دکھی دل سے زیادہ نازک اور حساس چیز اور کوئی نہیں ہوتی۔ سانس بھی آہستہ لینا پڑتا ہے کہ کہیں اس پر ٹھیس نہ لگ جائے۔ عمران خان کو یہ وہم گمان بھی نہ ہو گا جو آرمی پبلک سکول پشاور میں‘ شہیدوں کے غم زدہ لواحقین سے تعزیت کے لئے جانے پر ان کے ساتھ ہو گیا۔ سچ یہی ہے کہ عمران خان سے بھول ہو گئی۔ انہوں نے اس المیے کوسیاسی حوالے سے دیکھا جبکہ خیبرپختونخوا کے عوام انہیں دوسرے رشتے کے حوالے سے بھی دیکھتے ہیں۔ ایک دکھیاری ماں نے احتجاج کرتے ہوئے جو کہا‘ وہ ایک دردبھرے دل کی آواز ہے... ''ہم نے صوبہ اس کے حوالے کیا۔ ہم نے اسے ووٹ دے کر منتخب کرایا اور یہ چالیسویں سے پہلے‘ شادی کر کے بیٹھ گیا۔‘‘ دکھیاری ماں نے کہنے کو تو بہت کچھ کہا اور جو بھی کہا وہ اس حالت اور کیفیت میں کہنا ہی چاہیے تھا‘ اس کی شکایت یہ تھی کہ ہمارے دلوں پر ابھی چھریاں چل رہی تھیں اور عمران کو شادی کی پڑ گئی۔ بے شک یہ ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ کے تعاون سے چند لوگوں کا بندوبست کر لیا گیا ہو کہ عمران سے، اپنے غم میں بروقت عدم شرکت کی بنا پرناراض ہوں۔ ''گو عمران گو‘‘ کا نعرہ یقینا انہی لوگوں نے لگایا ہو گا جنہیں ''گو‘‘ کے ان نعروں کا رنج تھا‘ جو مہنگائی‘ بیروزگاری‘ بجلی اور گیس کی کمی اور عدم تحفظ کی وجہ سے لگتے رہے۔ عمران نے عوام کو یہ تکالیف نہیں پہنچائیں‘ لیکن ایک غم زدہ ماں کا دل دکھانا بھی چھوٹا گناہ نہیں۔تہذیب و شائستگی سے کام لیا جاتا تو گو عمران گو کا نعرہ لگوانے کی کوئی تک نہیں تھی۔ لیکن جو لوگ کئی مہینوں سے ''گو گو‘‘ کے نعرے سنتے سنتے تنگ آئے ہوئے تھے‘ انہوں نے شہیدوں کے غم زدہ لواحقین کے رنج کو چالاکی سے‘ عمران خان کے خلاف‘ سیاسی احتجاج کے لئے استعمال کر لیا۔ پاکستانی سیاست میںذرا سی غیرارادی لغزش کو بھی معاندانہ مقاصد کے لئے استعمال کر لیا جاتا ہے۔ ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جن کے پاس کوئی دلیل باقی نہ رہ گئی ہو۔ ان کا ذہنی دیوالیہ پن ‘ ان سے ہر رکیک حرکت کرا لیتا ہے۔ عمران سے تو غلطی ہوئی لیکن اس کے مخالفین نے ‘ شہدا کے وارثوں کے غم و اندوہ کو جتنی دیدہ دلیری سے ‘ اپنے مکروہ سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا‘ ان کی یہ حرکت بھی گھٹیا پن کا مظاہرہ ہے۔
مختلف اخباری اطلاعات سے پتہ چلا کہ عمران خان کی اصل شادی اگست میں ہو گئی تھی۔ مناسب ہوتا کہ اسی وقت اس کا اعلان کر دیا جاتا۔ ستمبر یا اکتوبر میں رخصتی ممکن تھی۔ 16 دسمبر کا سانحہ بعد میں رونما ہوا اور جب یہ سانحہ ہو گیا تو پھر چالیسویں سے پہلے رخصتی مناسب نہیں تھی۔ عمران خان کومعلوم ہونا چاہیے کہ جس صوبے میں یہ سانحہ ہوا‘ اس کے ووٹروں نے بھاری تعداد میں ووٹ دے کرانہیں صوبائی حکومت بنانے کا اختیار دیا۔ دوسرے کسی سیاستدان پر وہ اپنا حق نہیں جتاتے۔ لیکن عمران خان سے بجا طور پر‘ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے دلوں کو ٹھیس نہیں لگائیں گے۔ لیکن ٹائمنگ کی غلطی سے یہ ٹھیس لگی اور بہت زور سے لگی۔ عمران خان کا فرض ہے کہ آج کے واقعہ پر‘ تمام شہدا کے لواحقین کو درد میں ڈوب کر ایک خط لکھیں جس میں وہ اپنی اس کوتاہی پر معافی مانگیں کہ ان سے نادانستہ غلطی ہو گئی۔ انہیں چاہیے تھا کہ شہیدوں کا چالیسواں ہونے سے پہلے خوشی کی کوئی تقریب منعقد نہ کرتے۔ انہوں نے اس معاملے کو معمول کی بات سمجھا۔ لیکن لوگ‘ عمران خان کو ووٹ دے کر‘ ان کے ساتھ جذباتی رشتہ استوار کر بیٹھے تھے۔ چالیسویں سے پہلے‘ شادی کی کوئی تقریب نہیں کرنا چاہیے تھی۔ وہ غم زدگان سے خلوص دل کے ساتھ معافی مانگیں۔دکھی دلوں کو ٹھیس بہت جلد پہنچتی ہے‘ لیکن فوراً ہی معافی مانگ کر غم میں شریک ہونے کا احساس دلا دیا جائے تو گلے شکوے جلد ہی دور ہو جاتے ہیں۔ خیبرپختونخوا والوں نے عمران کو جتنی محبت دی ہے‘ وہ بجا طور سے توقع رکھتے ہیں کہ غم و اندوہ کے ان لمحات میں‘وہ بھی ان کا غم بٹائیں گے اور چالیسویں سے پہلے ‘ شادی کی تقریبات ملتوی کر کے‘ غمگساری کا ثبوت دیں گے۔ ایک دکھی ماں کا احتجاج‘ اس کا حق ہے۔ عمران خان یہ حق تسلیم کرتے ہوئے خلوص دل کے ساتھ ان سے معافی مانگیں۔ میں نے چند روز پہلے اپنے ایک کالم میں تجویز دی تھی کہ شہید ہونے والے بچوں کے نام پر ایک یادگار تعمیر کی جائے اور اس کے بلند چبوترے کے پتھروں پر چاروں طرف شہدا کے نام کندہ کئے جائیں۔ عمران خان کو واشنگٹن میں اگر لنکن میموریل پر جانے کا اتفاق ہوا ہے تو انہوں نے وہاں ایک یادگار پر ویتنام میں جانیں دینے والے ہزاروں امریکیوں کے نام لکھے دیکھے ہوں گے۔ بہتر ہو گا کہ وہ غم زدگان سے معافی مانگنے کے بعد‘ صوبائی حکومت یا اپنی طرف سے‘ یادگار شہدا تعمیر کرنے کا اعلان کریں۔ہو سکتا ہے‘ دکھی مائوں کے دلوں کو تھوڑی بہت تسکین مل جائے۔ ایک مخلص اور صاحب دل لیڈر کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے حامیوں کے احساسات اور جذبات کا پورا خیال رکھے ۔ خاص طور سے اس وقت جبکہ مائوں کے کلیجے ناگہانی موت کے زخموں سے چور ہوں:
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
یہ بڑا نازک اور حساس معاملہ ہے۔ خان صاحب آگے بڑھ کر‘ غلطی کی تلافی کر دیں تو ٹوٹے ہوئے دلوں کی ٹیسیں ماند پڑ سکتی ہیں۔ ورنہ عمران کے دشمن‘ غم زدگان کے دلوں پر چرکے لگا کر عمران سے پیدا ہونے والی شکایت کو نفرت میں بدلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔
شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے اپنا ایک فوکل پرسن نامزد کیا ہے‘ جو دکھی والدین کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے مسائل حکام اور عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ انہوں نے غمزدہ والدین کی طرف سے مطالبہ کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے فوجیوں کو جو مراعات دی جاتی ہیں‘ شہید بچوں کے غریب والدین کوبھی وہی مراعات پیش کی جائیں۔ البتہ جن خاندانوں کی مالی حالت اچھی ہے‘ وہ خود ہی اپنے شہید بچے کے بدلے میں مراعات لینا پسند نہیں کریں گے۔فوکل پرسن نے یہ بھی بتایا کہ چوتھی جماعت کے جو آٹھ بچے شہید ہوئے ہیں‘ ان کے چھوٹے بہن بھائیوں کو مفت تعلیم کے ساتھ ماہانہ اعزازیہ بھی دیا جائے تاکہ ان کے غم زدہ خاندانوں کو مالی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خبر ہے کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں کو بے رحمی سے شہید کرنے والے جلادوں کو افغان حکومت نے پکڑ لیا ہے اور انہیں پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے یا کر دیا جائے گا۔ عمران خان‘ شہید بچوں کا بدلہ لینے کے لئے ان جلادوں کو جلدازجلد پھانسیاں دینے کا مطالبہ شروع کر دیں اور ہو سکے تو چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات کر کے پیشکش کریں کہ سفاک قاتلوں کو اسی سکول کی گرائونڈ میں پھانسیاں دی جائیں‘ جس کے فرش کو بے گناہ بچوں کے خون میں ڈبویا گیا تھا۔ پھانسی پر عملدرآمد کی ذمہ داری صوبائی انتظامیہ پر ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت تحریک انصاف کی ہے۔ لہٰذا وہ جیسے چاہیں ان جلادوں کی پھانسیوں کے مناظر ایسے دکھی والدین کو دکھانے کا بندوبست بھی کر دیں‘ جو اس کی خواہش رکھتے ہوں۔ جبکہ متاثرہ والدین کے فوکل پرسن کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کے بجائے‘ سرعام لوگوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کر کے مارا جائے۔ عمران خان کو چاہیے کہ بچوں کے والدین کی تنظیم بنانے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے‘ اس کی سربراہی کے لئے آگے بڑھ کر خود کو پیش کر دیں۔ اس طرح انہیں اپنی غلطی کی تلافی کا موقع بھی مل جائے گا اور دکھی دلوں کی تسکین بھی ہو جائے گی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر کل کے اخبار میں یہ خبر چھپ جائے کہ بیگم عمران خان میکے چلی گئی ہیں اور وہ شہدا کا چالیسواں ہونے کے بعد ہی سسرال میں آئیں گی۔آج مجھے امریکی سیکرٹری خارجہ ‘جان کیری کے دورے پر لکھنا تھا مگر اچانک یہ واقعہ رونما ہو گیا اور میں نے آج ہی اس پر لکھنا ضروری سمجھا۔