''قابل ذکر کتابیں شائع نہ ہونے کے باوجود شاعروں اور ادیبوں کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ ہائے حسنِ کارکردگی اور کمالِ فن ایوارڈ ضرور ملتے ہیں گویا جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں۔ ایک تمغہ تو ہمارے انتظار حسین کو حکومت فرانس نے بھی عطا کیا جس پر ظفر اقبال خاصے چراغ پا ہوئے اور یہ بے محل سوال کر ڈالا کہ معلوم نہیں ایوارڈ موصوف کو ان کے کسی افسانے پر ملا ہے یا ناول پر۔ ظفر اقبال اور انتظار حسین ''چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد‘‘ والی ہلکی پھلکی نوک جھونک کے ساتھ ساتھ امسال ایک دلچسپ بحث غزل اور نظم کے حوالے سے ستیہ پال آنند کی پاکستان آمد پر شروع ہوئی...‘‘ (ادب کی منڈی میں اُتار چڑھائو از فاضل جمیلی سنڈے ایڈیشن مورخہ11جنوری 2015ء)
اصل صورت حال کچھ اس طرح سے ہے کہ موصوف نے میرے جس کالم کے حوالے سے لکھا ہے‘ اس کا عنوان ہے ''حکومت فرانس کو مبارکباد‘‘ جو شروع ہی اس طرح سے ہوتا ہے:
''حکومت فرانس کو مبارک ہو کہ اس نے انتظار حسین کو ادب‘ آرٹ اور کلچر کا اپنے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ دے کر اپنی اور اس ایوارڈ کی عزت میں اضافہ کیا ہے۔ یقینا انتظار حسین کے وہ دوست‘ پرستار اور مداح بھی اس تہنیت کے مستحق ہیں جن کا سلسلہ کشور ناہید‘ محمد سلیم الرحمن‘ اصغر ندیم سید‘ آصف فرخی‘ مسعود اشعر‘ اس خاکسار اور موصوف کے پبلشر افضال احمد (سنگِ میل پبلی کیشنز)‘ احمد مشتاق اور ایرج مبارک سے لے کر جانے کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے۔ انتظار صاحب کو ملک کا کم و بیش ہر چھوٹا بڑا ایوارڈ تو پہلے ہی پیش کیا جا چکا ہے جن میں اکادمی ادبیات اسلام آباد اور حکومت پنجاب کی طرف سے کمالِ فن ایوارڈ بھی شامل ہیں‘ بلکہ پچھلے سال انہیں ایک عالمی ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا... مذکورہ بالا ایوارڈ انہیں اگلے روز ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران عزت مآب سفیر فرانس نے پیش کیا۔ وہ موصوف کو پہلے تو جانتے پہچانتے نہیں ہوں گے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ شناخت کے لیے موصوف سے کوئی افسانہ یا ناول سنا گیا ہو۔ نامور سنگر ایلوس پریسلے ایک بار کہیں جاتے ہوئے ایک گائوں سے گزر رہے تھے کہ انہیں سو ڈالرز کی ضرورت پڑ گئی۔ وہ ایک مقامی بینک میں گئے اور چیک پیش کیا۔ بینک والوں نے کہا کہ ہم اپنے قواعد کے مطابق شناخت کے بغیر رقم آپ کو نہیں دے سکتے جس پر موصوف نے کہا کہ بھئی‘ میں ایلوس پریسلے ہوں‘ کیا آپ مجھے نہیں جانتے اور کیا آپ نے میرا گانا کبھی نہیں سنا؟ تو انہوں نے کہا کہ ضرور سنا ہوا ہے اور کئی بار سنا ہوا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایلوس پریسلے آپ ہی ہوں‘ البتہ آپ اگر گانا سنا دیں تو ہم آپ کو یقینا پہچان سکتے ہیں۔ اس پر پریسلے یہ کہتے ہوئے بینک سے باہر نکل گئے کہ میں اگر سو ڈالرز کے لیے گانا سنا دوں تو میں واقعی ایلوس پریسلے نہیں ہوں۔ پچھلے سال
انتظار حسین کو جو عالمی ایوارڈ ملنے والا تھا اور آصف فرخی ان کے ساتھ گئے تھے اور یہ ایوارڈ ان کی بجائے ایک مغربی خاتون کو دے دیا گیا‘ تو آصف فرخی مذکورہ بالا تقریب میں نہیں دیکھے گئے۔ شاید انہوں نے احتیاطاً اجتناب کیا ہو کہ کہیں اس بار بھی کھنڈت نہ پڑ جائے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ موصوف کو یہ ایوارڈ بالخصوص ان کے کسی افسانے پر ملا ہے یا ناول پر...‘‘ (کالم دال دلیا از ظفر اقبال روزنامہ دنیا لاہور‘ مورخہ 23 ستمبر 2014ء)
اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ یہاں بے محل سوال کہاں ہے اور ایوارڈ ملنے پر میرا چراغ پا ہونا کدھر سے ثابت ہوتا ہے۔ دوسرے ایوارڈ کا مختصر احوال بھی سنیے:
''کتاب میں جو خاتون اس ایوارڈ کی حقدار ٹھہرائی گئی ہیں‘ یعنی لیڈی ڈیوس کی تحریروں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جو فکشن کی ذیل میں رکھے جانے کے باوجود باقاعدہ فکشن نہیں کہلا سکتیں جبکہ مختصر نویسی کی مثالیں خود ہمارے ادب میں پہلے سے موجود ہیں جن کی روشنی میں موصوفہ کو اس پرائز کا حقدار قرار دیا جانا باعثِ مایوسی نہ سہی‘ باعث حیرت ضرور ہے۔ ایسے ایوارڈز میں یقینی طور پر سیاست بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے‘ یعنی مغرب کی نسبت کسی ایشیائی کی باری مشکل ہی سے آتی ہے۔ انتظار حسین کا ا س ایوارڈ کے دس امیدواروں میں شامل ہونا انتظار حسین کے کم اور خود اس ایوارڈ کے لیے اعزاز کی بات زیادہ ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جسے اپنی زندگی ہی میں ایک لیجنڈ کی حیثیت حاصل ہے جبکہ اس فہرست میں شامل لیڈی ڈیوس سمیت باقی نو میں سے شاید ہی کسی کو یہ اعتبار حاصل ہو‘ یعنی ع
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
اور جہاں تک آصف فرخی کا تعلق ہے تو ان پر یہ شعر چسپاں نہیں ہوتا کہ ؎
بنّے میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مُشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
کیونکہ آندھی نہ سہی‘ ایک زبردست بگولہ تو انہیں بھی کہا جا سکتا ہے۔ بے شک انتظار حسین کی آندھی کے ساتھ ہی انہوں نے یہ سفر طے کیا ہو یعنی وہ بھی کوئی چھوٹی موٹی چیز نہیں ہیں جبکہ انتظار حسین کے لیے تو‘ یہ کہہ دینا کافی ہے یعنی بقول ناسخؔ، آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں‘‘ (لاتنقید مصنف ظفر اقبال‘ صفحہ 503)
یہ راز بھی فاضل جمیلی صاحب کی تحریر ہی سے کھل جاتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں لکھا ہے کہ اسی مضمون میں آگے جا کر لکھتے ہیں ''فی زمانہ جو نوجوان ظفرائے یا جونائے ہوئے پھرتے ہیں انہیں ن م راشد‘ میرا جی‘ مجید امجد‘ ناصر کاظمی‘ منیر نیازی اور شکیب جلالی کی تخلیقی فضا میں کچھ وقت گزارنا چاہیے...‘‘
شاید اصل بات یہ تھی کہ فاضل وقائع نگار کو نوجوان شعرا کا ظفر اقبال اور جون ایلیا کی پیروی کرنا یا ان سے متاثر ہونا ہی ہضم نہیں ہو رہا تھا‘ جس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ نوجوان اس قدر بیوقوف ہیں کہ انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ کام اچھا نہیں ہے‘ اس سے باز آ جائو۔ بلکہ لگتا ایسا بھی ہے کہ خود موصوف کو انتظار حسین کو یہ ایوارڈ ملنا ناگوار گزرا ہے جو میرے بہانے اس کی اس قدر دھول اڑائی گئی ہے کیونکہ خود ان کی مذکورہ تحریر کی ایک ذیلی سرخی یہ بھی ہے کہ ''انتظار حسین کا سکہ اس لیے چل رہا ہے کہ کہانی کار کے ساتھ کالم نویس بھی ہیں‘‘۔ گویا اگر وہ کالم نویس نہ ہوتے تو یہ سکہ کھوٹا تھا اور نہیں چلنا تھا۔ مجھے اور انتظار حسین کو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ پڑھنے والوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ ایک معتبر اخبار کے وقائع نگار سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
آج کا مطلع
محبت ہو چکی‘ ملنا ملانا رہ گیا ہے
جو سچ پوچھو تو خالی آنا جانا رہ گیا ہے