تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     13-01-2015

بصیرت اور دیانت کا امتحان

عمران خان 18 جنوری سے ،مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر ہوںگے۔مو لانا فضل الرحمٰن پہلے ہی مدارس کے دفاع میں دھرنے کا اعلان فرما چکے۔جماعت اسلامی کا فیصلہ ہے کہ وہ سماج کو سیکولر بنانے کی کوششوں میں مزاحم ہوگی۔ معلوم ہواکہ اہلِ سیاست کی جس بصیرت کے ہم نے گیت گائے،وہ تو چند گھنٹوں کی مہمان تھی۔سب کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں اوروہ ہر کسی کے لیے قومی مفاد اور سماجی امن پر مقدم ہیں۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے :کیا آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ گزشتہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے؟کیامدارس کا معاملہ اس ملک کے عام شہریوں کی جان و مال سے زیادہ قیمتی ہے؟کیا اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے سیکولر ہونے سے بچا یا جائے؟اگر پاکستان حالت ِ جنگ میں ہے تو جنگ میں کیاگروہی مفادترجیح ہوتا ہے؟چند روزپہلے، اس ملک کی سیاسی قیادت نے جس یک جہتی کا اظہار کیا ،کیاوہ ایک ڈرامہ تھا؟ سیاست اختلاف میں اتفاق تلاش کرنا ہے یا اتفاق میں افتراق پیداکرنا؟
ماضی میں ہم بصیرت کے اعتبار سے شاید کہیں بہتر جگہ پر کھڑے تھے۔1965ء کی جنگ ہوئی تو قوم سیاسی انتشار کا شکار تھی۔ملک میں آ مریت اور جمہوریت کامعرکہ برپا تھا۔اہلِ سیاست کی اکثریت ایوب خان کو ناجائز حکمران سمجھتی تھی۔اس کے با وصف،پاکستان پر جنگ مسلط ہوئی تو اسی ایوب خان کی قیادت میں قوم یک زبان تھی۔1972ء میں بھٹو صاحب شملہ مذاکرات کے لیے جانے لگے تو سیاسی انتشار عروج پر تھا۔اس کے باوجودحزب اختلاف کے سب راہنما،انہیں الوداع کہنے کے لیے ایئر پورٹ پر جمع تھے۔ بھارت کو پیغام دے دیا گیا کہ بھٹو صاحب ہی اس وقت پاکستانی قوم کے نمائندہ ہیں۔1979ء میں جنرل ضیا الحق پاکستان کے حکمران تھے۔ جمعیت علمائے اسلام انہیں ناجائز حکمران سمجھتی تھی اور جماعت اسلامی بھی ان کے خلاف آواز اٹھانے لگی تھی۔اسی دوران افغانستان پر سوویت یونین چڑھ دوڑا۔ حکومت کا موقف تھا کہ پاکستان خطرات میں گھر گیا ہے اورہمیں دفاعِ پاکستان کی جنگ افغانستان میں لڑنا ہوگی۔اہلِ دیوبند اور جماعت اسلامی نے اس موقف کو درست سمجھا تواختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، ضیاالحق صاحب کے دست و بازو بن گئے۔
آج پاکستان کو بھارت اور سوویت یونین سے زیادہ بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ بھارت کھلا دشمن ہے لیکن خارج میں ہے۔دہشت گردی اس سماج کے رگ و پے میں سرایت کر چکی۔ہمارے فوجی جوانوں نے اس دشمن کے خلاف جانوں کا جو نذرانہ پیش کیا،وہ بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔بھارت کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ جی ایچ کیو کو ہدف بنائے،دہشت گرد لیکن اسے نشانہ بنا چکے۔عام شہری مسلسل مر رہے ہیں۔یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔کسی جنگ میں پاکستانی اتنی بڑی تعداد میں نہیں مرے۔سماج خوف کی نہ ختم ہونے لہرکی گرفت میں ہے۔جنگ میں ایسا خوف نہیں ہو تا بلکہ وہ ولولہ اور جوش پیدا کرتی ہے۔دہشت گردی کے ہاتھوں معیشت برباد ہو چکی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام اور سماج دونوں کو شدید نقصان پہنچا۔ کسی جنگ میں یہ کبھی نہیں ہوا۔
ان حالات میں بصیرت اور قومی مفادکا تقاضا کیاہے؟ نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ پہلی ترجیح بنے یا حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جائے؟مدارس کا دفاع کیا جائے یا پاکستان کا؟سیکولر طبقے کے خلاف لڑا جائے یاقوم کو نظریاتی اختلاف سے اٹھا کر درپیش معرکہ کے لیے یکسو کیا جائے؟ان سوالات کے ساتھ،ایک اور سوال یہ ہے کہ حکومت قومی یک جہتی کے لیے کیا کررہی ہے؟ پرویز رشید صاحب جیسا مہذب آ دمی کس بحث میں الجھ گیا؟ کیا اس وقت انتخابی دھاندلی کے معاملے پر مناظرہ کرنا ضروری ہے؟ کمیشن نے اگر ان کے موقف کی تائید کی ہے تو میڈیا کی معرفت قوم اس سے باخبر ہو جائے گی۔انہیں پریس کانفرنس کر نے کیا ضرورت تھی؟حکومت کو تو جوڑنے کی بات کر نی چاہیے۔کمیشن کے قیام کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔دینی مدارس کے ذمہ داران سے سنجیدہ مذاکرات کر نے چاہییں۔اگر کوئی مخالفانہ بیان دے تو اس وقت صرفِ نظر کرنا چاہیے۔سیاسی بصیرت کے معاملے میں، افسوس کہ حکومت بھی بہتر مثال پیش نہیں کر سکی۔
یہ فرد ہو یا قوم، لازم ہے کہ زندگی کو ترجیحات کے تابع کیا جائے۔امن سے بڑھ کر آج پاکستان کی کوئی دوسری ترجیح نہیں ہو سکتی۔سماج مسلسل بدامنی کی گرفت میں ہے۔بچوں کو سکول بھیجنا مشکل ہو رہا ہے۔سڑکوں پر جگہ جگہ رکاوٹیں ہیں۔اندرونِ شہرپندرہ منٹ کا سفرایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔عبادت گاہیں غیر محفوظ ہیں۔معیشت کا خسارہ اس کے علاوہ ہے۔کیسی کوتاہ نظری ہے کہ اس موقع پر قومی قیادت کی ترجیح کوئی اور ہو۔کینسرکا مریض اگر اس مرض سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نزلے کے لیے پریشان ہو تو اسے کیا کہیں گے؟غصے کا اظہار کریں گے، افسوس کایا پھر دونوں کا؟
تجربات نے ہمیں بڑی حد تک یک سو کر دیاہے۔آج فوج اور حکومت کا نقطہ نظر ایک ہے۔ریاستی اداروں پر جواعتراضات اٹھتے تھے،وہ اب ختم ہو گئے ہیں۔اس بات پر اتفاق پیدا ہو گیا ہے کہ ہتھیار اٹھانا ریاستی اداروں ہی کا کام ہے اورعسکری گروہوں کی تشکیل قومی مفاد میں نہیں ہے،چاہے انہیں قومی مفادہی کے نام پرتخلیق کیا جائے۔یہ تجربہ بری طرح ناکام ثابت ہوا وراس سے گریز ہی میں خیر ہے۔ اندازہ یہی ہو تا ہے کہ ہم پینتیس سال سے اختیار کردہ حکمتِ عملی کے حصار سے نکل رہے ہیں۔اگر یہ تاثر درست ہے تو یہ 1979ء کے بعد، ملک میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی ہے۔اس سے بڑھ کر بے بصیرتی کوئی نہیں ہو سکتی کہ ہم گروہی مفادات کے لیے اس وحدتِ فکر کو گنوا دیں۔اس کو بر قرار رکھناہی قومی سلامتی کی ضمانت ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ تحریکِ انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے موقف میں کوئی وزن نہیں۔ ہوگا ، لیکن وہ اس وقت کسی منطق سے ترجیح نہیں بن سکتا۔ہمارے ہاں الفاظ کا سوئے استعمال بھی اب ایک فیشن بن چکا۔اخباری کالموں سے اٹھنے والی اس بدعت نے اب اہلِ سیاست کے ارشادات میں بھی جگہ بنالی ہے۔ جیسے کہا جارہا ہے کہ معاشی دہشت گردی سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لکھا جاتا تھا کہ غربت بھی فحاشی ہے۔یہ محض ذہنی الجھاؤپیدا کر نے کی ایک کوشش ہے۔دہشت گردی، معاشی استحصال اور فحاشی الگ الگ خرابیاں ہیں اور لوگوں پر ان کا مفہوم واضح ہے ۔ جب ہم غربت کو فحاشی کہتے ہیں توفحاشی کے شناعت کم کردیتے ہیں۔اسی طرح جب معاشی استحصال کو دہشت گردی کی ایک قسم بناتے ہیںتودہشت گردی کی سنگینی کوکم کردیتے ہیں۔دہشت گردی، دہشت گردی ہے اور ہر آدمی جانتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے۔
آج ایک مدت کے بعد قوم میں یہ وحدتِ فکر پیدا ہو نے جارہی ہے کہ دہشت گردی اس ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، بھارت سے بھی بڑا۔ضرورت ہے کہ اس وحدت کو مستحکم کیا جائے۔ اس کے خلاف جو بیانیہ موجود ہے،اس کو کمزور کیا جائے۔مذہب کے نام پر دہشت گردی کو اس وجہ سے سہارا نہ دیا جائے کہ دہشت گردی کی دوسری وجوہ بھی تو ہیں۔غربت، دھاندلی، سیکولرازم، معاشی استحصال کے خلاف ضرور لڑیے لیکن یہ سوچ کر کہ قومی ترجیحات میں آج ان کی جگہ کہاں ہے۔یہ قومی قیادت کی بصیرت کا امتحان ہے اور دیانت کا بھی۔بصیرت نہ ہو یا دیانت کی کمی ہو تو فرد ہو یا جماعت،قیادت کا استحقاق کھو دیتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved