تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     15-01-2015

توہینِ رسالتؐ کی آزادی

فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو کا تازہ شمارہ تیس لاکھ کی تعداد میں چھپا۔ سرورق پر محسنِ انسانیت سرورکائناتﷺ کا خاکہ ہے۔ چارلی ہیبڈو کے وکیل رچرڈ مالکا نے فرانسیسی ریڈیو کو بتایا کہ ''I AM CHARLIE‘‘ کا مطلب ہے ''توہین کی آزادی کا حق‘‘۔ 
فرانس میں 29 جولائی 1881ء کے Law of freedom of the Press کی دفعات 24,32,33 کے تحت کسی شخص‘ گروہ‘ زبان‘ نسل‘ قوم‘ مذہب‘ صنف‘ جنسی تعلقات کے حوالے سے کسی قسم کے امتیازی‘ دلآزار‘ ہتک آمیز اور مضحکہ خیز مواد کی اشاعت ممنوع ہے اور یہودیوں کے خلاف نازی مظالم (ہولوکاسٹ) پر کسی قسم کا سوال اٹھانا جرم ہے۔ یہ کہنے پر بھی پانچ سال قید اور ہزاروں ڈالر جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے کہ ہٹلر کے ہاتھوں مرنے والے یہودیوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے کم تھی۔ 
آزادی اظہار اور تحریر و تقریر کا حق اسلام نے انسانوں کو اس وقت عطا کیا جب عالم انسانیت پر ظلم‘ جبر‘ تشدد‘ نسل پرستی‘ جاہلانہ عصبیت اور مذہبی گھٹن کی حکمرانی تھی۔ سوال اٹھانا سنگین جرم تھا اور دل کی بات زبان پر لانا موت کو دعوت دینے کے مترادف۔ ایمان کیا ہے؟ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب (دل میں کسی چیز کو ماننا اور زبان سے اس کا اقرار کرنا) عرب معاشرے میں بلال حبشیؓ اور صہیب رومیؓ کو اپنے دل کی بات زبان پر لانے کے جرم میں تپتی زمین پر گھسیٹا‘ کوڑوں سے پیٹا اور بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا۔ عربوں کو یہ آزادی اسلام کے صدقے ملی کہ ایک بدو مجمع میں کھڑا ہو کر امیرالمومنین عمرؓ سے سوال کر سکے ''انہوں نے کرتا کیسے سلوا لیا‘‘۔ امیر المومنین عمرؓ نے یہ تاریخی جملہ کہا ''تم نے لوگوں کو اپنا غلام کیسے بنا لیا جبکہ ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنا‘‘۔ فرانس کے روحانی باپ ژاں ژاک روسو نے صدیوں بعد اپنی کتاب معاہدہ عمرانی کا آغاز اس جملے سے کیا ''لوگ پابہ زنجیر ہیں حالانکہ وہ آزاد پیدا ہوئے تھے‘‘۔ امن عامہ‘ شائستگی‘ اخلاقیات اور احترام کے ساتھ مشروط آزادیٔ اظہار کے حق سے کسی مسلمان کو انکار ہو سکتا ہے نہ ہے۔ 
عالم انسانیت کو فکرو شعور کی عظمتوں سے روشناس کرانے والے پیغمبرِ امنﷺ کی تضحیک‘ اُن پر جان قربان کرنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دلآزاری کو آزادیٔ اظہار قرار دینا اور رچرڈ مالکا کے بقول توہین کی آزادی کا حق مانگنا Freedom of Press or Speech کی کون سی قسم ہے؟ بلاشبہ نفرت کا کاروبار اور پرلے درجے کی اسلام دشمنی۔ جو لوگ توہین کی آزادی کا حق مانگنے اور مذہب کا مذاق اڑانے والوں کی تائید و حمایت میں پاگل ہوئے جا رہے ہیں وہ اُن سترہ یورپی ممالک میں‘ فرانس جن میں سرفہرست ہے‘ ہولوکاسٹ کے بارے میں سوال کیوں نہیں اٹھاتے‘ مسلمانوں کو اعتراض کا حق کیوں نہیں دلاتے جہاں یہ ناقابل معافی جرم ہے اور جس کے ارتکاب پر برطانوی تاریخ دان ڈیوڈارونگ سمیت سینکڑوں مورخ‘ دانشور‘ صحافی اور مصنف سزایاب ہو چکے ہیں۔ فرانس‘ بلجیم‘ سوئٹزرلینڈ‘ جرمنی اور دیگر ممالک میں ہولوکاسٹ کی مخالفت پر سزا پانے والوں کی فہرست انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ 
دو سال قبل جب یورپ میں رسول اکرمﷺ کے بارے میں دلآزار بحث شروع ہوئی تو امریکی صحافی WILLIAM SALETAN نے اپنے مضمون میں سوال اٹھایا How can we ban hate speech against JEWS, while defending morckey of Muslims.
یہی سوال مسلمانوں کا فرانس‘ یورپ اور امریکہ کے حکمرانوں‘ عوام‘ دانشوروں اور ان کے میڈیا سے ہے کہ کیا ہمارے رسولﷺ کی عزت و ناموس پر حملہ‘ ذات رسالت مآبﷺ کی کارٹونوں کے ذریعے تضحیک‘ فلموں ڈراموں کے ذریعے توہین اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دلآزاری بھی غیر مسلموں اور اُن کے وظیفہ خواروں کا بنیادی حق ہے؟ اور اس قدر مرغوب و دلچسپ موضوع کہ اگر کوئی جریدہ ایسا مواد شائع کرے تو تیس لاکھ یورپی باشندے اسے خریدنے پر تیار ہوتے ہیں۔ پھر کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ چند گمنام‘ ناقابل ذکر جنونی اور مذہب بیزار لوگوں کی شرارت ہے جس پر مسلمانوں کو مشتعل ہونے کی ضرورت ہے نہ کسی بنیاد پرست و انتہا پسند کو آخری اقدام پر تُل جانے کی اجازت۔ ان تیس لاکھ خریداروں کے بارے میں مہذب دنیا کا کیا خیال ہے؟ برطانیہ میں 99 پنس کے پرچہ کی بولی 511 پائونڈ لگانے والے اس چیتھڑے کو پڑھنا چاہتے ہیں یا اپنے ہم وطن کلمہ گو شہریوں کو چڑانے اور مذہبی تعصب و نفرت کو پروان چڑھانے کی مہم پر ہیں؟ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کا یہ مشغلہ مغرب کے مجموعی مزاج کی عکاسی نہیں؟ 
کوئی مانے نہ مانے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت ہو یا فلمسازی اور لاکھوں کی تعداد میں توہین کی آزادی کے حق کی حمایت یہ ایک سوچی سمجھی شرارت ہے‘ اسلام سے بغض اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہار ہے۔ کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب ''The Prophet of our Time‘‘ میں لکھا ''مغربی دنیا میں اسلام سے خوف کھانے کی تاریخ طویل ہے اس کے ڈانڈے صلیبی جنگوں سے جا ملتے ہیں۔ اہل مغرب نے رسول اکرمﷺ کو معروضیت کی روشنی میں دیکھنا ہمیشہ مشکل پایا اب ہم اس قسم کے تعصب میں گھرے رہنا مزید گوارا نہیں کر سکتے کیونکہ یہ انتہا پسندوں کے لیے تحفہ ہے جو یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ مغربی دنیا واقعی اسلامی دنیا کے خلاف نئی صلیبی جنگوں میں مشغول ہے‘‘۔ 
چارلی ہیبڈو کے مکروہ فعل کی حیلوں بہانوں سے حمایت کرنے والوں کو شاید علم نہیں کہ یہ جریدہ خود آزادیٔ اظہار کا احترام نہیں کرتا۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے 2009ء میں رپورٹ کیا کہ ایک اسی سالہ اخبار نویس مورس سائنٹ کو‘ جو سائن کے قلمی نام سے لکھتے تھے‘ چارلی ہیبڈو نے محض اس بنا پر ملازمت سے نکال دیا کہ اس نے اپنے مضمون ''لا افیئر سائن‘‘ میں صدر سرکوزی کے بیٹے نکولاژ سرکوزی کے ایک یہودی لڑکی سبیون ڈارٹی کے ساتھ تعلقات پر طنزیہ آرٹیکل لکھا۔ چارلی ہیبڈو کے ایڈیٹر فلپ وال نے سائن کو برطرف کیا تو فلسفی برنارڈ ہینری سمیت سرکردہ دانشوروں نے اس متعصبانہ فیصلے کو خوب سراہا۔ 
عام طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ دلآزار کتب‘ خاکوں اور مضامین کی اشاعت سے کسی کا کچھ نہیں بگڑا الٹا مسلمان دنیا بھر میں مذاق بن گئے کہ یہ عدم برداشت کے پیکر اور انتہا پسند ہیں۔ اگر ان واقعات کو نظرانداز کیا جائے تو کہیں بہتر ہے۔ اڑہائی سال قبل برطانوی اخبار ڈیلی میل نے سلمان رشدی کا ایک انٹرویو شائع کیا جس میں گستاخ رسول نے کہا ''میری زندگی اجیرن ہو گئی ہے‘ بیوی بچے چھوڑ گئے ہیں‘ نہ میں چہل قدمی کر سکتا ہوں نہ ہوائی سفر میں محفوظ‘ اندھیرے کمرے میں رہتا ہوں اور معمولی آواز سے خوفزدہ ہو جاتا ہوں‘‘۔ کینیڈین مصنف دلفرڈ کینٹ ویل نے بیسیویں صدی کے وسط میں لکھا تھا کہ ''جب تک مغربی تہذیب عقلی‘ سماجی‘ سیاسی‘ اقتصادی طور پر اور مسیحی کلیسا مذہبی طور پر دیگر لوگوں کے ساتھ باہم احترام کا سلوک کرنا نہیں سیکھ لیتے تب تک یہ دونوں حقائق سے نمٹنے میں باری باری ناکام ہوں گے‘‘۔ 1990ء کے عشرے سے لے کر اب تک پیش آنے والے واقعات کا سبق یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے کچھ سیکھا ہے نہ چارلی ہیبڈو کی طرف سے توہین کی آزادی کے حق کی حمایت کرنے والے دنیا بھر کے سیاستدانوں اور دانشوروں نے۔ شاید ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ اپنا کام جاری رکھو کہ مسلمان روپیٹ کر‘ شور مچا کر بالآخر خاموش ہو جائیں گے۔ انہیں بالآخر مجبوراً مغرب کا یہ حق تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسلمانوں کی دلآزاری‘ شعائر اسلام کی توہین اور محسنِ انسانیتﷺ کی تضحیک ان کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے جس کا احترام نہ کرنے والے گردن زدنی ہیں۔ 
پانچ درجن مسلمان ممالک‘ ان کی تنظیم او آئی سی اور عالم اسلام کے سیاسی و مذہبی پیشوائوں کی خاموشی سے اس سوچ کو تقویت بھی ملتی ہے مگر عشق رسولؐ سے سرشار ڈیڑھ ارب مسلمان بھی تو ہیں جو اپنی شناخت عقیدے و نظریے اور ناموسِ رسولؐ کے تحفظ کی لڑائی برسوں سے لڑ رہے ہیں اور ابھی تک ناکام نہیں ہوئے۔ او آئی سی اگر خوابِ خرگوش سے بیدار نہیں ہوتی امریکہ و یورپ کے گماشتہ حکمران اگر ہوش کے ناخن نہیں لیتے اور مسلمانوں کو بار بار اشتعال دلا کر تہذیبوں کے تصادم کی راہ ہموار کرنے والے جنونی اگر باز نہیں آتے تو پھر اقوام متحدہ نوٹس لے اور توہین مذہب کے علاوہ گستاخی ٔ رسولؐ کو ممنوع قرار دے۔ مذہبی تعصب بھڑکانے‘ بغض و عناد کی ترویج کرنے‘ کسی مذہب کی توہین اور مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کے لیے عالمگیر قانون سازی کی جائے ورنہ ڈیڑھ ارب مسلمان یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آزادیٔ اظہار کی آڑ میں گستاخانہ تحریروں اور خاکوں کی اشاعت صدیوں سے جاری صلیبی جنگ کا تسلسل ہے اور مسلمانوں پر سیاسی‘ اقتصادی‘ معاشی‘ سماجی‘ تہذیبی‘ مذہبی‘ ثقافتی غلبہ پانے کی طویل منصوبہ بندی کا حصہ۔ پھر جو ہو سو ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved