماً اور سرکاری سکولوں کا خصوصاً بُرا حال ہے۔ صرف پنجاب کا حال دیکھیں تو ایک مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے۔ پنجاب میں تعلیم کا کل بجٹ بہتر ارب روپے کے لگ بھگ ہے، یعنی تعلیم کا سارے کا سارا بجٹ مع اساتذہ اور سٹاف کی تنخواہ وغیرہ۔ یہ بجٹ بذات خود پورے صوبے کے تعلیمی نظام کو چلانے کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ بے شمار سکول بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ ان گنت سکولوں کی بلند تو چھوڑیں دیواریں سرے سے موجود نہیں۔ اگر حکومتی احکامات اور گائیڈ لائن کو دیکھیں تو عجیب سی صورتحال نظر آتی ہے۔ ایک واک تھرو گیٹ کی قیمت ایک لاکھ پینتالیس ہزار سے لے کر دو لاکھ روپے تک ہے۔ اگر پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں (سرکاری) واک تھرو گیٹ لگائے جائیں تو اس کی لاگت تقریباً آٹھ ارب روپے بنتی ہے۔ جن سکولوں کی دیواریں موجود نہیں اگر وہ دیواریں بنائی جائیں تو اس کی لاگت تقریباً ساڑھے چار ارب روپے بنتی ہے۔ اگر موجودہ دیواریں بلند کی جائیں تو اس کا خرچہ اڑھائی ارب روپے سے زیادہ ہے۔ خار دار تاروں کا خرچہ بھی پونے دو ارب کے لگ بھگ ہے۔ یہ صرف موٹا موٹا خرچہ ہے۔ واک تھرو گیٹ کے علاوہ میٹل ڈی ٹیکٹروں کا خرچہ بھی تیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ صرف انہی چند خرچوں کا ٹوٹل سترہ ارب روپے سے زیادہ بنتا ہے جبکہ واک تھرو گیٹس اور میٹل ڈی ٹیکٹرز کو ہینڈل کرنے کے لیے سٹاف علیحدہ سے رکھا جائے گا جس کی تنخواہ وغیرہ ایک علیحدہ خرچہ ہے۔ ان سارے معاملات کی سالانہ Running Costایک بہت بڑا خرچہ ہے جو محکمہ تعلیم کے بجٹ سے خرچ کیاجائے تو حال یہ ہوگا کہ تعلیمی معاملات ،جو پہلے ہی دگرگوں ہیں ،مکمل تباہ ہوجائیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سترہ ارب روپے کے اس فوری خرچے کے مقابلے میں پنجاب حکومت نے جو کل بجٹ منظور کیا ، وہ محض دو ارب روپے ہے، یعنی ضرورت کا صرف پونے بارہ فیصد۔ اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کے منصوبوں اور عملی اقدامات میں کیا نسبت ہے۔
سندھ حکومت نے زیادہ جرأت مندی کا مظاہرہ کیا اور وزیر تعلیم نے صاف انکار کردیا ہے کہ ان کے پاس تو فنڈز ہی نہیں کہ وہ دیواریں بنوا سکیں یا بلند کروا سکیں۔ واک تھرو گیٹ لگوا سکیں یا اور بندوبست کرسکیں۔ اللہ اللہ خیرسلا۔ ایک مہینہ سکول بند رہے اور جب کھلے تو حالات وہی ہیں۔ سکیورٹی انتظامات اسی طرح ناگفتہ بہ ہیں۔ غریبوں کے بچے اسی طرح اللہ توکل سکول جائیں گے جس طرح وہ اس سانحے سے پہلے جاتے تھے۔ ہاں البتہ یہ ہوگا کہ امیروں کے سکولوں میں حفاظتی انتظامات بہتر ہوجائیں گے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ صرف کتابی حد تک درست ہوا ہے حقیقی بہتری سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ والد صاحب کی علالت کے سلسلے میں نشتر ہسپتال جاتا رہا۔ وارڈ نمبر سولہ اور انیس کے درمیان سائیڈ سے ایک دروازہ تھا جہاں سے لواحقین ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔ اس دروازے کے سامنے نیچے اترنے کے لیے ایک طرف ڈھلوان ہے جہاں سے سٹریچر یا ویل چیئر لائی جاسکتی ہے اور دوسری طرف سیڑھیاں ہیں۔ سیڑھیوں والی طرف ایک واک تھرو گیٹ ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص ڈھلوان سے آئے تو کوئی چیکنگ ممکن نہیں۔ رہ گئی بات سیڑھیوں والی طرف کی، تو وہاں لگا ہوا واک تھرو گیٹ نہ صرف یہ کہ خراب ہے بلکہ اس پر کوئی اہلکار بھی موجود نہیں یعنی جو مرضی آئے جائے نہ کوئی نگرانی ہے اور نہ کوئی نگرانی کرنے والا۔ سانحہ ہوتا ہے، ہم وقتی بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور محض دو چار دن بعد معاملات اسی پرانی ڈگر پر آجاتے ہیں، تاوقتیکہ کوئی نیا سانحہ رونما نہ ہوجائے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں ایک سال کے اندر روڈ ایکسیڈنٹ میں جل کر مرنے والوں کی تعداد اتنی نہیں بنتی جتنے لوگ ہمارے ہاں صرف ڈیڑھ ماہ میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔ انکوائریاں ، کاغذی کارروائیاں اور ختم شد۔
ہمارے ہاں ہر سانحے سے ایک نفع بخش کاروبار برآمد ہوتا ہے۔ افسروں نے پیسے پکڑ کر دس پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیوں کو لوٹنے کا ٹھیکہ دے دیا ہے۔ اب پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی انہی دس ایجنسیوں سے سکیورٹی گارڈ لینے کے پابند ہیں۔ پہلے جو گارڈ آٹھ ہزار روپے میں ملتا تھا اب پندرہ ہزار میں ملتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ گارڈ بے چارے کو وہی پرانی تنخواہ ملتی ہے باقی سارا نفع مالکان اور افسران کی جیب میں جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved