تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     14-01-2015

اتنے قریب! اس قدر دور!!

''ڈاکٹر ایران زادہ کے ساتھ کشتی میں دریائے سیحوں کی سیر کی۔ یہ سیر خوب رہی۔ کشتی ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک گئی۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ دریا جس کا نام سیحوں تاریخ اور ادب میں بار بار پڑھا تھا‘ ایک دن اس کے طلسماتی پانیوں پر سیر کروں گا۔ خجند شہر دریا کے دونوں کناروں پر واقع ہے‘‘۔ 
یہ اقتباس معروف محقق اور فارسی کے ادیب ڈاکٹر عارف نوشاہی کی تازہ ترین تصنیف سے ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا اصل تعلق فارسی ادب و زبان کے حوالے سے والدِ گرامی مرحوم سے تھا۔ اس قلم کار نے تو اس دسترخوان سے محض گرے ہوئے چند ٹکڑے چنے۔ پھر بھی ان کی محبت ہے کہ اہتمام سے کتاب ارسال کی۔ 
لیکن سیاپا یہاں اور ہے۔ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ سیحوں کہاں ہے اور خجند کس جگہ ہے؟ ہمیں دریائے ٹیمز کی لمبائی چوڑائی سب پتہ ہوگی۔ ورجینیا کا حدود اربعہ کیا ہے۔ مسی سی پی کا دریا کہاں سے نکلتا ہے اور کس سمندر میں گرتا ہے‘ سب کچھ معلوم ہے مگر اپنے خطے سے‘ اپنے ملک کے حدود اربعہ سے‘ اپنی ثقافت کے منابع اور مصادر سے مکمل بے نیازی ہے۔ وہ تو سوویت یونین کے حملے کے بعد ازبکوں اور تاجکوں نے اپنے وجود کو منوایا ورنہ پاکستانیوں کی اکثریت افغانستان سارے کو پختون سمجھتی تھی۔ اب بھی کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کہ طالبان (افغان طالبان) تمام کے تمام پختون کیوں ہیں اور کہیں ان کی جدوجہد کا حوالہ پختون غیر پختون کا اقتدار تو نہیں؟ اسلام آباد سے بخارا کا فاصلہ 634 میل ہے۔ اور لاہور سے 794 میل ہے۔ لاہور سے تاشقند 732 میل کے فاصلے پر ہے۔ سمر قند اور اسلام آباد کا فاصلہ 531 میل ہے۔ ٹائم زون بھی وہی ہے‘ مگر ذہنی طور پر سات سمندر پار واقع لندن‘ نیویارک اور ٹورنٹو زیادہ جانے پہچانے لگتے ہیں۔ کیا اس کی ذمہ داری تاریخ کے جبر پر ہے؟ یا اپنی زبان‘ اپنی میراث اور اپنی تاریخ سے مجرمانہ تغافل پر؟ اس کا جواب کون دے گا؟ 
ڈاکٹر عارف نوشاہی کی یہ تازہ ترین تصنیف دراصل تاجکستان کا سفرنامہ ہے۔ تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبہ ہے۔ تاریخی حوالے سے یہ ایک گمنام مقام تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا گائوں تھا جہاں پیر کے دن منڈی لگتی تھی۔ پیر کو فارسی میں دوشنبہ کہا جاتا ہے۔ 1920ء میں بخارا بالشیویک روس کی زد میں آیا تو بخارا کا امیر بھاگ کر دوشنبہ میں پناہ گزین ہوا۔ روسی استعمار نے وسط ایشیا (ترکستان) کو ریاستوں میں اس طرح بانٹا جیسے بچے کاغذ پر لکیریں کھینچتے ہیں۔ لیکن یہ لکیریں بدنیتی پر مبنی تھیں۔ کسی ایک ریاست کو بھی زبان اور ثقافت کے حوالے سے مستحکم اور خودکفیل نہ رہنے دیا۔ 1929ء میں ''تاجکستان سوویت سوشلسٹ ری پبلک‘‘ وجود میں آئی مگر فارسی بولنے والے دو بڑے شہر بخارا اور سمرقند‘ اس سے کاٹ کر ازبک بولنے والے ازبکستان میں ڈال دیے گئے۔ ہزاروں تاجک ان شہروں سے ہجرت کر کے دوشنبہ آ گئے اور یوں دوشنبہ بڑا شہر بن گیا۔ 
تاریخی حوالے سے تاجکستان‘ ازبکستان جتنا ثروت مند نہیں‘ ازبکستان کا تو ہر شہر سراپا تاریخ ہے اور پورا ملک ہی ثقافت کے حوالے سے عجائب گھر ہے۔ یہ کالم نگار چار بار ازبکستان گیا‘ شہر شہر گھوما مگر ہر بار لگتا تھا کہ ابھی کچھ بھی نہیں دیکھا۔ بخارا اور سمرقند کے علاوہ خیوا (خوارزم)‘ ترمذ اور فرغانہ وادی میں واقع نمنگان‘ قوقند‘ اندجان سب ازبکستان میں ہیں۔ تاجکستان میں چھوٹے چھوٹے تاریخی مقامات تو بہت ہیں مگر بڑا تاریخی شہر ایک ہی ہے جس کا نام خجند ہے۔ قبل مسیح سے آباد چلا آتا یہ شہر شاہراہ ریشم کے کنارے پر تھا۔ اقبال نے اسی کے حوالے سے حکایت بیان کی ؎ 
بود معماری ز اقلیمِ خجند 
در فنِ تعمیر نامِ او بلند 
فارسی ادب میں دو دریا بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ سیحوں‘ جسے اب سیرِ دریا کہا جاتا ہے اور جیحوں جس کا نام آمو پڑ گیا ہے۔ خجند سیرِ دریا کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔ ڈاکٹر عارف نوشاہی نے اسی دریا کی سیر کا ذکر کیا ہے جس سے آغاز اس کالم کا ہوا ہے۔ 1999ء میں ازبکوں نے سلطان جلال الدین خوارزم کی 700 ویں برسی پر بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا تو اس قلم کار کو بھی مقالہ پڑھنے کی دعوت دی۔ پاکستان سے معروف مورخ ڈاکٹر این بی بلوچ بھی مدعو کیے گئے تھے۔ سیمینار کا ایک اجلاس خیوا میں ہوا جہاں مندوبین کو خصوصی جہاز کے ذریعے تاشقند سے لایا گیا۔ پہلی بار دریائے جیحوں دیکھا تو کم و بیش وہی کیفیت طاری ہوئی جو عارف نوشاہی صاحب پر سیرِ دریا (سیحوں) کی سیر کر کے ہوئی۔ یہ اشعار اسی کیفیت کی یادگار ہیں ؎ 
اس خاک کی دنیا سے جدا اس کی ہوا تھی 
کیا حسن تھا خوارزم میں کیا اس کی ہوا تھی 
کیا بخت تھا چلتا تھا میں جیحوں کے کنارے 
چھوتی تھی بدن کو جو ہوا اس کی ہوا تھی 
کیا تخت تھا پانی پہ بچھا تھا مری خاطر 
کیا زلف تھی‘ کیا زلف کشا اس کی ہوا تھی 
میوے تھے کہ رخسار تھے‘ وحشت تھی کہ لب تھے 
یا وقت کوئی اور تھا یا اس کی ہوا تھی 
فاروق گیلانی مرحوم کی مہمان نوازی کا موازنہ میں ازبکوں سے کیا کرتا تھا۔ ہمارے ہاں عربوں کی مہمان نوازی اس لیے 
ضرب المثل ہے کہ وسط ایشیا سے راہ و رسم نہیں! وسط ایشیائیوں کا بس چلے تو مہمان کے لیے دل نکال کر دسترخوان پر رکھ دیں! مہمان نوازی کے اس کلچر کو روسی استعمار خانوں میں نہ بانٹ سکا۔ ترکمانستان ہے یا ازبکستان‘ قازق ہیں یا کرغز... مہمان کی ضیافت کے لیے سب کمربستہ ہیں اور یوں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ آپ مسجد میں نماز پڑھ کر واپس میزبان کے پاس پہنچتے ہیں تو کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ محلے کا ہر شخص‘ ہر گھر‘ مہمان کی ضیافت کرنا چاہتا ہے۔ میزبان کہیں جاتے جاتے‘ کسی کے ہاں کسی کام کے لیے پانچ منٹ کو رکتا ہے۔ مہمان بھی ساتھ ہے‘ صاحبِ خانہ‘ جو کچھ بھی اس کے پاس موجود ہے‘ کوئی نئی قمیض‘ چپان (چغہ) ٹوپی‘ پتلون‘ رومال‘ مہمان کو تحفے میں پیش کردے گا اور یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مہمان کے انکار کو قبول کر لے۔ مہمان کے ہاتھ خود دھلانا اور اس کے جوتے سیدھے کرنا عام بات ہے۔ کچھ علاقوں میں رواج یہ ہے کہ دسترخوان پر‘ میزبان‘ مہمان بن جاتا ہے اور مہمان صاحبِ خانہ۔ کھانا مہمان ہی نکالتا ہے اور میزبان کو بھی وہی دیتا ہے۔ وہ جو کسی عرب شاعر نے کہا تھا ؎ 
یا ضَیْفَنَا! لوْ زُرْتَنَا لَوَجْدتَنا 
نخنُ الضیوفُ وَ اَنْتَ ربُّ المنزلٖ 
مہمانِ گرامی! آپ ہمارے ہاں قدم رنجہ فرماتے تو دیکھتے کہ آپ گھر کے مالک ہیں اور ہم مہمان! تو اس کا عملی مظاہرہ ترکستان میں ہوتا ہے۔ عارف نوشاہی نے کیا خوب تصویر کشی کی ہے۔ 
''تاجکوں کے کھانے کا پتہ نہیں چلتا کہ کب تک نئے نئے کھانے آتے رہیں اور کب کھانا ختم ہو؟ آدمی پہلے کھانے ہی سے سیر ہو جاتا ہے کہ دوسرا تیسرا چوتھا... بھی آ جاتا ہے۔ ہمارے میزبان نے سب سے پہلے خشک میووں (پستہ‘ خوبانی‘ مویز) تازہ پھلوں (انگور‘ سیب‘ آڑو) طرح طرح کی ٹافیوں‘ سلاد‘ روٹیوں اور جغرات (دہی) سے دسترخوان سجایا۔ ایک روٹی جسے یہاں چپاتی کہا جاتا ہے آدھے میٹر قطر کی تھی۔ سمرقندی نان الگ تھے۔ اس کے بعد شوربا (سوپ) آیا۔ اس کے بعد ایک خالص تاجکی سالن کی ڈش آئی۔ اس کے بعد بھیڑ کے گوشت کے بڑے بڑے ابلے ہوئے پارچے سامنے رکھے گئے۔ گنجائش بالکل نہ تھی۔ بے حد اصرار پر ایک ٹکڑا زبردستی کھایا۔ پھر بھُونے ہوئے گوشت کا طبق آ گیا۔ میں نے برجستہ کہا ''ہم آدم زاد ہیں‘‘! اس پر قہقہہ پڑا۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑے خوانچے میں کئی قسم کے مشروبات‘ انار اور آڑو کا رس‘ آرسی کولا‘ سادہ پانی‘ گیس والا پانی اور سبز رنگ کا ایک مشروب لایا گیا۔ تربوز کاٹ کر قاشیں الگ سجائی گئی تھیں۔ میزبان کی بیٹیاں مسلسل کھانا لاتیں اور خالی برتن اٹھا کر لے جاتیں۔ میزبان کے دو بیٹے مسلسل ہاتھ باندھے کھڑے رہے۔ تخت سے نیچے اترتے تو وہ جوتے سیدھے کرتے۔ ہاتھ دھلواتے۔ تولیہ پیش کرتے۔ میزبان مسلسل کہے جا رہے تھے کہ آپ نے کچھ نہیں کھایا‘‘... 
کئی سال پہلے کی بات ہے۔ ایک بزم میں غزل بنا رہا تھا کہ یہ شعر آیا ؎ 
مرے بلخ‘ میرے ہرات شاد رہیں سدا 
مرے کوزہ گر‘ مرے زین ساز سدا رہیں 
یارِ سخن شناس شعیب بن عزیز نے کہ تب میسر ہوا کرتے تھے‘ عجیب نکتہ نکالا‘ کہ بلخ اور ہرات سب اتنے قریب ہیں‘ لیکن وہاں کے رہنے والوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اِدھر ان کے بارے میں کیسی کیسی شاعری ہو رہی ہے!! 
پانچ پانچ سات سات سو میل کے فاصلے پر اتنے شناسا‘ اس قدر جانے پہچانے شہر۔ لیکن اس قدر دور... کہ درمیان میں سینکڑوں برس کا استعمار پڑے۔ بقول مجید امجد ؎ 
اب تو یاد ان کی دل میں آتی ہے 
جیسے بجلی بہ نبضِ خس گزرے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved