اس سے پہلے کہ آگ بھڑک اٹھے اور کرّۂ خاک کو خاکستر کر دے‘ ہوش مندوں کو بروئے کار آنا چاہیے۔ تیسری عالمگیر جنگ کے عوامل پیدا کرنے میں امریکہ نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی کہ اب مغربی میڈیا پر پاگل پن سوار ہے۔
پرلے درجے کی بدذوقی اور پست ذہنیت کا جو مظاہرہ فرانسیسی جریدے ''چارلی ہیبڈو‘‘ سے شروع ہوا تھا‘ اب ایک وبا کی طرح جرمنی‘ اٹلی اور سپین تک پھیل گیا ہے۔ صرف کارٹونوں پر مشتمل چالیس پچاس ہزار کی تعداد میں فقط فرانسیسی زبان میں چھپنے والا ہفتہ وار اب دس لاکھ کی تعداد میں چھپے گا... اور مختلف زبانوں میں۔ جو اذیت ناک تفصیلات سامنے آئی ہیں‘ ان کے مطابق بتایا گیا ہے کہ سرورِ کائناتؐ کے بارے میں دلآزار خاکہ اب اس کا سرورق ہو گا۔ برطانیہ میں تھوڑی احتیاط ملحوظ رکھی جا رہی ہے‘ مگر سپین‘ اٹلی اور جرمنی میں بہت سے اخبارات نے اس مکروہ حرکت کا اعادہ کیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے‘ جسے مشرق کے بے مثال معلم‘ شاعر اور فلسفی اقبالؔ نے ''شیطان کی ایجاد‘‘ کہا تھا ع
آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
اس سے قطع نظر کہ مغربی میڈیا کو اس حرکت سے کیا حاصل ہو گا‘ بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض سوالات کے جواب ہی پر مستقبل میں‘ عالمِ مشرق کے اسلام اور مغرب کے مراسم کا انحصار ہے۔ اول یہ کہ فرض کیجیے‘ مسیحی معاشروں کو بعض مسلمانوں سے کچھ شکایت ہے‘ فرض کیجیے یہ شکایت درست بھی ہے تو اس کے اظہار کا یہ کیا طریقہ ہے۔ عشروں سے‘ جس رواداری کا ڈھنڈورا وہ پیٹتے آئے ہیں‘ اس کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ ایک حادثہ ہو اور شرافت کے سب لبادے تار تار ہو جائیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ چارلی ہیبڈو پر حملہ تو تین انتہا پسندوں نے کیا مگر وہ پورے کے پورے عالمِ اسلام کو ایذا دینے پر مصر کیوں ہیں۔ ایذا بھی ایسی کہ کوئی مسلمان جس کی تاب نہیں لا سکتا۔ کیا یہ مسخ شدہ ذہنیت کا مظاہرہ نہیں؟
بجا کہ محمد مصطفیؐ کو فقط مسلمان ہی پیغمبر مانتے ہیں مگر محسن تو وہ پوری دنیا کے ہیں۔ جہاں جہاں رب العالمین ہیں‘ وہاں وہاں رحمۃ للعالمینؐ کے کرم کی چھینٹ پڑتی ہے۔ اس کرۂ خاک پر آج شائستگی‘ نجابت‘ عدل اور وقار کا جس قدر بھی وجود ہے‘ کیا وہ سرورِ عالمؐ کے سوا بھی کسی کا فیض ہے؟ کیا انؐ کے ظہور نے غلاموں‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں‘ محتاجوں اور مسافروں کی زندگی بدل نہ ڈالی۔ مغرب میں ابھی ایک صدی پہلے تک خواتین کو جائیداد کا حق حاصل نہ تھا۔ یہ صلیبی جنگوں میں باہمی اختلاط اور سپین کی ہمسائیگی کا حاصل تھا کہ مغرب میں عدل کا تصور راسخ ہوا اور غلامی کو فروغ حاصل ہوا۔
فرانسیسی انقلاب کے ہنگام‘ ایک ممتاز شاعر نے ظہور اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انقلاب تو بس ایک ہی بار کائنات میں جلوہ گر ہوا‘ جس نے آدمی کی تقدیر بدل ڈالی۔ اسی فرانس میں کبھی کچھ مہذب لوگ پائے جاتے تھے۔ ان میں سے بعض نے برصغیر سے لوٹ کر آنے والی فرانسیسی سپاہ کے فرزندوں سے ٹیپو سلطان کے قصے سنے۔ وہ آدمی‘ غیر مسلم رعایا جس کی پوجا کرتی تھی۔ جو حالتِ جنگ میں بھی نہروں اور شاہراہوں کی تعمیر کے بارے میں فکرمند رہتا۔ ٹیپو کی شہادت پر ایک فرانسیسی شاعر نے لکھا ''بہشت بریں میں حوروں نے پھولوں کے ہار گوندھ کر شہیدوں کے سردار کا استقبال کیا‘‘۔
مغرب کی سرزمینوں میں یہ جو ہر عشرے میں صلاح الدین ایوبی پر ایک نئی ٹی وی سیریل یا فلم وجود میں آتی ہے تو اس کا راز کیا ہے؟ وہ حیرت انگیز حسن سلوک جو اس نے وحشی صلیبی لشکروں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ سات سو برس ہوتے ہیں سارا یورپ امنڈ کر مشرقِ وسطیٰ پر آ پڑا تھا۔ فقط سلاطین کا نہیں‘ یہ چرچ کا اتحاد بھی تھا۔ یروشلم میں وہ داخل ہوئے تو قتلِ عام کیا۔ اس قدر قتلِ عام کہ ان کے گھوڑوں کے ٹخنے لہو میں ڈوب گئے۔ ان سورمائوں میں سے ایک کو‘ جو آئندہ زمانوں میں یہاں دندناتے رہے‘ کرک کا بھیڑیا کہا جاتا ہے۔ خود یورپی مورخ اس کے لیے خبیث‘ پاگل اور جنونی کتے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اپنے ہم مذہبوں کے لیے بھی وہ کم باعثِ آزار نہ تھا۔ دو صدیوں کی وحشت کے بعد صلاح الدین ایوبی بروئے کار آیا تو اس نے انہیں امان دی۔ حتیٰ کہ شکست خوردہ لشکر کو یروشلم کی زیارت کا موقعہ عطا کیا۔ کیا خود یورپ بھی ایسی کوئی مثال پیش کر سکتا ہے‘ آج بھی؟ اپنی حالیہ تاریخ سے بھی۔
جہاں جہاں کوئی انصاف پسند دانشور‘ مفکر اور شاعر جیا ہے‘ کسی بھی سرزمین میں‘ کسی بھی غیر متعصب ذہن نے‘ جب سرکارؐ کی شخصیت کا مطالعہ کیا تو بے ساختہ عالی مرتبتؐ کی مدح کی۔ ہندوستان میں اس کی مثال دو سو سے زیادہ غیر مسلم شاعروں کا کلام ہے۔ ان میں سے ایک پنڈت ہری چند اختر تھے‘ جنہوں نے کہا تھا ؎
کس نے ذروں کو اٹھایا اور صحرا کر دیا
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا درِّ یتیم
اور بندوں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا
زندہ ہو جاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر
اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا
خود مغرب میں ایک کے بعد دوسری نسل نے کتنی ہی عرق ریزی کیوں نہ کی مگر کیمسٹری‘ فزکس اور الجبرا سمیت سائنسی علوم کی اولین بنیادیں مسلم سائنس دانوں ہی نے استوار کی تھیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں کانٹ کے نام پر صدیوں تک امام غزالی پڑھے جاتے رہے۔ دنیا کی پہلی سول سروس اور پہلی باوردی فوج ترکوں نے تشکیل دی۔ یہ عبدالرحمن الداخل اور اس کے جانشینوں کی قائم کردہ عدالتیں تھیں‘ جن سے فیض پا کر‘ بالآخر مغرب میں انصاف کا جدید نظام قائم ہوا۔ صدیوں تک وگرنہ وہ مذہبی طبقات کے خونیں پنجوں میں جکڑا رہا۔
مسلمان سب کے سب عادل و عالم نہ تھے اور مغرب سب کا سب ظالم نہیں۔ تاریخ کی شہادت مگر یہ ہے کہ مغرب پر اسلام کے بے پناہ احسانات ہیں اور عالم اسلام پر مغرب نے بے کنار ظلم ڈھائے ہیں۔ تازہ ترین مثال سرکارؐ کی توہین کا وہ سلسلہ ہے کہ روک تھام تو درکنار مغربی حکومتوں نے حوصلہ شکنی تک نہیں کی۔
بجا کہ عالم اسلام میں انتہا پسند مذہبی تحریکیں اٹھی ہیں؛ اگرچہ اپنی روح میں مذہبی نہیں‘ وہ سیاسی ہیں۔ اس لیے کہ اسلام میں نفرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک ہے۔ ''الدین النصیحہ‘‘ دین تو بس خیر خواہی ہے‘ سب کی‘ تمام بنی نوع انسان‘ سب مخلوقات اور تمام موجودات کی۔
ان مسخ شدہ مذہبی تحریکوں کو جائز نہ کہا جائے گا؛ تاہم ان کے پس منظر میں‘ پوری دو صدیوں تک پھیلی مغربی چیرہ دستیوں کا دخل بھی ہے۔ ایک صدی قبل ترکی کے مقابل یورپ کا اتحاد۔ مشرق وسطیٰ میں چھوٹی چھوٹی محتاج ریاستوں کی تشکیل اور سب سے بڑھ کر فلسطین میں اسرائیل کا ناسور۔ دوسری عالمگیر جنگ میں فرانسیسی جنرل دمشق میں داخل ہوا تو قبر کو ٹھوکر مار کر اس نے کہا ''اٹھو! صلاح الدین‘ ہم ایک بار پھر آ گئے‘‘۔ قوموں کے حافظے میں صدیوں تک برقرار رہنے والی نفرت شترِ کینہ سے زیادہ گہری اور گھنائونی ہوا کرتی ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ بوسنیا اور چیچنیا کا قتلِ عام اسی اجتماعی لاشعور کی یاد دلاتا ہے۔ توہینِ رسالت کی حالیہ مہم‘ ان سب سے زیادہ خطرناک ہے‘ اس لیے کہ مسلمان اس کی تاب نہیں لا سکتا۔ مغرب کو ادراک ہونا چاہیے کہ اس کے نتیجے میں پہل قدمی‘ دہشت گردوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔
افسوس کہ مغرب سے مرعوب حکمرانوں اور سیاست کاروں کو صورتِ حال کی سنگینی کا ذرا سا ادراک بھی نہیں۔ لازم ہے کہ مغرب کو احساس دلانے کی کوشش کی جائے اور ظاہر ہے کہ اس کا بہترین ذریعہ او آئی سی (عالمی اسلامی کانفرنس) ہے۔
اس سے پہلے کہ آگ بھڑک اٹھے اور کرّۂ خاک کو خاکستر کر دے‘ ہوش مندوں کو بروئے کار آنا چاہیے۔ تیسری عالمگیر جنگ کے عوامل پیدا کرنے میں امریکہ نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی کہ اب مغربی میڈیا پر پاگل پن سوار ہے۔