تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     14-01-2015

اسلام کے نام پر

پاک امریکہ دوستی بھی اپنی طرز کی انوکھی چیز ہے۔ ہمیں بربادی کے آلات اور صلاحیتیں مہیا کرنے کے لئے تو‘ اربوں ڈالر کسی شرط کے بغیر دے دیئے جاتے ہیں اور اب ہم اپنے تباہ شدہ علاقوں سے بے گھر ہونے والے‘ ایک ملین سے زیادہ افراد کی آبادکاری شروع کرنا چاہتے ہیں‘ تو مہمان وزیرخارجہ نے کمال فراخ دلی سے 25کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ فرما دیا ہے۔ کیا دوستی ہے؟ کیا خلوص ہے؟ جب ہمیں اپنے وطن اور پڑوسی افغانستان میں‘ تباہ کاری کا کھیل کھیلنا تھا‘ تو امریکہ نے ہمیں بغیرکسی شرط کے 20 ارب ڈالر دے ڈالے اور اب ہم امن کی طرف جانا چاہتے ہیں‘ تو ہمیں بے گھروں کی آبادکاری کے لئے 25کروڑ ڈالر کا تحفہ عطا فرمایا جاتا ہے‘ جبکہ ہمارے ایک مشیر نے‘ جو بوقت ضرورت کبھی وزیرخارجہ کا کردار ادا کر دیتے ہیں اور کبھی وزیردفاع کا‘ امریکی مہمان کی خدمت میں حق میزبانی ادا کرتے ہوئے‘ جو تقریر پیش کی‘ اس میں بے گھر ہونے والے 10لاکھ افراد کی آبادکاری کے لئے صرف ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر مانگے تھے۔ جواب میں 25کروڑ ڈالر کا اعلان کر دیا گیا اور دعوے کئے جا رہے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات دوبارہ بحال ہو گئے ہیں‘ امریکہ اب ہمیں ہر طرح کی حمایت اور امداد دے گا‘ جبکہ امریکہ نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ گھسے پٹے سفارتی جملے‘ گھسے پٹے انداز میں ادا کر کے‘ جان کیری صاحب واپس چلے گئے۔ البتہ ہمیں انہوں نے وہی کچھ سمجھانے کی کوشش کی‘ جو نریندرمودی سمجھانا چاہتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ فائربندی لائن پر‘ بھارت کی مسلسل جارحانہ وارداتوں کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنا مناسب نہ سمجھا‘ جس میں پاکستانی شکایت کے لئے گنجائش رکھی گئی ہو۔اس کے باوجود‘ ہمارے ارباب اقتدار اور ان کے حواری یہ سمجھتے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات بحال ہو چکے ہیں اور جو پارٹنرشپ‘ چند سال پہلے سے جاری تھی‘ وہ بحال ہو گئی ہے۔ کاش! ایسا ہوتا؟ مگر ایسا کیوں ہوتا؟ 
جان کیری کے بستے میں تو ورلڈ بینک کی وہ مبینہ رپورٹ موجود تھی‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ ''اگر پاکستان میں 2015ء کے اندر انتخابات نہ ہوئے‘ تواس ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘ جان کیری کے بیگ میں ہمارے لئے کیا کیا تھا؟ اس کی جھلکیاں ان کی پاکستان آمد سے پہلے ہی دکھائی دینے لگی تھیں۔ جیسے طوفان کی نشانیاں‘ اس کے آنے سے پہلے ظاہرہونے لگتی ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد‘ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے دہشت گردی کے خاتمے پر نہ صرف اتفاق رائے کیابلکہ ایک واضح منصوبے پرعملدرآمد کے لئے اتفاق کر لیا۔ اس کے بعد جب تمام سیاسی جماعتوں سے کہا گیا کہ طے شدہ ایجنڈے کے تحت جو آئینی اور قانونی تقاضے ہیں‘ انہیں پورا کیا جائے‘ تو متعدد جماعتوں نے حیلے بہانے سے کھسکنا شروع کر دیا۔ پاکستان میں موسم کی تبدیلی کا حال دیکھنا ہو‘ تو سب کی نظریں ہمیشہ مولانا فضل الرحمن کی طرف جاتی ہیں۔ 20نکاتی ایجنڈے پر‘ جس میں دہشت گرد کی مذہبی پہچان موجود تھی‘ نہ صرف مولانا فضل الرحمن نے بھرپور دلائل کے ساتھ اتفاق کیابلکہ آخر میں کامیابی کے لئے دعا بھی فرمائی۔ دوسرے اور تیسرے اجلاس تک مولانا کا جذبہ جہاد تازہ دم رہا اور جب آئینی ترمیم کا نام آیا‘ تو اچانک مولانا صاحب پر انکشاف ہوا کہ دہشت گرد کے ساتھ مذہب کا حوالہ کیوں دیا گیا ہے؟ جماعت اسلامی غالباً پہلے ہی مکرنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی۔ مولانا کا اشارہ پاتے ہی‘ جماعت نے بھی مولانا کا ساتھ دیا اور اس طرح آئینی ترمیم کو متفقہ ہونے سے ''بچا لیا‘‘۔شاید ایسے ہی موقع کے لئے علامہ اقبالؒ نے لکھا تھا کہ ''دین ملا فی سبیل اللہ فساد۔‘‘ 
پاکستانی قوم کے المیوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے‘ تو آپ کو ہر مرحلے پر ملائوں کا عمل دخل ضرور نظر آئے گا۔ ہمارے پہلے آئین کی تیاری میں‘ سب سے زیادہ رکاوٹیں مذہبی سیاستدانوں نے ڈالی تھیں۔ اس کے بعد پاکستان اس وقت تک اپنا آئین بنانے کے قابل نہ ہو سکا‘ جب تک مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ نہ ہو گیا‘ ہمارے پاس کوئی متفقہ آئین نہیں تھا۔ مہربانی کس کی تھی؟ ملائوں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انتہائی نامساعد حالات میں‘ متفقہ آئین بنانے میں کامیابی حاصل کی‘ تو تھوڑے ہی عرصے میں ملائوں نے‘ ایک اقلیت کے حقوق سلب کرنے کے لئے بھٹو صاحب کو احتجاجی تحریک کی دھمکی دے دی۔ بھٹو صاحب نے دبائو میں آ کر‘ ملائوں کے مطالبات مان لئے۔ لیکن کیا ملائوں نے انہیں معاف کر دیا؟جی نہیں! بھٹو صاحب کو معافی پھر بھی نہ ملی۔ جیسے ہی انتخابی مہم کا اعلان ہوا‘ ملائوں نے پاکستان قومی اتحاد بنا کر‘ اس وقت کے فوجی سربراہ‘ ضیاالحق کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا‘ جب تک بھٹو صاحب کو پھانسی کے تختے پر نہیں چڑھا دیا گیا۔ یہاںپر یہ بھی یاد دلا دوں کہ مشرقی پاکستان کو علیحدگی کا راستہ اختیار کرنے پر کس نے مجبور کیا؟ 1970ء کے انتخابات ‘ جنرل یحییٰ خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت میں منعقد کرائے‘ لیکن یحییٰ خان کی بدنیتی یہ تھی کہ انتخابی نتائج جو بھی ہوتے‘ وہ اقتدار چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ جماعت اسلامی نے یحییٰ خان کو بہت فریب دیئے کہ وہ اس کے بنائے ہوئے ایجنڈے کے تحت انتخابات منعقد کرائیں۔ جماعتیوں نے یحییٰ خان کو اقتدار کے ایسے ایسے سبز باغ دکھائے کہ اس نے عام انتخابات کا اعلان کر دیا اور وہ اسی غلط فہمی میں رہا کہ انتخابات کے نتیجے میں‘ منقسم مینڈیٹ آئے گااور وہ سیاسی پارٹیوں سے کھیلتا ہوا‘ اپنے اقتدار کو طول دے دے گا۔ اگر آپ اس زمانے میں‘ جماعت اسلامی کے میڈیا کے ماہرین کی رپورٹیں پڑھیں‘ تو جماعت اسلامی کے تجزیوں کے مطابق مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کو قومی اسمبلی کی صرف 40نشستیں ملنا تھیں جبکہ باقی نشستوں پر جماعت اسلامی اور اس کے حواری کامیاب ہونے جا رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں ''جماعتی‘‘ تجزیوں میںپیپلزپارٹی کا برا حال بتایا جاتا تھا۔جماعتیوں کے پریس میں‘ بھٹو صاحب کی متوقع نشستوں کی تعداد 15 اور 20 سے زیادہ نہیں رکھی جاتی تھی‘ لیکن جب عام انتخابات ہوئے تو جن جماعتوں کو‘ جماعت اسلامی نے شکست دینے کے دعوے کر رکھے تھے‘ وہی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو کر آ گئیں۔ لیکن داد دینا پڑتی ہے ملائوں کو کہ انہوں نے اتنی واضح شکست کے باوجود یحییٰ خان کو گھیر لیا۔ مجیب کو قید کر لیا گیا۔ بھٹو صاحب کو مقبول لیڈر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا اور پھر قوم نے یہ معجزہ بھی دیکھا کہ یحییٰ خان نے بغیر کسی مینڈیٹ کے تن تنہا‘اپنا ہی بنایا ہوا ایک آئین نافذ کرنے کا اعلان کر دیا اور آمر کے اس اعلان کے ساتھ ہی‘ اس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد نے‘آمر کے بنائے ہوئے آئین کو اسلامی ہونے کی سند بھی عطا کر دی۔ مگر عوامی جدوجہد بہت آگے نکل چکی تھی۔ یحییٰ خان کو ملک کے دونوں حصوں میں‘ حمایت سے محروم ہونا پڑا اور ملائوں نے جمہوریت دشمنوں سے گٹھ جوڑ کر کے‘ یحییٰ خان کو مضبوط کرنے کی جو سازش کی تھی‘ وہ کسی کام نہ آئی۔ ملک دو لخت ہو گیا۔بھارتیوں کا دیرینہ خواب پورا ہوا۔ 
ذوالفقار علی بھٹو نے شکست خوردہ ملک کو سنبھال کر‘ ریاست کے شکستہ ٹکڑوں کو یکجا کر کے‘ دوبارہ قابل عمل بنا دیا۔ اس کے بارے میں بھٹو صاحب خود کہتے تھے کہ ''میں نے ٹکڑے جمع کر کے‘ نیا پاکستان کھڑا کر دیا۔‘‘ بھٹو صاحب نے عوام کی مدد سے‘ پاکستانی ریاست کو پہلی بار ایک سمت دی۔ پہلی بار آئین دیا۔ پہلی بار مظلوم ہاریوں اور مزدوروں کے حق میں اصلاحات کیں اور دنیا کو باور کرا دیا کہ نصف حصے سے محروم ہونے باوجود بھی‘ پاکستان ایک قابل عمل ملک ہے۔ لیکن ملائوں نے سازشیں کرنے کی عادت نہ چھوڑی۔ انہوں نے ضیاالحق کو گھیر کے‘ ایک بار پھربھٹو اور آئین کے خلاف سازش کی۔ ضیاالحق کو شہہ دے کر‘آئین معطل کرا دیا۔ ملک میں مارشل لا نافذ کرایا اور تب تک سانس نہ لی‘ جب تک بھٹو کو پھانسی نہ لگوا دیا۔ 
یہ دردناک کہانی آگے بڑھتی رہی۔ افغانستان میں داخلی انقلاب آیا‘ توملائوں نے‘ جو ان دنوں امریکیوں کے چہیتے تھے‘ ضیاالحق کو افغانستان میں امریکی سازشوں کا حصہ بننے پر تیار کر لیا۔ کہانی بہت طویل ہے۔ اسے چند الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کروں گا۔بھٹو کے بعد ملک میں جب بھی استحکام پیدا ہوتا دکھائی دیا‘ ملائوں نے کوئی نہ کوئی چکر چلا کر‘ عدم استحکام پیدا کر دیا۔ اس کے بعد ہم کئی المیوں سے گزرے اور بے حساب تباہی و بربادی کے بعد‘ ضرب عضب تک پہنچے۔ دہشت گردوں نے 16دسمبر کوپاکستانی عوام کے کلیجے پر ہاتھ ڈال کر‘ ہمیں بے جان کرنے کی کوشش کی‘ تو فوج اور سیاستدان ایک ہو کرملک کو تباہی سے بچانے کے لئے پُرعزم ہو گئے۔ ملائوں نے تین کل جماعتی کانفرنسوں میں مرتب کئے گئے 20نکات پر اتفاق رائے کر لیا‘ لیکن آئینی ترمیم کا وقت آیا‘ تو فوراً لاتعلق ہو گئے۔ وہ تمام دہشت گرد اور تخریب کار‘ جو کسی نہ کسی وسیلے سے ملائوں کے حمایت یافتہ ہیں‘ اپنی ہی قوم میں ایک بار پھر‘ اپنا روایتی کردار ادا کرتے ہوئے تفرقہ پیدا کر رہے ہیں اور جتنی طاقت اور توانائی کے ساتھ قومی وحدت میں رخنے ڈالنے کے لئے کوشاں ہیں‘ مجھے تو اس سے یہ لگتا ہے کہ امریکہ‘ پاکستان کو عدم استحکام میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ اسے ملائوں کی درپردہ حمایت حاصل ہے اور وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ دہشت گردوں نے جب طاقت حاصل کر لی‘ تو اقتدار ان کے قدموں میں ہو گا۔ امریکہ اور ملا‘ اتحادی ہوں یا بظاہر علیحدہ علیحدہ‘ دونوں کی منزل ایک ہے اور یہ منزل وہی ہے‘ جس کی طرف امریکہ اور بھارت ہمیں لے جانا چاہتے ہیں۔قائداعظمؒ نے ہندوئوں کی بالادستی ختم کر کے پاکستان بنایا تھا‘ لیکن 70برس پورے ہونے سے پہلے پہلے‘ ملائوں کا گٹھ جوڑ ہمیں ایسے موڑ پر لے آیا ہے‘جہاں پر بھارت ہمیں دیکھنا چاہتا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved