اسلام آباد میں سولہ برس سے زائد رپورٹنگ اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاسوں کی کارروائی دیکھنے کے بعد مجھے یہ یقین ہوچلا ہے کہ اگر گریڈ بائیس کا افسر یہ فیصلہ کر لے کہ اس ملک میں کرپشن نہیں ہوگی تو سمجھ لیں کہ نہیں ہوگی۔ یہ بات پاکستانی سیاسی اور فوجی حکمران سمجھ گئے تھے‘ لہٰذا انہوں نے بیوروکریسی کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور کوئی ایماندار اور اچھا افسر نہیں رہنے دیا۔ آج بیوروکریٹ کلاس ختم ہوچکی ہے اور جو کچھ بچا ہے اسے دیکھ کر اس ملک پر ترس آتا ہے کہ اس کی لگام کن کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ کسی بیوروکریٹ سے بات کریں گے تو وہ سارا نزلہ سیاستدانوں پر گرائے گا ۔ اس کا خیال ہے کہ سیاستدانوں نے بیوروکریسی کا بیڑا غرق کر دیا تھا ۔ یہ کوئی نہیں بتائے گا کہ گریڈ بائیس کے سیکرٹری کے پاس وہ مالی اور انتظامی طاقت ہے کہ اگر وہ کسی غلط فائل پر دستخط نہ کرے تو کوئی وزیر چائے کی پیالی تک نہیں پی سکتا۔ مجھے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاسوں سے پتہ چلا کہ سب کچھ تو بابو کے ہاتھ میں ہے۔ بابو اگر وزیر کے پیچھے نہ بھاگے تو پھر کچھ غلط نہیں ہوگا۔ میرا ہمیشہ یہ نقطۂ نظررہا ہے کہ وزیراعظم کتنے فیڈرل سیکرٹریز کو ہٹا سکتا ہے؟ اگر ایک سیکرٹری غلط کام سے انکار کرتا ہے اور اسے ہٹا دیا جاتا ہے‘ پھر دوسرا یا پھر تیسرا بھی غلط کرنے سے انکار کردیتا ہے تو وزیراعظم تیسرا سیکرٹری ہٹاتے ہوئے دس دفعہ سوچے گا ۔ سیکرٹری کو اگر ہٹا دیا جائے تو بھی اسے تنخواہ اور دیگر مراعات ملتی رہتی ہیں‘ لیکن کوئی بھی سیکرٹری کے عہدے کی قربانی دینے کو تیار نہیں‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب سیاستدان اور بیوروکریسی مل کر مال بناتے ہیں۔ اگر ایک بیوروکریٹ یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسلام آباد میں جو چالیس ارب سے زائد روپے کی میٹرو شروع کی گئی‘ اس کی ضرورت نہیں، تو وزیراعظم کسی صورت اسے شروع نہیں کر سکتے تھے۔ کوئی دور تھا کہ بیوروکریٹ غلط بات پر وزیراعظم تک کے سامنے ڈٹ جاتے
تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا حل یہ ڈھونڈا گیا کہ جونیئر افسران کو اہم عہدوںپر بٹھا جائے تاکہ وہ ناں کرنے کی جرات نہ کر سکیں کیونکہ انہیں لالچ رہے گی کہ وہ جس عہدے پر دس برس بعد بیٹھتے‘ انہیں ایک وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی مہربانی سے پہلے ہی وہ عہدہ مل گیا تھا اور اس کے سینئر یکدم ان کے نیچے کام کررہے ہیں جب کہ ان کے کولیگ بھی اب انہیں سر کہنے پر مجبور ہیں۔ یوں بابوئوں کی اس کلاس نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو ترجیح دی اور اس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ ماڈل ٹائون میں محض رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر چودہ لوگوں کو قتل اور ایک سو کو گولیاں مار دی گئیں ۔ اگر کوئی سمجھدار پولیس افسر اور ڈی ایم جی افسر بیٹھا ہوتا تو وہ کبھی وزیراعلیٰ یا کسی وزیر کے یہ احکامات نہ مانتا‘ لیکن سب نے دیکھا کہ ان احکامات پر عمل ہوا اور پھر اس ملک میں جو بحران پیدا ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
ماضی میں یہ سمجھاجاتا تھا کہ پرنسپل سیکرٹری ہمیشہ وزیراعظم کو درست راستہ سمجھاتا تھا۔ اب یہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ پرنسپل سیکرٹری کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ گھر کی باندی ہے۔ وہ بھی خوشی سے یہ کردار ادا کرتا ہے اور اس کے بدلے میں اپنے رشتہ داروں کو اہم ملکی اور غیرملکی عہدوں پر تعینات کراتا ہے اور سب مل کر مزے کرتے ہیں ۔
مثلاً اگر کوئی نیب الیکشن کمشن کی ویب سائٹ پر ڈالے گئے گوشواروں کی کاپی لے کر انہیں چیک کرنے کا کام شروع کردے کہ کس سیاستدان کے پاس کتنی دولت تھی اور وہ کتنا ٹیکس دے رہا تھا اور یہ دولت کہاں سے آئی تھی، تو اسے کون روک سکتا ہے؟ لیکن ارباب اختیار یہ فیصلہ نہیں کریں گے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تعیناتی انہی سیاستدانوں نے کی‘ جن کے خلاف اسے کارروائی کرنی پڑ سکتی ہے۔ سب سیاستدانوں کی مرضی پر جیتے ہیں۔ انہیں دن رات خوش کرنے کے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ جو بھی چیئرمین نیب لگا‘ اس کے ذمے یہ کام رہا ہے کہ وہ اس وقت کے ملک کے سربراہ کے مفادات کا تحفظ کرے‘ یوں تنخواہ قوم کے ٹیکسوں سے لینے والے عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے حکمرانوں کے غلام بن کر رہ گئے اور ایماندار افسران کا تحفظ کرنے کی بجائے‘ ان کے دشمن بن گئے۔ جنرل مشرف دور میں نیب کے ایک چیئرمین تو اس دوڑ میں سب سے آگے نکل گئے‘ جب دو چیئرمین اپنے ایک ملزم سے ایل پی جی کے کوٹے لے کر اس کے کاروبار میں بزنس پارٹنرز بن گئے اور اب ہر ماہ گھر بیٹھے تیس لاکھ روپے کماتے ہیں ۔ نیب کے افسران کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان کے ایل پی جی کنگ سے کوٹے لیے اور وہ سب اس وقت کروڑ پتی ہیں۔ باقی چھوڑیں ایک کروڑ روپے کے مفت کے کھانے نیب افسران نے دفتر کی کینٹین سے کھائے جب کہ سوشل ویلفیئر کے ایک کلرک ظہور حسین اعوان کو تین سال جیل بھگتنا پڑی کہ اس نے چند ہزار روپے کے بریانی کے بل پر دستخط کیے تھے جو وزارت سوشل ویلفیئر میں اجلاس کے شرکاء کے لیے منگوائی گئی تھی۔ ابھی تک وہ پیشیاں بھگت رہا ہے۔ نیب کا دل ابھی نہیں بھرا۔ اسی نیب کو جرأت نہ ہوئی کہ سابق وزیر زبیدہ جلال پر ہاتھ ڈالے۔ وہ زرداری کو صدارت کا ووٹ دے کر کلین چٹ لے گئی۔ کمزور پر چڑھ دوڑنے والے ادارے ملک کے اثاثوں کی حفاظت کی بجائے لٹیروں کے محافظ بن گئے۔
جن گوشواروں کا میں نے ذکر کیا‘ ان میں وزیراعظم کا گوشوارہ بھی شامل ہے جن کی آمدن ڈیڑھ ارب روپے سے بڑھ کر ڈھائی ارب روپے کے قریب تک ایک سال میں پہنچ گئی ہے۔ امریکہ قیام کے دوران ہلیری کلنٹن کی کتاب ''ہارڈچوائسز‘‘ پڑھی تھی اور آج تک یاد ہے کہ جب امریکی صدر بل کلنٹن آٹھ برس امریکہ کے صدر رہنے کے بعد وائٹ ہائوس سے نکلے تو وہ پچاس لاکھ ڈالر سے زیادہ کے مقروض تھے جو انہوں نے مونیکا سکینڈل کے دوران اپنے وکیلوں کو فیسیں ادا کرنے کے لئے لیے تھے۔ وہ وائٹ ہاوس میں رہتے ہوئے بھی سرکاری وکیل نہیں کر سکتے تھے اور پرائیویٹ وکیل کر کے انہیں بھاری فیسیں خود ادا کی تھیں۔ گھر بھی بینک سے قرضہ لے کر خریدا تھا اور اس کی قسطیں علیحدہ سے ادا کرنا تھیں۔ کل دس ملین ڈالر کے قریب قرضہ بل کلنٹن پر چڑھا ہوا تھا۔ کلنٹن نے تقریریں کر کے وہ سارا قرض اتارا اور اپنی کلنٹن فائونڈیشن بھی بنائی جس کو وہ اپنی کمائی سے چلارہے تھے اور اس کے لیے عطیات بھی اکٹھے کیے۔
دوسری طرف ہمارے وزیراعظم کے اثاثے ایک سال میں ساٹھ کروڑ روپے بڑھ گئے ہیں جو کہ ان کی ایک شوگر مل میں دکھائے گئے شیئرز میں اضافہ ہے۔ ایک طرف شوگر ملز منافع میں چل رہی ہیں تو دوسری طرف اسحاق ڈار صاحب نے پچھلے ماہ ہی شریف خاندان اور دیگر سیاستدانوں کی ملوں کو چھ ارب روپے کی سبسڈی عوام کی جیب سے ادا کی کہ وہ مہنگی چینی کو بیرون ملک سستے ریٹ پر بیچیں ۔ پھر ہمارے سیاستدانوں‘ جو سیاستدان کم اور کاروباری زیادہ ہیں‘ کے اثاثے ایک سال میں ساٹھ کروڑ روپے کیسے نہ بڑھ جائیں۔
شوگر مل سے یادآیا کہ عابدہ حسین اپنی آپ بیتی میں لکھتی ہیں کہ جب نواز شریف وزیراعلی پنجاب تھے‘ ایک دن جھنگ ان کے فارم ہائوس پر آئے۔ علاقے کی ہریالی دیکھ کر کہا کہ آپ یہاں شوگر مل کیوں نہیں لگا لیتیں۔ عابدہ بولی کہ اگر وہ یہ کام کریں گی تو پھر سیاستدان ہوتے ہوئے ان کے لیے conflict of interest کا معاملہ پیدا ہوجائے گا اور وہ سیاست نہیں کر سکیں گے۔ نواز شریف بولے‘ اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں یہاں اپنی شوگر مل لگا لوں اور پھر اگلے سال وہ شوگر مل لگ گئی جس کا منافع ماشاء اللہ زوروں پر ہے۔
جب ملک کے سیاستدان کاروبار کریں گے اور ہر ماہ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے تنخواہ، گاڑیاں، پٹرول، ٹی اے ڈی اے، الائونس، میڈیکل بل بھی لیں گے تو پھر ملک میں کرپشن کیسے نہیں بڑھے گی۔ آپ گوشوارے اٹھا کر دیکھ لیں‘ تقریباً ہر تیسرے اہم سیاستدان نے اسٹاک ایکسچینج میں پیسہ لگا رکھا ہے۔ وہ سب کھیل رہے ہیں اور مال کما رہے ہیں۔
ہم برابری تو امریکہ سے کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں بل کلنٹن ٹائپ سربراہ سوٹ نہیں کرتے جو وائٹ ہائوس سے نکلتے وقت دس ملین ڈالرز کے مقروض ہوں اور اگلے کئی برس لیکچرز کے ذریعے اپنا قرض اتارتے رہتے ہیں!
جس دن ہمارے گریڈ بایئس کے بابو نے فیصلہ کر لیا کرپشن نہیں ہوگی تو جان لیں نہیں ہوگی!