ویسے تو خونریزی اس ملک کا معمول ہے لیکن سانحہ پشاورکی بربریت ''معمول‘‘ سے ذرا زیادہ تھی‘ جس نے سماج کا صدمہ اور بھی گہرا کر دیا۔ درس گاہوں پر دہشت گردی اور ڈرون حملے تو پہلے بھی ہوئے، بچے تو تھر میں بھی مر رہے ہیں اور دنیا میں 1132 بچے روزانہ غذائی قلت اور قابل علاج بیماریوں سے مرتے ہیں لیکن کسی ایک واقعے کو 'بڑا‘ بنا کر، نہ رکنے والا معاشی قتل عام اس کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے۔ پشاور میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے درندوں کے ہاتھوں ڈیڑھ سو بچوں کی ہلاکت کے بعد عوام میں پنپنے والے غم و غصے کو ''سوگ‘‘ اور مایوسی میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ کارپوریٹ میڈیا نے بھی اس سلسلے میں حکمران طبقے کی پوری مدد کی۔ اب اس مایوسی کو خوف میں تبدیل کر کے عوام کو سماجی، سیاسی اور نفسیاتی طور پر مجروح کیا جا رہا ہے۔
پُرانتشار اور بے ہنگم معاشرے پر براجمان حکمرانوں کی نااہلی بالکل واضح ہے۔ ایک مفلوج معیشت اور متروک نظام کی پاسبان سیاسی اشرافیہ کا وقتاً فوقتاً ہونے و الے سانحات پر رد عمل منافقت سے لبریز ہوتا ہے۔ یہ حکمران خونریزی کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی پالیسیاں متضاد، لائحہ عمل پُرفریب اور عزائم منفی ہوتے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف عوام کو ابھارنے اور عزم و ہمت دینے کی بجائے انہیں بددلی اور مزید دہشت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ ریاستی جبر عوام پر مزید بڑھا دیا جاتا ہے اور پھر اسی ریاست کو ان کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ریاست طبقاتی سماج میں سے برآمد ہوتی اور حکمران طبقے کا ہتھیار بن کر محنت کش عوام پر مسلط ہو جاتی ہے۔ ریاست اور معاشرے کے درمیان ایک فاصلہ اور تفریق قائم ہو جاتی ہے اور بالادست قوت کے طور پر سماجی نفسیات پر غالب کر دی جاتی ہے۔ بیرونی جنگوں کے لیے تو یہ سلسلہ کسی حد تک چل جاتا ہے لیکن نظام کا معاشی اور سماجی بحران داخلی سطح پر بھی اسے خونریز قوت بنا دیتا ہے جو کبھی مذہب کے نام پر کالے دھن کے تحفظ کے لیے تشدد کا استعمال کرتی ہے تو کبھی قومیت اور لسانیت کے تعصبات کی بنیاد پر بدعنوانی کی ڈھال بن جاتی ہے۔
یہاں کے باسی پہلے کیا کم خوف و ہراس میں مبتلا تھے کہ اب مذہبی دہشت گردی کا خوف سرکاری طور پر ان کی نفسیات پر لادا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کا یہ موقف ہی ان کے کردار کی عکاسی کرتا ہے کہ لوگ اپنی حفاظت کا خود بندوبست کریں۔ عوام نے اپنی حفاظت کے لئے نجی سکیورٹی گارڈ ہی رکھنے ہیں تو پھر ریاست کا کیا کام رہ جاتا ہے؟ کس بنیاد پر 90 فیصد بالواسطہ ٹیکس غریب عوام کی رگوں سے نچوڑا جاتا ہے؟ حملے کے خلاف سب سے بڑا دفاع جوابی حملہ ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جوابی اور فیصلہ کن حملہ محنت کش عوام ہی اشتراکی بنیادوں پر یکجا ہو کر کر سکتے ہیں‘ لیکن عوام کو اس درندگی کے خلاف ابھارنے سے یہ حکمران اس لیے خوفزدہ ہیں کہ ان کی اپنی لوٹ مار کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ عوام جب اٹھیں گے تو بارود کی دہشت گردی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے اور حکمرانوں کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے۔
کارپوریٹ میڈیا پر بھی ''جان و مال‘‘ کے تحفظ کی بات کرتے ہوئے جان پر کم اور 'مال‘ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کیونکہ غریبوں کے پاس تو صرف جان ہی ہوتی ہے، 'مال‘ حکمرانوں کے پاس ہوتا ہے۔ عوام ایک طرف صدموں سے گھائل ہیں تو دوسری طرف ریاست کے خوف تلے دب کر سسک رہے ہیں۔ ان حالات میں حکمران طبقے کے کچھ حصے ایسے ہیں جو اس خوف کو بھی کیش کرا کے بھاری منافع کما رہے ہیں۔ ''عوام کے دفاع‘‘ کے لیے سکولوں کے سکیورٹی انتظامات کی ایک مہم جاری کی گئی۔ دیواریں اونچی کرنے، خاردار تار لگانے، کیمرے اور حفاظتی دروازے لگانے کا کاروبار زوروں پر ہے۔ سکیورٹی آلات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے۔ ان تمام اخراجات کا بوجھ فیسوں میں اضافے کے ذریعے ان والدین پر پڑے گا‘ جنہیں بچوں کی حفاظت کے خدشات ذہنی طور پر اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں، اب ان کی جیب بھی کاٹی جا رہی ہے۔ امیروں کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن دو وقت کی روٹی اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات بمشکل پورے کرنے والا سفید پوش طبقہ کہاں جائے گا؟
پاکستان کی پیداواری صنعت زوال کا شکار ہے۔ فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو رہے ہیں‘۔ لیکن کچھ کاروبار ایسے ہیں جو دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ غورکیا جائے تو یہ تینوں کاروبار انسان کی سماجی بیگانگی اور معاشرتی خوف سے پھلتے پھولتے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد تو سکیورٹی فرموں کی چاندی ہو گئی ہے۔ اب تو ان فرموں کو ملنے والے کاروباری ایوارڈز کے اشتہار بھی شائع ہو رہے ہیں۔ سکیورٹی کے زیادہ تر نجی ادارے ریٹائرڈ اشرافیہ کے ہیں‘ جہاں کام کرنے والے گارڈوں سے انتہائی قلیل اجرت پر دن رات کام لیا جاتا ہے۔ یہ گارڈ بھی زیادہ تر ریٹائرڈ سپاہی ہوتے ہیں جو عمر کے آخری حصے میں چند ہزار روپے کے عوض اپنی جان دائو پر لگا دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
'عوام کے دفاع‘ کو اگر کاروبار بنا دیا گیا ہے تو 'ملک و قوم‘ کے دفاع کی صورت حال بھی مختلف نہیں۔ آج کسی 'قوم‘ کا وجود کسی دوسری 'قوم‘ سے دوستی یا دشمنی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ دوسری قوموں سے دشمنی اور جنگیں درحقیقت اپنی 'قوم‘ میں خوف پھیلانے کا ایک طریقہ ہے‘ جس کے تحت 'دفاعی‘ بجٹ بنتے ہیں، اسلحہ ساز کمپنیاں منافع اور حکمران کمیشن بناتے ہیں۔ عوام کو روٹی ملے نہ ملے ان کی 'حفاظت‘ کے لیے بیش قیمت ہتھیار بہرحال خریدے جاتے ہیں۔ جنگیں اس نظام کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ زائد پیداوار کے سرمایہ دارانہ بحران کا نتیجہ تھی‘ جس میں ہونے والی تباہی کی تعمیر نو نے اس نظام کو وقتی سہارا دیا۔ اس کے بعد دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں اور خانہ جنگیوں کے مقاصد بھی زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ 1945ء کے بعد ہونے والے تنازعات میں دوسری عالمی جنگ سے تین گنا زیادہ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
1916ء میں پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے متعلق اپنی ساتھی انیسا آرمنڈ کے سوالوں کے جواب میں لینن نے کہا تھا: ''جنگ بہت ہولناک ہوتی ہے لیکن ہولناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہے‘‘۔ امریکی سامراج کی جارحیت میں جہاں اس کا سرکاری خزانہ خالی ہو گیا ہے وہاں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہزاروں ارب ڈالرکمائے ہیں۔ ایسی ملٹی نیشنل اجارہ داریاں بھی ہیں جو انسانوں کو برباد کرنے کے آلات اور جان بچانے کی دوائیاں بیک وقت بناتی ہیں۔ ریاستوں کی خارجہ پالیسیاں آخری تجزیے میں یہی کمپنیاں تشکیل دیتی ہیں۔ ایران کا ایٹمی پروگرام خطرناک ہو سکتا ہے لیکن امریکہ جنگی صنعت کے لیے انتہائی منافع بخش اور 'مفید‘ ہے۔ جنگی آلات کی ایک امریکی اجارہ دار کمپنی کے نئے جنگی طیارے F-35 کی قیمت 142ملین ڈالر (تقریباً 15ارب روپے) ہے اور یہ سارا پیسہ امریکی عوام کو اپنی 'حفاظت‘ کے لیے اسلحہ ساز صنعت کی تجوریوں میں ڈالنا ہو گا۔ ان طیاروں کی پیداوار اور خریداری پر جو پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے اس سے ہر بے گھر امریکی خاندان کو گھر مل سکتا ہے۔ اس 'جدید‘ جہاز کو 1940ء کا ریڈار بھی پکڑ سکتا ہے۔ دوسرے کئی نقائص کے سبب F-35 پروجیکٹ کئی سال تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔ بنائے گئے جہاز ہینگر پر بے کار کھڑے ہیں لیکن 400 ارب ڈالر (40 ہزار ارب روپے) 2006ء سے اب تک خرچ ہو چکے ہیں۔
منافع پر مبنی نظام میں جب شرح منافع گرنے لگے تو اسے بحال کرنے کے لیے حکمران پاگل پن کی حد بھی عبور کر جاتے ہیں، چاہے نسل انسان کو برباد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ سماج سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کی بیماری میں مبتلا ہے اور اس موذی مرض نے انسانی تہذیب کا وجود ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ سرمایہ داری اور دہشت گردی میں فرق صرف اصطلاح کا ہے!