سانحہ پشاور کے بعد اے پی سی (آل پارٹیز کانفرنس) کے یکے بعد دیگرے تین طویل اجلاسوں میں 20 نکاتی 'پلان آف ایکشن‘ کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک 'فیصلہ کن‘ لمحہ قرار دیا۔ ان کے چہرے سے وہی اطمینان جھلک رہا تھا‘ جو 26 مارچ1971 ء کو مشرقی پاکستان سے واپسی پر، جہاں ایک دن پہلے ملٹری ایکشن کا آغاز ہوا تھا، مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے چہرے پر ہویدا تھا۔ انہوں نے میڈیا سے کہا تھا: '' اللہ کے فضل سے پاکستان بالآخر بچ گیا ہے‘‘۔ ہم میں سے وہ جو اس لمحے کے عینی شاہد ہیں، اپنی بدنصیب تاریخ میں ہر نئے 'فیصلہ کن لمحے‘ کا لفظ سن کر ان کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔
قوموں کی تاریخ میں فیصلہ کن لمحات آتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں بھی ایسے کئی لمحات آئے، مگر افسوس، یہ سب انتہائی اذیت ناک تھے۔ ہماری تاریخ کا پہلا لمحہ وہ تھا‘ جسے شاید ہمارے بیشتر عوام جانتے ہی نہیں یا پھر فراموش کر چکے ہیں۔ یہ 11 ستمبر 1948ء کا وہ لمحہ تھا‘ جب بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری گھنٹے انتہائی بے بسی کے عالم میں اُس فوجی ایمبولینس میں گزارے جو کراچی کے ماری پور ایئربیس سے انہیں گورنر جنرل ہائوس لاتے ہوئے‘ انجن خراب ہونے کے باعث بند ہو گئی تھی اور قائد سڑک کے کنارے تنہا پڑے رہے۔ اس سے پہلے کوئٹہ سے کراچی پہنچنے پر بھی حکومت کی طرف سے صرف ان کے ملٹری سیکرٹری کرنل نولز ان کا استقبال کرنے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ''میرا بھائی‘‘ میں ان تکلیف دہ لمحات کو ان لفظوں میں یاد کیا: ''آس پاس مہاجرین کی سیکڑوں جھونپڑیاں تھیں، وہ اپنے کام میں مگن تھے، انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ ان کا قائد‘ جس نے انہیں وطن لے کر دیا، بے بسی کے عالم میں (ان کے قریب) موجود ہے۔ کاریں فراٹے بھرتی ہوئی گزر رہی تھیں، بسیں اور ٹرک رواں دواں تھے اور ہم ایک ایسی ایمبولینس میں بیٹھے تھے‘ جس نے ایک انچ بھی آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تھا... ہم نے ایک گھنٹے سے زیادہ انتظار کیا، میری پوری زندگی میں کوئی دوسرا گھنٹہ اس قدر طویل اور اذیت ناک نہیں گزرا‘‘۔ بانیء پاکستان انہی دردناک لمحات میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ کیا اس کربناک لمحے کی یاد ہمارے اندر افسوس اور احساس زیاں کا جذبہ پیدا کرتی ہے؟
اس کا جواب ہمارے اس رویے سے آشکار ہے کہ ہمارے قائد نے جس فعال، ترقی پسند، معتدل اور ایک اسلامی جمہوری پاکستان کے خواب کی تعبیر کے لیے جمہوریت، کثرتیت (pluralism)، سوشل جسٹس اور قانون کی حکمرانی کے جن آئیڈیلز پر عمل پیرا ہونے کی تلقین فرمائی تھی، ان کا ہم نے کتنا احترام کیا۔ 12 مارچ 1949ء کو آئین ساز اسمبلی کی جانب سے قرارداد مقاصد کو پاس کرنا بھی ہماری تاریخ میں ایک ''فیصلہ کن لمحے‘‘ سے کم نہ تھا، لیکن ہم نے ایک مختلف راستے پر چلنے کا انتخاب کیا۔ عدم برداشت اور عصیبت نے ہم میں ایسا پُرتشدد رویہ پیدا کیا‘ جس کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ افسوس! آج ہماری سب سے بڑی شناخت دہشت گردی ہے۔ ہماری آزادی کی پہلی سالگرہ (جو قائد کی آخری سالگرہ تھی) سے بھی پہلے قائد اعظم کی دوربین نگاہوں نے آنے والے واقعات کا ادراک کر لیا تھا۔ وہ ملک کے ان بڑے جاگیرداروں اور قبائلی سیاستدانوں کی اہلیت اور کردار سے مایوس ہو چکے تھے جنہوں نے آگے چل کر نو آزاد مملکت کی باگ ڈور سنبھالنی تھی۔ قائد کی پریشانی بے جا نہ تھی۔ 1951ء میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک پر سیاسی نااہلی چھا گئی۔ 1952ء میں اردو کو ملک کی واحد سرکاری زبان قرار دینے سے متعلق حکومت کا فیصلہ بھی ایک ''فیصلہ کن لمحہ‘‘ تھا۔ بعد میں یہی قوم کا پہلا وحشتناک لمحہ ثابت ہوا۔
1954ء میں ہماری تاریخ کا پہلا مگر سویلین مارشل لاء لگا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے ایک وائسرائے کی طرح پاکستان کی پہلی قانون سازی اسمبلی کو تحلیل کر دیا‘ جسے بعد میں اس وقت کی سپریم کورٹ نے جائز قرار دے دیا۔ یہ بھی ہمارا ایک ''فیصلہ کن لمحہ‘‘ اور جمہوری راستے سے انحراف کا آغاز تھا۔ ہمارے سیاستدانوں نے نو سال میں اور کئی حکومتوں کے دوران 1956ء میں پہلا آئین مرتب کیا جو تین سال سے بھی کم عرصے میں منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہم نے دو مزید آئین بنائے... پہلا ملک کے ایک فیلڈ مارشل نے 1962ء میں اور دوسرا 1973ء میں لوگوں کے ایک ایسے''گروپ‘‘ نے تشکیل دیا‘ جس کے پاس اس کام کا اختیار ہی نہ تھا ؛ بلکہ دراصل یہی لوگ ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار تھے۔
1971ء کے سانحہ کی وجوہ پر آج تک غور نہیں کیا گیا۔ 1973ء کا آئین ملک ٹوٹنے کے بعد پیدا ہونے والے دبائو کے تحت تشکیل دیاگیا، اس میں خود دستوری میرٹ کو پیش نظر نہ رکھا گیا۔ بعد میں آنے والی کسی بھی حکومت نے ہمارے فیڈرل سٹرکچر کے تضادات اور صوبوں کی شکایات دور کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ اس دوران ہم ایک کے بعد دوسرے ''فیصلہ کن لمحات‘‘ کے تجربات سے گزرتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اپنا دور حکومت بھی ایک ''فیصلہ کن لمحہ‘‘ تھا‘ لیکن وہ اپنی ذات میں ایک ''قائد‘‘ بن بیٹھے۔
پاکستان کو ایک پارٹی کی ریاست بنانے کی دُھن میں، بھٹو نے عوامی مقبولیت کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے بینکوں، سکولوں، کالجوں اور بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ قوم آج تک ان کے کج رو سوشلزم کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ بھٹو نے مزید طاقتور بننے کے لیے قبل از وقت انتخابات کرائے لیکن ان کے متنازع نتائج کے باعث بہت جلد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ جولائی 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کی جانب سے اقتدار پر قبضہ ہماری تاریخ کا ایک اور تکلیف دہ ''فیصلہ کن لمحہ‘‘ تھا جس کا منحوس سایہ آج تک پاکستان کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس کے بعد 1999ء میں جنرل پرویز مشرف ملک پر قابض ہو گئے‘ جو ایک اور نازک قسم کا ''فیصلہ کن لمحہ‘‘ تھا۔
پلک جھپکتے ہی ہمیں اپنے قبائلی علاقوں میں ایک ایسی جنگ میں گھسیٹ لیا گیا‘ جو دراصل ہماری جنگ نہ تھی۔ امریکہ تو افغانستان میں اپنی جنگ ختم کر چکا ہے مگر ہم اس حقیقت کا ادراک کیے بغیر برسرِ جنگ ہیں کہ صرف ملٹری آپریشن سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی۔ یہ ایسا مرض ہے جس کا علاج سماجی و اقتصادی پالیسیوں اور اچھی حکمرانی سے ممکن ہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ سانحہ پشاور حکومت کے لیے ایک شدید جھٹکا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک غیر معمولی چیلنج ہے‘ جو ایک غیر معمولی ردعمل کا متقاضی ہے۔ حکومت نے آئین کی دفعہ 232 کے تحت محدود ہنگامی صورت حال کا اعلان کرنے کے بجائے اے پی سی بلا کر ماورائے آئین اقدام کا آپشن اختیارکیا؛ اس طرح پارلیمنٹ کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
اے پی سی نے صرف 20 نکاتی پلان آف ایکشن پر مہر تصدیق ثبت کی؛ حالانکہ یہ معمول کی حکومتی سرگرمیوں کے سوا کچھ نہیں‘ جن پر ماضی کی کئی حکومتیں عملدرآمد کرنے میں ناکام رہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا دوہرا عذاب جوں کا توں رہا۔ 21ویں ترمیم بذات خود مجموعی طور پر حکومتی ناکامیوں کا اعتراف ہے۔ اب اگر فوجی عدالتیں بروئے کار آ گئیں تو باقی 19 نکات کیا کیا بنے گا؟ ان پر کون عملدرآمد کرے گا؟ اگر اس کام کے لیے فرشتے نازل نہ ہوئے تو کیا پھر مسلح افواج کو ہی یہ ذمہ داری نبھانے کی درخواست کی جائے گی؟ اس صورت میں حکومت کے قائم رہنے کا کوئی جواز باقی رہے گا؟
بظاہر‘ ہمارا سیاسی طبقہ مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ لیکن ان کا 'پلان آف ایکشن‘ اگر طویل ہو گیا اور دفعہ 245 کے بافراط استعمال سے مسلح افواج گزشتہ دہائیوں کی مانند ملک کی واحد مؤثر فورس کے طور پر اُبھریں تو کیا وہ (سیاسی طبقہ) کمزور اور بے بس نہیں ہو جائے گا؟ وہ پہلے ہی ملک کی عدلیہ اور قانون ساز ادارے کو بے کار جبکہ پولیس اور بیوروکریسی کو عوام کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔
سیاستدانوں نے مسلح افواج کو 1971ء کے سانحہ میں جس طرح استعمال کیا‘ وہ ایک معلوم تاریخ ہے؛ اس کے باوجود ہم ایک بار پھر اس کی تکرار پر تُلے ہیں۔ مسلح افواج کو مسلح افواج رہنے دیا جائے تو بہتر ہے تاکہ وہ ہماری آزادی اور سلامتی کو لاحق اندرونی اور بیرونی خطرات کا دفاع کرتی رہیں۔ شاید ماضی کے ''فیصلہ کن لمحات‘‘ پر غور کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)