دہشت گردوں کو کہیں پناہ
نہیں ملے گی... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی‘‘ اس لیے جو پناہ گاہیں انہیں پہلے سے میسر ہیں‘ انہی پر اکتفا کریں اور نئی پناہ گاہیں تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ لالچ کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے قوم پُرعزم ہے‘‘ اور ماشاء اللہ بالکل ہماری ہی طرح پُرعزم ہے اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اور قوم ایک پیج پر ہیں‘ اگرچہ ہمارے اور قوم میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور جیسی حالت اس وقت قوم کی ہے‘ خدا دشمن کی حالت بھی ایسی نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم کو نیا پاکستان دیں گے‘‘ اگرچہ قوم کو ہم اتنا کچھ پہلے ہی دے چکے ہیں جس سے اس کی تسلی ہو جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''کوئی موجودہ حالات کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا‘‘ اسی لیے مولانا فضل الرحمن کے بھی جو چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں‘ انہیں حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے لیے وہ اتنا زور لگا رہے ہیں اور حکومت کا ساتھ نہیں دے رہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میاں شہبازشریف سے ملاقات کر رہے تھے۔
21 ویں ترمیم دل پر پتھر رکھ کر
قبول کی ہے... آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''21 ویں ترمیم دل پر پتھر رکھ کر قبول کی ہے‘‘ جو بہت بھاری ہے اور حکومت کا رویہ دیکھ کر کسی وقت ہٹایا بھی جا سکتا ہے کیونکہ دل پر پتھر رکھنے کے ہم ویسے بھی عادی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''فوجی عدالتیں بنوا کر آئندہ نسلوں کو دہشت گردی سے بچا لیا ہے‘‘ جبکہ ہم نے اپنے دورِ اقتدار میں آئندہ نسلوں کو پہلے ہی روپے پیسے سمیت ہر چیز سے بچا لیا تھا جس پر موجودہ حکومت بھی پورے خشوع و خضوع سے عمل کر رہی ہے اور میگاپروجیکٹس کے ذریعے قوم کی خدمت کر رہی ہے جبکہ ہم نے یہ کام بڑے بڑے پروجیکٹس کے بغیر ہی کر کے دکھا دیا تھا اور آئندہ اگر یہ موقع نہ بھی ملے تو بھی آئندہ نسلوں کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے‘‘ اور اگر ہمارے تحفظات وعدے کے مطابق پورے نہ ہوئے تو بہترین قومی مفاد میں ہم بھی الگ راستہ اختیار کر سکتے ہیں جبکہ یہ خود تحفظات پر بھی منحصر ہے کہ وہ یکایک کب سر اٹھاتے ہیں۔ آپ اگلے روز بلاول ہائوس لاہور میں چودھری برادران سے ملاقات کر رہے تھے۔
ہم ملکی بقا کی جنگ میں
پُرعزم ہیں... شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''ہم ملکی بقا کی جنگ میں پُرعزم ہیں‘‘ لیکن لوگ اس کا اس لیے اعتبار نہیں کرتے کہ ہم ہر ملکی مسئلے پر پُرعزم ہوتے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا حالانکہ ہمارا کام صرف پُرعزم ہونا ہے جبکہ نتیجہ نکالنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے‘ وہ نکالے نہ نکالے‘ یہ اس کی مرضی ہے جس میں کوئی‘ حتیٰ کہ ہم بھی دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردوں کو اتحاد سے شکست دیں گے‘‘ کیونکہ اس کے لیے نہ صرف قانون بنا دیا ہے بلکہ کمیٹیاں بھی قائم کردی گئی ہیں اور صرف اتنا سا کام باقی ہے کہ اس سارے پلان پر عملدرآمد کس طرح کرنا ہے‘ سو‘ اس کے لیے بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا ورنہ پلان بجائے خود کوئی معمولی چیز نہیں ہے اور اکیلے اس پر بھی گزارا کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب بھی عملدرآمد کا سوچتے ہیں‘ کوئی نہ کوئی پرانا مہربان چہرہ سامنے آ جاتا ہے اور پھر مایوس ہو کر سارا کام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ ہر چیز اسی کی پیدا کی ہوئی ہے لہٰذا ان کا تدارک بھی وہی کرے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک جائزہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاسی اور فوجی قیادت
ایک پیج پر ہیں... چودھری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ''سیاسی اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہیں‘‘ اور یہ جو ہر تیسرے دن ہمیں اس بارے بتانا پڑتا ہے تو لوگ شک میں پڑ جاتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے حالانکہ مطلب صاف ہے کہ سیاسی قیادت بھی ایک پیج پر ہے اور فوجی قیادت بھی‘ اور یہ کام پوری مستقل مزاجی کے ساتھ ہو رہا ہے کیونکہ دونوں نے اپنا اپنا پیج مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے کیونکہ تیز ہوا میں دونوں پیج ہر وقت پھڑپھڑاتے رہتے ہیں اور احتیاط کی جاتی ہے کہ کوئی پیج اِدھر اُدھر نہ ہو جائے جبکہ ہوا کے بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے کہ یہ کب اور کس طرف کی چل پڑے کیونکہ یہ قدرتی چیز ہے اور اس کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جا سکتا؛ چنانچہ ہم نے ایک بار پہلے بھی اپنے پیج کو ہوا سے بچانے کی کوشش کی تھی لیکن پیج ایسا غائب ہوا کہ دس بارہ برس تک اس کا کوئی پتہ ہی نہ چلا‘ اس لیے اس ہوا سے ہر وقت خدا کی پناہ ہی مانگتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گرد ہم میں موجود ہیں‘‘ اور‘ ایسا لگتا ہے کہ موجود ہی رہیں گے‘ اس لیے سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ٹیکسلا اور راولپنڈی کے درمیان ایک بس سروس کا افتتاح کر رہے تھے۔ اور‘ اب آخر میں الیاس بابر اعوان کی غزل کے کچھ شعر جو ماہنامہ ''بیاض‘‘ کے تازہ شمارہ میں شائع ہوئی ہے:
گھر کو جانے کا راستہ نہیں تھا
ورنہ رہنے کو کیا سے کیا نہیں تھا
مجھے کہتا تھا چھوڑ دے مجھ کو
اور مرا ہاتھ چھوڑتا نہیں تھا
کام سارے درست تھے میرے
جب مجھے کوئی ٹوکتا نہیں تھا
لوگ آنکھوں سے آتے جاتے تھے
حرف جب راستہ بنا نہیں تھا
تب کہیں لوگ جانتے تھے مجھے
جب مجھے کوئی جانتا نہیں تھا
آج کا مطلع
بند آنکھیں نہیں کرتا کوئی
ہونے والا ہے تماشا کوئی