یہ کتاب سرگودھا یونیورسٹی سرگودھا نے شائع کی ہے جس کے تزئین کار مثال پبلشر فیصل آباد اور مصنف عبدالعزیز ملک ہیں۔ کتاب کی قیمت 500روپے رکھی گئی ہے۔ اس میں اردو کے چار معروف افسانہ نگاروں انتظار حسین ، نیر مسعود ، اسد محمد خاں اور منشا یاد کے افسانوں کا جادوئی حقیقت نگاری کے حوالے سے جائزہ لیاگیا ہے۔ مصنف کے مطابق جادوئی حقیقت نگاری ایک ایسی تکنیک ہے اور مواد کو پیش کرنے کا ایک انداز ہے جس میں غیر حقیقی کو حقیقی اور حقیقی کو غیر حقیقی بنا کر تازگی کے عنصر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے پیش روئوں کے طور پر گارشیا مارکیز، الیخوکاریپین ٹیئر اور اوسلو پیٹری وغیرہ شامل ہیں اور یہ کتاب ڈاکٹر سید عامر سہیل شعبہ اردو یونیورسٹی ہٰذا کی خصوصی نگرانی اور رہنمائی میں تحریر کی گئی ہے۔
افسانے میں سے کہانی کو منہا کرنے کے سلسلے میں تجریدی افسانہ کی مہم بطور خاص قابل ذکر ہے جس کے علم برداروں میں رشید امجد ، ڈاکٹر انور سجاد اور دیگران شامل ہیں اور ابھی افسانے سے یہ فلسفہ پوری طرح ناپید نہ ہوا تھا کہ جادوئی حقیقت نگاری کو ایک الگ پیرائے کے طور پر دریافت کر لیاگیا۔ رمزیت اور پیچیدہ بیانی شاعری اور نثر میں ایک لازمی لاحقے کے طور پر موجود رہی ہے، لیکن نظم ہو یا کہانی، قاری بنیادی طور پر ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہی اس طرف رخ کرتا ہے لیکن اگر کہانی یا نظم کو باقاعدہ ایک چیستان اور گورکھ دھندہ بنادیاجائے تو یہ صرف نقادوں کے استعمال اور استفادے کی چیز ہوکر رہ جاتی ہے، جبکہ اس پیچیدہ بیانی کے اپنے حدود و قیود ہوتے ہیں، مثلاً یہ کہ تحریر میں اس کا تناسب کیا ہے یعنی ایک مناسب یا باقاعدہ قاری کے لیے ایک معمہ اور تھکا دینے والی تحریر ہوکر نہ رہ جائے اور نہ ہی قاری کو یہ احساس ہو کہ اسے بے وقوف بنایا جارہا ہے یا سراسر ایک آئوٹ آف کورس پرچے کو حل کرنے کے لیے اس کا امتحان لیا جارہا ہے۔ نیز یہ کہ قاری کو وہ لطفِ مطالعہ بھی مہیا کرے اور ساتھ ساتھ قائل بھی کرتی جائے۔ یہ لوازمات کم از کم منشایاد کی تحریروں کی حد تک دستیاب نہیں ہیں۔ ثقہ اور سکہ بند نقاد حضرات کی تعریف و توصیف اپنی جگہ میں ایک غیر نقاد اور قاری کی حیثیت سے اس سے مایوس ہوا ہوں۔ منشا یاد کے افسانوں میں سے چند اقتباسات دیکھیے:
'' ہم جلدی جلد چائے پی لیتے ہیں، پھر ایک دوسرے کے منہ پر تھوکنے لگتے ہیں، پھر جب ہماری باتوں کی کالک سے ہوٹل کی چھت اور دیواریں سیاہ ہوجاتی ہیں اور ہماری میز اور ہوٹل کے بیرے کے درمیان اندھیرا ہوجاتا ہے تو ہم اپنی اپنی زبانوں سے اپنے اپنے چہروں سے تھوک چاٹنے لگتے ہیں۔ تھوک چاٹتے چاٹتے ہم ایک دوسرے سے نظریں بچا کر اندھیرے میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ ہم میں سے وہ جو پیچھے رہ جاتا ہے وہ چائے کا بل ادا کرنے سے پہلے دوسرے کی قریب ترین خاتون کی بے حرمتی کرتا ہے‘‘۔
''میرا جسم چھلنی ہوجاتا ہے اور میرے جسم سے خون کے فوارے نکلنے لگتے ہیں۔ خوبصورت عورت چہرے سے خوبصورتی کا ماسک اتارتی ہے ، اس کے لمبے دانت اور مکروہ صورت دیکھ کر میں بے ہوش ہوجاتا ہوں۔ جب مجھے ہوش آتا ہے تو میری ہڈیاں ننگی ہوتی ہیں۔ انسانی گوشت کے جلنے کی بو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔ قریب ہی میری کھال رکھی ہوتی ہے جس میں جا بجا سوراخ ہیں۔ میں اپنی کھال اٹھا کے اوڑھ لیتا ہوں اور بھاگتا ہوا واپس آجاتا ہوں ‘‘
''کیا دیکھتا ہے کہ ٹوکے سے اس کی ہڈیاں کاٹی جارہی ہیں اور تیز چھرے سے اس کی بوٹیاں چیری جارہی ہیں ، قریب ہی ایک لڑکا بیٹھا پیاز کتر رہا ہے۔ میں اپنی بوٹیوں کو ٹٹول کر دیکھتا ہوں یہ چانپ ہے ، یہ گردن ہے اور یہ پٹھ ‘‘۔
اسد محمد خان کی جادوئی حقیقت نگاری بھی منشا یاد سے کچھ زیادہ مختلف نہیں :
''انہوں نے ایک نیزہ میرے بھائی کی آنکھ میں اتار دیا جو اس کے کاسۂ سر کو توڑ کر پشت پر نکل آیا اور بہت بد صورت دکھائی دیتا ہے۔ سروں میں اس طرح نیزے کھب جائیں تو لوگ ٹوپیاں کس طرح اوڑھ سکتے ہیں اور لوگ سو کس طرح سکتے ہیں ۔ سو، اس دن سے میرا بھائی ننگے سرگھومنے پر مجبور ہے ‘‘۔
'' رومت، ٹھیک ہے۔ انہوں نے سر اڑا دیا ہے اور میں اپنے بازوئوں کو بھی اپنے شانوں سے الگ ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں (کوئی چیز تھپ کی آواز سے گرتی ہے) یہ میرے دونوں بازو گرگئے۔ الگ ہوگئے شانوں سے۔اب زمین پر پڑے جلتی مٹی کے ساتھ معدوم ہورہے ہیں، شاید ہی بچیں... میں دیکھ رہا ہوں دونوں کو کہنیوں تک آگ نے چاٹ لیا (غیر انسانی ہنسی سنتا ہے) میں اب زیادہ قریب سے دیکھ سکتا ہوں کیونکہ رانوں تک تو ختم ہوگیا... اب اپنے بیچ سے شروع ہوتا ہوں (ہنسی)زمین کو زیادہ قریب سے دیکھنے کی سہولت مل گئی ہے‘‘۔
ان کے برعکس انتظار حسین کے ہاں اسا طیری ذائقہ ضرور ساتھ ساتھ ملتا ہے اور ایک قدرتی حیرت:
'' خاک شفا کی تسبیح جس کے دانے عاشورہ کو سرخ پڑ جایا کرتے تھے وہ بھی اسی خانہ میں پڑی تھی۔ آج جب انہوں نے پاندان کھولا، کیا دیکھتی ہیں کہ تسبیح کے دانے سرخ ہوگئے ہیں‘‘
'' لوجی، پیڑوں سے نیچے گیا ہوں کہ اوپر سے دھم سے ایک مسٹنڈا نیچے کود پڑا۔ میں نے کہا بے یٰسین آج ڈاکو سے ٹکر ہوگئی، ہوجائیں ذرا دو دو ہاتھ ۔ میں جوانی کی ٹر میں تھا۔ تانگہ سے کود اس سے لپٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ لمبا ہورہا ہے۔ میں حیران کہ یہ کیا چکر ہے، لمبا ہوتے ہوتے اس کا سر درخت کی سب سے اوپر والی پھننگ سے جا لگا اور میں اس کی ٹانگوں سے لپٹا رہ گیا اور ٹانگیں اس کی بکرے کی تھیں‘‘۔
نیر مسعود بھی تقریباً نارمل رہتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:
'' میں چاہتا ہوں کہ پڑھنے والے کو کہانی اچھی معلوم ہو۔ میری ایسی کوئی بالکل خواہش نہیں کہ اس کے ذہن کو الجھایا جائے ، مگر کسی بات کو بالکل واضح کرکے لکھنا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ یعنی کوئی چیزلائوڈ نہیں ہونا چاہیے ‘‘
'' ایک خواب کی تعبیر کا سفر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سید عامر سہیل نے دیباچہ لکھا ہے جبکہ حرف آغاز کے عنوان سے مصنف کی تحریر ہے، اس کے بعد جادوئی حقیقت نگاری ، پس منظر، بنیادی مباحث اور نمائندہ لکھاری کے عنوان سے باب ہے اور اس کے بعد مذکورہ افسانہ نگاروں کا اس حوالے سے جائزہ لیاگیا ہے۔
آج کا مقطع
ظفرؔ‘ کمرے میں کیسے روشنی ہو
اگر کھولو نہ روشن دان سارا